عورت محبت کا استعارہ ہے

  عورت محبت کا استعارہ ہے

ظفر امام قاسمی کشن گنج


                                   دارالعلوم دیوبند کے مؤقر ترین استاذ حضرت اقدس الحاج مولانا شوکت علی صاحب قاسمی بستوی مدظلہ العالی نے جلالین شریف کے گھنٹے میں قرآن پاک کی آیت ” وَمِنْ آیٰتِہٖ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْکُنُواإِلَیْہَا وَجَعَلَ بیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃ“ ( سورۂ روم) (اور اللہ کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہیں میں سے جوڑا بنایا تاکہ تم اس سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان الفت و رحمت کی فضا قائم کردی) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ”مودۃ“ کا تعلق جوانی سے ہے اور ”رحمۃ“ کا بڑھاپے سے۔ 

       مطلب یہ ہے کہ جب میاں بیوی جوانی کے جنگل میں محوِ سفر ہوتے ہیں تو ان کے مابین ایک خاص قسم کی الفت و محبت کی قناتیں تنی ہوتی ہیں،اور یہی میاں بیوی جب جوانی کے جنگل کو بہت پیچھے چھوڑ بڑھاپے کی لق و دق وادی میں جا داخل ہوتے ہیں تو الفت و محبت کی وہ قناتیں رحمت و رافت کے سائبان بن جاتی ہیں،اور عمر کے اس پڑاؤ میں دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے تئیں رحمت و رافت کا ایک ایسا سمندر موجزن ہوتا ہے جس کے دھاروں میں دونوں کا سفینۂ حیات رفتہ رفتہ زندگی کی شام کی طرف بہتا چلا جاتا ہے۔ 

       اس مختصر سی تمہید کے بعد میں آپ کو اپنا ایک آنکھوں دیکھا حال سناتا ہوں کہ کس طرح ایک عورت اپنے بیمار شوہر کے لئے رحمت کا فرشتہ بن جانے کی اور اس کی  بسملِ جاں کو اپنی ناتواں پناہوں میں سمیٹ لینے کی سر توڑ کوششیں کرتی ہے۔ 

      بات کل گزشتہ شام کی ہے،مجھے ایک اصلاحی پروگرام میں شرکت کے لئے اپنے قریبی گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا،منتظمین کی طرف سے حکم تھا کہ میں مغرب کی نماز وہاں جاکر ادا کروں، سو تعمیلِ حکم میں مغرب سے تھوڑی دیر پہلے گھر سے روانہ ہوا، فاصلہ چونکہ معمولی تھا اس لئے چند منٹوں میں ہی مطلوبہ گاؤں پہونچ گیا،جس وقت میں وہاں پہونچا اس وقت سورج اپنی الوداعی کرنوں کے ساتھ افق کے نقاب میں اپنا ارغوانی چہرہ چھپا رہا تھا اور مغرب کی اذان ہونے میں بس چند منٹ رہ گئے تھے۔ 

       ایک منافقانہ خصلت کا آدمی (میں)بھلا مسجد میں بیٹھ کر اذان کا انتظار کرنا کیوں کر گوارہ کر سکتا تھا؟سو اچانک ایک خیال سوجھا کہ کیوں نہ ان چند منٹوں میں اپنے منہ بولے نانا نانی سے مل آؤں( جو اسی گاؤں میں تھے) کہ آج کی اس بھاگم بھاگ اور غرض سے لبریز زندگی میں کہاں کسی کو اتنی فرصت کہ وقت نکال کر کسی کی مزاج پُرسی کر آئے، اس خیال کا آنا تھا کہ ایک مقناطیسی کشش نے میری گاڑی کو اس رخ پر ڈال دیا جس طرف میرے منہ بولے نانا نانی کا گھر تھا۔ 

        میرا یہ منہ بولا نانیہال میری والدہ مرحومہ کی ایک پاکیزہ یادگار،ایک مقدس امانت اور ایک محترم متروکہ ہے، آج سے تقریباً پندرہ سال پہلے میری والدہ نے میرے منہ بولے نانا نانی کی ایک پیاری سی گڑیا کو بہن بول کر ہمارے لئے اس گھر میں آمد و رفت کا راستہ وا کردیا تھا،شروع شروع میں نانا نانی نے سگے نانا نانی کی طرح چاہا،کئی سالوں تک خوب نہال کیا،میں جب بھی مدرسے سے گھر جاتا ایک چکر ضرور نانا نانی کے گھر کا لگا آتا،نانا نانی پلکوں پے بٹھاتے، پیار و محبت کی سیج پر سلاتے اور دعاؤں کا مالا پہنا کر رخصت کرتے۔ 

       پھر وقت گزرتا گیا،رشتوں میں تقدس کی جگہ خود غرضی دامن پسارے گئی،اِدھر میری والدہ کا اچانک انتقال ہوگیا،اُدھر میری ماں کی گڑیا سی بہن کچی عمر میں بیاہ کر پیا کے گھر رخصت ہوگئی،اور پھر ہمارے وجود سے بھی لا ابالی پن کا خمار اتر کر کندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ آن پڑا تو نسبتاً نانا نانی کی مزاج پرسی کم ہوگئی،بس اب سالے ماہے ہی جانا رہ گیا،تاہم مابین محبت کی وہی فضا قائم رہی جو پندرہ سال پہلے ہوا کرتی تھی۔ 

      کل کافی دنوں بعد جب نانا کے گھر جانا ہوا تو دیکھا کہ نانا بستر پر لیٹے ہیں اور نانی پائنتی بیٹھی نانا کے گلے کے زخم کو ٹکور رہی ہیں،علیک سلیک کے بعد پوچھنے پر معلوم ہوا کہ نانا کئی دنوں سے گلے کے ایک اندرونی زخم سے پریشانی میں مبتلا تھے،آج ڈاکٹر کے پاس گئے تھے،ڈاکٹر نے آرام کرنے کی اور آگ سے سینکائی کی صلاح دی ہے۔ 

      تھوڑی دیر بعد میری خالہ یعنی نانا کی منجھلی بیٹی بھی کہیں سےآگئی، نانا نے لیٹے لیٹے ہی اپنی بیٹی کو آواز دی ” صبیحہ! اپنے بھانجے کو جلدی سے چائے پلاؤ،اذان کا وقت ہونے کو ہے “ یہ سن کر میری خالہ تھوڑی دیر میں پانی کا ایک گلاس، طشتری میں بسکٹ لاکر میرے سامنے رکھ گئی اورچائے بنانے میں مصروف ہوگئی۔ 

       میں نے ایک بسکٹ اٹھایا اور ٹکڑوں میں اسے کھانے لگا،اس درمیان میں نانا سے ان کی بیماری کی کیفیت بھی معلوم کررہا تھا،میری خالہ چائے کی دیگچی کو چولہے پر چھوڑ کر اپنے چھوٹے بھائی کو آواز دیتی ہوئی باہر کھلیان کی طرف نکل گئی،اچانک جو منظر میرے سامنے رونما ہوا اس کو میں صحیح طور پر اپنے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا،زندگی میں پہلی بار اس طرح کے منظر کا میری آنکھیں مشاہدہ کر رہی تھیں، وہی آدمی جو مجھ سے بالکل صحیح طور سے بات کر رہے تھے یک بیک ان کا پورا جسم حرکت میں آگیا اور یوں بلیوں اچھلنے لگا جیسے کوئی غیر مرئی قوت ان کے جسم کو اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی طرف جھکولے دے رہی ہو،دانت یوں بجنے لگے جیسے وہ یخ بستہ رات میں برفانی وادیوں سے گزر کر آئے ہوں،بس ان کی زبان سے بار بار یہی الفاظ سنائی دے رہے تھے کہ ”مجھے بہت کڑاکے کی ٹھنڈ لگ رہی ہے،میرے اوپر لحافوں کی تہیں جمادو“! 

      اپنے اچھے بھلے نانا کی یہ اندوہناک حالت دیکھ کر میرے چہرے پر ہوائیاں اڑ گئیں،گھبراہٹ سے میرا سینہ دہل اٹھا، وہاں پڑے جتنے سارے لحاف اور کمبل تھے میری نانی اور میں نے سب اٹھاکر ان پر ڈال دئے،مگر ان کا جسم تھا کہ تھمنے میں ہی نہیں آتا تھا،آنگن پورا خالی،گاؤں کے سارے آدمی پروگرام کے انتظام و انصرام میں جٹے تھے،میں تنہا مرد ذات وہ بھی بے انتہا ڈر پوک اور ناتجربہ کار سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں! 

       ایسی پریشان کن،دل فگار اور روح فرسا حالت میں میری نانی کی کیفیت دیکھنے کے لائق تھی،میں اپنی آنکھوں سے ان کی حرکات و سکنات کو دیکھ رہا تھا،وہ یقیناً اس وقت اپنے شوہر کے لئے رحمت کا فرشتہ بننے کی کوشش کر رہی تھیں، کچھ اَن دیکھے اور اَن جانے اوہام نے ان کو پاگل سا بنا دیا تھا،وہ بڑی بے تابی کے ساتھ اپنے شوہر کے تھرکتے ہوئے جسم کو اپنی آغوش میں یوں سمولینے کی ناکام جتن کر رہی تھیں جیسے کوئی مرغی چیل کے بےرحم پنجوں سےاپنے چوزوں کو اپنے پروں کے سائے میں چھپالینے کی کوشش کرتی ہے۔ 

       اس بیچ تقریبا پانچ منٹ کا عرصہ گزر گیا،ان کے جسم پر لحاف اور کمبل کی تہیں جما دی گئیں،ایک طرف میری نانی اپنے ہاتھوں سے ان کے جسم کو دبائے ہوئے تھیں اور دوسری طرف میں،مگر جسم تھا کہ ساکن ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا،دفعۃً میرے دماغ میں بجلی سی کوندی اور میں دو چار جست ہی میں گھر سے باہر نکل کر کھلیان میں جا پہونچا، ان کے بھتیجوں کو اپنے نانا کی یہ کیفیت سنائی،ان کے بھتیجے خبر سنتے ہی افتاں و خیزاں اس سمت کو دوڑ پڑے، چند گھرانوں سے گھِرے اس چھوٹے سے گاؤں میں خبر پھیلتے زیادہ دیر نہ لگی،تھوڑی ہی دیر میں لوگوں کے ہجوم سے پورا کمرہ اٹ گیا،ان کی بیوی بیٹیوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا، ان کے بین دلوں کو پاش پاش کرنے لگے،آنا فانا میں گاڑی منگائی گئی اور میرے نانا کو اٹھا کر ڈاکٹر کے یہاں لے جایا گیا،دیر رات واپسی ہوئی،الحمد للہ اس وقت تک آہستہ آہستہ ان کی طبیعت میں سدھار آچکا تھا،اور وہ ایک بہت بڑے خطرے سے نکل آئے تھے۔ 

        یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اس کارزارِ حیات میں ایک عورت کو اپنے سہاگ کی بِندی سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں،ایک عورت کے دل میں ہمیشہ یہ ارمان جوان رہتا ہے کہ وہ سہاگن مرے،یعنی مرتے وقت بھی وہ اپنے شوہر کے وجود کے فرحت آگیں سایے میں اپنی آخری سانس لینے کی آرزو مند ہوتی ہے،ایک عورت اپنی کائنات کا کُل اثاثہ اپنے شوہر ہی کو سمجھتی ہے،وہ اس کی خوشی کے لئے اپنے وجود کو پگھلا دیتی ہے،ایجاب و قبول ہوتے ہی ایک عورت کے پر لگے منتشر خوابوں کو قفس لگ جاتے ہیں،ان کے رنگین ارمان آفاق سے سمٹ کر ایک شوہر کے وجود میں سما جاتے ہیں،وہ اپنا اوڑھنا بچھونا اگر کسی کو سمجھتی ہے تو وہ اس کا شوہر ہے،اس کے دل کی تھاپ پر مسرت کی مضرابیں اس وقت لگتی ہیں جب اس کا شوہرمسکرا رہا ہوتا ہے اور اس کی آنکھوں سے اشکوں کی برسات بھی اس وقت پھوٹتی ہے جب اس کا شوہر کسی غم میں مبتلا ہوتا ہے، غرض یہ کہ ایک عورت کی خوشی اور دکھ کا راز اس کے شوہر کی خوشی اور دکھ میں مضمر ہے۔ 

       عورت ہر دور میں اپنے شوہر کے لئے محبت کا استعارہ، وفا کی مورت،الفت کا مجسمہ اور ایثار کی پیکر رہی ہے، ابتدائے اسلام میں جب غازیانِ اسلام کی معمولی سی چوک کی وجہ سے احد کے میدان میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور اسلامی تاریخ کے اوراق میں اس جنگ کی فتح رقم ہوتے ہوتے رہ گئی،جنگ کے بعد جب غازیانِ اسلام کا تھکا ہارا، زخموں سے چور اور غموں سے رنجور قافلہ احد سے مدینہ کے لئے نکلا تو راستے میں حضرت حمنہ بنت جحش نامی ایک صحابیہؓ آتی ہوئی ملیں،انہیں ان کے ماموں حضرت امیر حمزہؓ کی شہادت کی خبر دی گئی اس پر انہوں نے انا للہ الخ پڑھا اور آگے بڑھنے لگیں،اس بھیڑ میں ان کی نگاہیں ایک وجود کی جستجو میں سرگرداں تھیں،وہ اس چہرے کی تلاش میں لوگوں کی بھیڑ کو پھاڑتی چلی جا رہی تھیں کہ اچانک ان کے کانوں میں یہ آواز پڑی کہ ” تمہارے شوہر مصعب بن عمیرؓ بھی شہید ہوگئے“ اتنا سنتے ہی وہ بیتاب ہوگئیں،ان کے بڑھتے قدم زمین سے پیوست ہو کر رہ گئے،وہ خلاؤں میں یوں تکنے لگیں جیسے ان کی کوئی عزیز شئے خلاؤں کی وسعتوں میں گم ہوگئ ہوں، ان کی پلکیں حرکت میں آئیں اور آنسوؤں کے سمندر میں ڈوب گئیں،یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” ہر عورت کو اپنے شوہر سے زیادہ محبت ہوتی ہے “۔ 

       مگر یہ بھی اس کائنات کا روز اول سے ہی المیہ رہا ہے کہ اس کے تختے پر عورت کو ہمیشہ دوم کا درجہ دیا گیا ہے، اس کا نصیب کبھی پسماندہ کھانے سے آگے نہ بڑھ سکا،وہ ایک شوہر کے لئے اپنا ماں باپ،بھائی بہن،سکھی سہیلی،رشتہ دار و خاندان سب کچھ قربان کر دیتی ہے مگر اسی عورت کا مرد کے سامنے ایک بول بولنا بھی خطا بن جاتا ہے،اس جہاں میں اگر کوئی مخلوق سب سے زیادہ مظلوم ہے تو وہ عورت کی ذات ہے۔ 

        اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ عورت کو اس کا مکمل حق دیا جائے،معاشرے میں اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے،اس کی آرزوؤں کا خیال رکھا جائے،اسے اپنے تحفظ اور پاسبانی کے سایہ میں مکمل عزت و احترام کے ساتھ رکھا جائے اور اس کی ایثار و محبت کا جواب الفت و پیار سے دیا جائے تاکہ ایک عورت کا وجود جو پہلے ہی سے کمزور ہوتا ہے مرد کی بے مروتی اور سرد مہری کا شکار بن کر ٹوٹ پھوٹ کر پُرزوں میں بکھر نہ جائے۔ 


                                  

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی