دعوتی عمل اور عملی دعوت

 دعوتی عمل اور عملی دعوت



محمد فہیم الدین بجنوری 

خادم تدریس دارالعلوم دیوبند 

 اسلام کی بسم اللہ، جس دعوتی جد وجہد سے ہوئی تھی، اس کی عالم گیر اشاعت نے، اپنا صدیوں پر مشتمل کام یاب سفر، اسی کے تواناں شانوں پر طے کیا ہے اور بہ حیثیت مجموعی، وہ سفر ہنوز رواں دواں ہے اور تا قیام قیامت جاری وساری رہے گا۔


 خار، گلاب کا مسئلہ ہے، خوش بو کی مہک، سب کو یکساں سرشار کرتی ہے؛ مگر کانٹوں کا جال، گل چینی کی آزو رکھنے والوں کو، کوتاہ دستی پر مجبور کردیتا ہے، "نکہتِ گلاب"، اعتراف واقرار کے لیے، جبر کی حاجت مند ہو، یہ قابلِ تسلیم نہیں؛ رکاوٹوں کی ستم ظریفی نے، سیف وسنان کی درخشاں تاریخ رقم کرائی؛ لیکن کیل کانٹوں کی صفائی کے بعد، میدانِ عمل، دعوت وتبلیغ کو تفویض ہوا اور شمشیر وسنان نے، خود کو، ظلم نصیبوں کی داد رسی اور حرماں بختوں کی فیض رسانی تک محدود رکھا، دین ومذہب میں دخل اندازی سے مکمل پرہیز کیا۔


 جنگ وجدال کے علاوہ، عصر جدید کے بعض سماجی وثقافتی تصورات نے بھی، دعوت کی رکاوٹیں دور کی ہیں؛ لیکن ہندوستانی معاشرہ ابھی اس درجہ بالغ شعور نہیں ہے؛ ان نئے تہذیبی خیالات سے، مغربی ممالک میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے؛ چناں چہ وہاں بڑے بڑے دعوتی سینٹر سرگرم عمل ہیں اور بڑے پیمانے پر کام یاب ہیں؛ بل کہ وہ برادران وطن، جو یہاں دعوت اسلامی پر چراغ پا ہیں، مغربی ملکوں میں آزاد خیالی کی بہتی گنگا میں، وہ بھی ہاتھ دھو لیتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ سنتوں کے پروگراموں میں، گوروں کی بھی کافی نمائندگی دیکھی جاتی ہے۔


 ہمارے یہاں دعوت کے لیے درکار، کارزار کی سرپرستی تو باقی رہی نہیں، آزاد خیالی ہنوز نابالغ ہے؛ اس لیے یہاں کے معاشرے میں، علانیہ دعوتی منصوبے، ہمیشہ پر خطر رہے؛ پھر جب انتہا پسند اور تنگ نظر زاویہء خیال کو اقتدار ملا، تو اس قبیل کی کوششوں کے لیے گنجائش باقی نہیں رہی، معلوم ہے کہ بیرونِ حکومت عناصر کو، جبر کے لیے تشدد کا سہارا لینا پڑتا ہے؛ جب کہ صاحبِ اقتدار، تمام تر خوابوں کی تکمیل کے لیے، قانون وآئین کو پابند ومامور کرتا ہے؛ چناں چہ اس میدان کے تمام نمایاں نام آج سلاخوں کے پیچھے ہیں: مولانا کلیم صدیقی، جناب عمر گوتم، مفتی جہانگیر قاضی.........۔


 دعوتی عمل کی سرگذشت اپنی جگہ؛ لیکن اسی کی دوسری شاخ عملی دعوت ہے، سیرت وکردار کا وار جس قدر کارگر ہے، اسی قدر پر اسرار بھی ہے، یہ وہ ہتھیار ہے جو قتل بالیقین کرتا ہے؛ لیکن داروگیر کے لیے، رقیب کو موقع فراہم نہیں کرتا، کردار کی کرامات کا دشمن کے پاس کوئی توڑ نہیں ہوتا۔


 سورۂ محمد میں، خداوندا، اعتماد واپنائیت کے رنگ میں کہتا ہے: ”ایمان والو! تم سے یہ امید نہیں ہے کہ اقتدار مل جائے تو فساد کرو“(سورۂ محمد: 22)؛ حکومت کے بارے میں ازلی فیصلہ ہے کہ وہ گردش ایام کے ساتھ تبدیل ہوتی رہے گی، (وتلک الأیام نداولھا بین الناس) [آل عمران: 140] سائیکل کے پہیہ میں، نشیب وفراز اپنی جگہ نہیں بدلیں گے، تو سفر میں پیش رفت نہیں ہوگی۔


  ہندوستان بھر میں مصروف طوافِ اقتدار، مسلمانوں کو بھی شاد کام کرتا ہے؛ کتنے ہی دیہاتوں کے پردھان ومکھیا مسلمان ہیں، بہت سے قصبوں میں چیر مین مسلم ہیں؛ لیکن ان کی رپورٹ کارڈ کا کتنا حصہ داعیانہ ہے؟ عملی دعوت کا آغاز ایثار سے ہوتا ہے، داعی ہم درد ہوتا ہے، سرکاری خزانہ ہے، ذاتی مال کی بات نہیں کی جارہی، کیا ہمارا اشرافیہ یہ پیغام دینے میں کام یاب ہوا کہ ہم اس دین کو مانتے ہیں، جو ایثار سکھاتا ہے، ترقی کی ابتدا برادران وطن کی گلی سے ہونی چاہیے، ہم اپنا حصہ آخر میں لیں۔


 خانہء کعبہ کی کلید، عثمان بن طلحہ کے پاس تھی، فتح مکہ کے وقت، وہ مع کلید طلب کیے گئے، رسول اللہ ﷺ اندرون خانہ تشریف لے گئے، باہر رونما ہوئے تو بنی ہاشم کی گردنیں بلند ہورہی تھیں؛ بل کہ عزیز چچا حضرت عباسؓ نے تو زبانی طلب بھی پیش کردی تھی، حضرت علی ؓچابی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے تھے؛ ایسے موقع پر ایثار واخلاق، جوئے شیر ہے، گھر کا دباؤ، خاندان کی مہم، فتح کا ماحول؛ لیکن رسول اللہ ﷺ اخلاق وامانت کے باب کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوئے تھے، آپ نے کلید واپس کی اور اس یاد گار حکم کی بجا آوری پر؛ خود حضرت علی کو مامور فرمایا، کیا ہمارا مقتدر طبقہ اس داعیانہ نمونے کو پیش نظر رکھتا ہے؟


 نہیں ہر گز نہیں؛ اقتدار ملنے پر ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں، مجھے سماج وادی پارٹی کا دور یاد ہے، کیا معمولی دوکان دار! کیا ملازم! اور کیا ٹھیلا گھسیٹنے والا! کوئی مسلمان، "پارٹی لیڈر" سے کم کہلانے پر راضی نہیں تھا، ایک بااثر اور بارسوخ خاندان کے نو خیز کو، میں نے فون پر گفتگو کرتے ہوئے سنا، وہ کسی افسر کے متعلق، بڑے آمرانہ انداز میں کہہ رہا تھا: ”یہ ایسے نہیں مانے گا، اس کا علاج لکھنؤ سے کرانا پڑے گا“۔


 ناقص اقتدار کا نشہ بھی ہمیں بے قابو کردیتا ہے، ہم قومی پروگراموں میں، آٹھ سو سالہ مسلم حکومت پر فخر کرتے ہیں؛ لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اجداد نے وہ حکومت ایثار، ہم دردی، غربا پروری، عدل اور کرم گستری کے اسلحوں سے چلائی تھی، ہم اس وقت بھی آٹے میں نمک ہی تھے اور قدم پھونک پھونک کر رکھتے تھے۔


  حکومتی جبر کی عمر آٹھ سو سال نہیں ہوتی، انگریزوں کا استبداد دو صدی پوری نہیں کرسکا، غول کے غول نے بہ رضا ورغبت، اسلام کی پناہ لی ہے، تو اس کا سہرا صرف اور صرف، حاملین اسلام کے ایثار، غم خواری، اخوت، خدمت، رفاہ، انسانیت اور تکریم انسانیت؛ جیسے اخلاق کے سر جاتا ہے۔  


 حکومت، دعوتی سرگرمیوں پر پہرے بٹھا سکتی ہے؛ لیکن عملی دعوت حکومتی داؤ پیچ کی رسائی سے ماوراء ہے، قرآن اعلان کرتا ہے: ”اگر تم حسن اخلاق اختیار کروگے، تو تمہارا دشمن، جانی دوست بن جائے گا“[سورۂ فصلت: 34]۔


 عملی دعوت کا باب ہنوز مفتوح ہے اور ہمیشہ رہے گا، مزید برآں یہ کہ مامون وبے ضرر بھی ہے؛ لیکن اس کے خاطر خواہ اور بڑے پیمانے پر نتائج دیکھنے ہیں؛ تو اس کا علَم، ہمارے امرا، اصحابِ ثروت اور سیاسی قائدین کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے، ہما شما کا حسن اخلاق بھی ہما شما ہی کہلائے گا۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی