ارتداد کی جگہ کالج یا ہمارا گھر قسط دوم

 ارتداد کی جگہ کالج یا ہمارا گھر

ایک تجزیہ 

قسط دوم


محمد شاداب سیتا مڑھی بہار  

جن لڑکیوں  کو ہم مسلمان سمجھتے ہیں ان میں بڑی تعداد مسلمانوں کی نہیں ہے  ۔۔۔۔۔اس بات کو سمجھٸے 

کالج میں پڑھ رہی یہ لڑکیاں ٦۔۔۔٧ گھنٹے کالج اور تین سے چار گھنٹے کوچنگ میں گزارتی ہے ان کا گھر سے تعلق سواٸے کھانے اور سونے کےکچھ نہیں ہوتا اور یہ بات بھی سچ ہے کہ جب وہ گھر آتی ہونگی تو وہ ذہنی اور جسمی طور پر تھکی ہوتی ہے کسی سے زیادہ بات بھی کرنا مشکل ہوتا ہوگا 

لہزا ان کو گھر میں کوٸ دین سکھانے والا دین کی باتیں کرنے والا نہیں ہوتا کیویکہ ہر شخص کو اپنی اولاد دنیوی معاملہ میں آگے چاہٸے ہوتاہے پھر اسی گھر کے باہر اس کا بھاٸ رات بھر کسی لڑکی کے ساتھ عیاشی کررہا ہوتاہے جسے دیکھ کر ان  لڑکیوں کو ان کی عیاشی جاٸز معلوم ہونے لگتی ہے اور پھر کیا 

وہ بھی کالج اسکول میں  غیروں کے ساتھ  ہنسی مذاق دوستی پیار ومحبت کرتی ہے 

باہر رہ کر پڑھ رہی لڑکیاں ہو یانوکری کرنے والی ان کا گھر سے تعلق صرف کھانے اور سونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا زیادہ تر اوقات ان کا غیروں کے ساتھ گزرتا ہے جس کا اثر ان کی زندگی میں صاف صاف دیکھ رہا ہوتا ہے 

پانچ دس ہزار کی نوکری کرنے والی لڑکیاں زیادہ تر غیروں کے ساتھ عیاشی کررہی ہوتی ہے 

کیویکہ عام طور پران کی نوکری  غیروں کے یہاں ہوتی ہے جہاں ان کو دیکھنے والا کوٸ نہیں ہوتا 

ساتھ ہی ان کے باپ بھاٸ اتنے بے شرم بےغیرت ہوتے ہیں کہ اپنی بہن بیٹی کی ایمان بیچ کر لاٸے جارہے پیشہ پر عیش کرتے ہیں اور  انہیں کوٸ پریشانی بھی نہیں ہوتی 

چند ضرورت مند لڑکیوں کو چھوڑ دیاجاٸے جو مجبوری کی وجہ سے نوکری کرتی ہے 

مگر زیادہ تر لڑکیوں کو آپ پاٸیںگے کہ وہ پیسہ کمانے کے لٸے وہ نوکریاں کررہی ہے اور انکے مرد جوکہ اصل میں غیر مرد ہے گھر میں یوہی بیٹھے رہتے ہیں نشہ وعیاشی میں مبتلا ہوتے ہیں 

اگر آج یہ کہاجاٸے بےشمار بدین حرام خور مسلمانوں نے اپنی بہوں بیٹیوں کو نوکری کے نام پر عیاشی کرنے کو چھوڑ دیاہے تو یہ مبالغہ نہ ہوگا


محمد شاداب 

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی