حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی اورامارت شرعیہ،بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ محمد رضاء اللہ قاسمی،فاضل دارالعلوم دیوبند

 حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی

 اورامارت شرعیہ،بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ

محمد رضاء اللہ قاسمی،فاضل دارالعلوم دیوبند

امارت شرعیہ بہار،جھار کھنڈو اڑیسہ حضرت مولاناابوالمحاسن سجادصاحب ؒکے عالی دماغ، فکر ونظر کی بلند ی اور اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لیے ان کی فکر مندی کا نتیجہ ہے۔ امارت شرعیہ جس شکل و صورت میں آج ہمارے سامنے ہیں اور امارت مختلف جہتوں اور شعبوں میں ہندوستانی مسلمانوں کو فیض یاب کررہا ہے تواس کے پیچھے جن شخصیتوں کا بہت ہی اہم کردار رہا ہے، ان میں سے حضرت امیر شریعت رابع مولاناسید شاہ منت اللہ رحمانی،مولاناقاضی مجاہد الاسلام قاسمی،امیر شریعت سادس مولانا سید محمد نظام الدین ؒاورمولانا انیس الرحمن قاسمی کی ہے۔حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی ایک عالم باکمال، تجربہ کار مربی، بیدا ر مغز مدبر ومنتظم، نرم وگرم چیدہ رہبر، ماہر فقہ وقضا، سیاسی بصیرت کے مالک، صاحب فکر ونظر، مؤلف ومصنف، پیکر سادگی، کم گواور بہت سارے اداروں کے سر پرست ہیں۔ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں ہوئی،اس کے بعدمدرسہ ریاض العلوم ساٹھی میں داخل ہوئے اورمتوسطات تک تعلیم حاصل کی،اس کے بعد تحصیل علم کے لیے1973ء میں دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے، وہاں چھ سال تک ما ہر فن اساتذہ سے اکتساب فیض کیا۔1979ء میں دارالعلوم دیوبندہی افتاکیا، فراغت کے بعد ایک سال مزید رہ کر تحقیق وتصنیف کا کام کیا۔قیام دارالعلوم کے دورن حضرت امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی علیہ الرحمہ اور مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ الرحمہ سے ملاقات ہوئی اوردارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد جامعہ رحمانی مونگیر آجانے کا مشورہ دیا،چنانچہ فراغت کے بعد1980کے اواخر میں جامعہ رحمانی مونگیر میں بحیثیت استاذمقررہوئے۔اسی دوران حضرت مولانا سید نظام الدین امیر شریعت سادسؒ اورحضرت مولاناقاضی مجاہد الاسلام قاسمی نوراللہ مرقدہ سے مولانا انیس الرحمن قاسمی کی ملاقات ہوئی،ان دونوں بزرگوں نے حضرت امیر شریعت رابع علیہ الرحمہ سے بات کی اوران کی اجازت کے بعد جامعہ رحمانی مونگیر سے منتقل ہوکر آپ امارت شرعیہ آگئے،جہاں آپ کوحضرت امیر شریعت رابع علیہ الرحمہ نے امارت شرعیہ کے ”شعبہ دار القضاء“ میں خدمت پر مامور کردیا،پہلے ”معاون قاضی“ کی حیثیت سے متعین ہوئے،پھر اپنی فرض شناسی اور قابلیت کی بہ دولت ترقی کی منزلیں طے کیں۔ چند سالوں کے بعد ”نائب قاضی“کے منصب پر فائز کئے گئے اور عرصہ تک حضرت مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمی علیہ الرحمہ کی نگرانی میں قضا کی خدمت انجام دی، یہاں تک کہ آپ کا شمار یہاں کے قابل ترین قاضیوں میں ہونے لگا۔حضرت امیر شریعت رابع علیہ الرحمہ نے آپ کو ابتدامیں مسلم پرسنل لابورڈ کی میٹنگوں میں بحیثیت مدعوشرکت کرنے کا حکم دیا،کچھ سالوں کے بعد آپ کو بورڈ کا ممبر نامزد کیا اورکچھ ہی عرصہ کے بعد رکن تاسیسی بنادیا۔حضرت امیر شریعت رابع کا اعتماد واعتبار ہی تھا کہ آپ کئی کمیٹیوں میں شامل رہے۔

امارت شرعیہ کی زندگی:

حضرت امیر شریعت خامس مولانا عبدالرحمن صاحب نے 29ستمبر1998کو داعی اجل کو لبیک کہا،یکم نومبر1998کو بہ اتفاق رائے حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب علیہ الرحمہ امیر شریعت سادس منتخب ہوئے،حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب علیہ الرحمہ کے امیر شریعت بننے کی وجہ سے نظامت کا عہدہ خالی ہوا تو حضرت امیر شریعت سادس علیہ الرحمہ اورحضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی علیہ الرحمہ نے مولاناانیس الرحمن قاسمی کوامارت شرعیہ کی نظامت کی اہم ذمہ داری سپرد کی۔حضرت مولانا نے امارت شرعیہ کی نظامت کو ایک امانت سمجھ کر قبول کیا اور پوری ہوش مندی اور بیدار مغزی کے ساتھ امارت شرعیہ کی حفاظت اور ترقی میں مشغول ہوگئے۔میرے علم کے مطابق جس وقت مولانا انیس الرحمن قاسمی ناظم امارت شرعیہ بنائے گئے،اس وقت امارت شرعیہ کی تنظیم صرف تین ہزارگاؤں میں تھی،جسے مولانا نے اپنی انتھک محنت اورلگن سے ساڑھے نوہزارگاؤں تک پہونچادیا،اسی طرح اس وقت یعنی 1999میں امارت شرعیہ کے نقباء اورنائب نقباء کی تعداد صرف چھ ہزار تھی،جسے مولانا نے سترہ ہزارتک پہونچایا،مولانا نے اپنی دوراندیشی اورحکمت عملی سے امارت کے لیے بہار،اڈیشہ اورجھاڑکھنڈ میں 15ایکڑ زمین حاصل کیں،جس پرامارت کی متعدد عمارتیں بنائی گئیں،میرے علم کے مطابق جب مولانا انیس الرحمن قاسمی ناظم بنائے گئے اس وقت امارت کاسالانہ بجٹ صرف 63لاکھ تھا،جسے مولانا نے اپنی محنت اورلگن اورفعال قیادت سے 7 کروڑ تک پہونچا دیا۔اُن کے عہد ِ نظامت میں بے شمار ملی و فلاحی کام انجام پائے۔ اُن کی کوششوں سے ذیلی دار القضاء کی 35مختلف شاخیں بہار، اڈیشہ وجھار کھنڈ میں قائم ہوئیں اوربلڈنگ کی تعمیرکا کام انجام پایا۔امارت شرعیہ میں تحفیظ القرآن کی بلڈنگ کی تعمیری کام ہوا۔5نئے ٹکنیکل ادارے کھلے۔2000میں ریاض آئی ٹی آئی ساٹھی،2002میں امارت عمر ٹکنیکل انسٹی ٹیوٹ کی بنیادراورکیلا میں رکھی گئی،نیزلڑکوں کے لیے امارت انسٹی ٹیوٹ آف کمپیوٹر اورلڑکیوں کے لیے ڈاکٹر عثمان غنی کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ قائم ہوئے۔4اپریل2002کو حضرت قاضی مجاہدالاسلام قاسمی علیہ الرحمہ کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈویلفئرٹرسٹ کے سکریٹری بنائے گئے،جس کی وجہ سے ٹرسٹ کے ماتحت چلنے والے اداروں کو بڑا فائدہ ہوا۔FCIروڈ پھلواری شریف پٹنہ میں 18کٹھہ زمین حاصل کی جاچکی تھی،مولانا قاسمی کی محنت سے اس میں ہاسٹل اورلائبریری تعمیر ہوئی۔ پورنیہ، ارریہ، بہارشریف، سہرسہ، کشن گنج،کٹیہار،دملہ مدھوبنی،چترپور اورسیوان میں دارالقضاء اوردفتر کے لیے بلڈنگیں تعمیر ہوئیں۔راورکیلا میں شفاخانہ کی تعمیر بحسن وخوبی انجام کو پہونچا۔دارالعلوم الاسلامیہ کی مسجد اوردرسگاہ کی عمارت وغیرہ کی تعمیر کے علاوہ بے شمار کام ہوئے، جو مستقل ایک روشن باب ہے۔جمشید پور میں اسپتال کی تعمیرکاکام مکمل ہوا۔اسلامک ڈولپمنٹ بینک جدہ کے ممبر ہونے کی وجہ سے بڑا فائدہ ہوا۔ رانچی اورپورنیہ میں ٹکنیکل انسٹی ٹیوٹ کی بلڈنگ تعمیرمیں اسلامک دولپمنٹ بینک سے مالی تعاون حاصل کیاگیا۔مولانا سجاد میموریل اسپتال میں اضافے کے لیے زمین کی خریداری ہوئی اورتعمیری مراحل کو مکمل کروایا گیا۔ مرکزی دفتر کی تیسری منزل اور جدید مہمان خانہ کی تعمیرہوئی۔گریڈیہہ،رانچی،آسنسول(مغربی بنگال) اور مختلف اضلاع میں دفاتر اور اسکول کے لیے اراضی کی خریداری ہوئی۔تعلیم اور خدمتِ خلق کے میدانوں میں وسعت ہوئی،حکومت بہار اورحکومت ہند کی اسکیم سروشکچھا ابھیان اورہنروپروگرام سے بیس ہزار سے زائد بچے اوربچیوں کونئے سرے سے تعلیم سے جوڑا گیا،ہنرپروگرام کے تحت مسلم لڑکیوں کو حکومت بہار سے مفت سلائی مشین کے لیے رقم دلوائی گئی۔امارت شرعیہ کے وفود کے دوروں میں نئی قوت وتوانائی پیدا ہوئی۔ شعبہ دعوت وتبلیغ،شعبہ تصنیف وتالیف سمیت کئی شعبہ جات مزید قائم کئے گئے۔ اُن کی اِن چالیس خدمات کے باعث امارت شرعیہ کا وقار واعتبار بلند ہوا۔خدمت خلق:

مولانا انیس الرحمن قاسمی کے مدت کار میں کئی جگہوں پر فرقہ وارانہ اور نسل کش فسادات ہوئے،ان ہولناک فسادات کے دوران متاثرین کی امداد،مسلمانوں کے جان ومال کی حفاظت کو یقینی بنانے کی ہرممکن کوشش کی گئی،بعض مقامات پرمولانا خود تشریف لے گئے اورکیمپ کرکے متاثرین کی امداد کی،بے قصور مارے گئے اہل خانہ کو تسلی دی،فوری طور پر امداد وریلیف کا انتظام کیا۔1999ء میں سوپرسائیکلون اڈیشہ،2001میں گجرات کا بھیانک زلزلہ،2002میں گجرات کا بھیانک زلزلہ،2002میں گجرات کا فرقہ وارانہ فساد،2003میں مغربی بنگال کے نعمت گاؤں میں فرقہ وارانہ فساد،2004میں شمالی بہار کابھیانک زلزلہ،2004میں سونامی کا ہولناک طوفان،2005میں مؤ کا فساد،2007میں شمالی بہار کے 15سے زائد اضلاع میں بھیانک سیلاب،2008میں کوسی کا پشتہ ٹوٹنے کی وجہ آئی بھیانک تباہی،اسی طرح بنگال کا آئیلہ طوفان،دھولیہ کا فساد،2013میں مظفرنگر کا فساد،کشمیرکا بھیانک سیلاب،ان تمام فسادات وتباہ کن سیلاب میں آپ کی گراں قدر خدمات قابل ذکر ہیں۔مولانانے سی اے اے،این آرسی اوراین پی آر کے خلاف کافی منظم اورمنصوبہ بندتحریک چلائی،اس کے لیے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اورسیاسی وسماجی شخصیات،اداروں کے ذمہ داران اورقانونی ماہرین کے ساتھ مشورے کئے اوراپنے بیانات کے ذریعہ عوام وخواص کو ان تینوں قوانین کی حقیقت سے واقف کرایا اوراس کا مقابلہ کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں ذاتی طور پر مقدمہ بھی درج کروایا اورعوامی سطح پر اس تحریک کو مضبوطی دینے کے ایک عظیم الشان اجلاس گاندھی جی کی یوم وفات پر منعقد کرکے عوام وخواص کو بیدار کیا۔

قومی وملی ادارے:

1990 کے دہائی میں ہندوستانی مسلمان کی شدید بے چینی،پریشانی اور اضطراب کو دور کرنے کے لیے مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نے اتحاد ملت کا نعرہ بلند کیا،تمام مسالک ومکاتب کے علماء کو ایک اسٹیج پر آنے کی دعوت دی۔نومبر 1992 میں آل انڈیاملی کونسل کا قیام عمل میں آیا،اس تاسیسی اجلاس میں حضرت مولاناشریک ہوئے اوررکن تاسیسی قرارپائے۔اس وقت مولانا ملی کونسل کے قومی نائب صدر اوربہار ریاستی ملی کونسل کے سرپرست ہیں۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانان ہند کی ایک غیر حکومتی تنظیم ہے، جو سنہ 1972ء میں قائم ہوئی۔ حضرت مولاناانیس الرحمن قاسمی 1983ء سے مسلم پرسنل لابورڈ سے منسلک ہیں اوراس کے تاسیسی رکن کے علاوہ مجلس عاملہ کے رکن ہیں۔

دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ 1894ء میں قائم ہوا،حضرت مولانا محمدعلی مونگری علیہ الرحمہ نے اسے قائم فرمایا،حضرت مولانا اس ادارہ کے اہم رکن ہیں،دارالعلوم کی میٹنگوں میں حضرت مولانا کے مشوروں کو بڑی اہمیت دی جاتی ہیں۔

اسلامک فقہ انڈیا1988 میں قائم ہونے والا ایک فقہی ادارہ ہے، قاضی مجاہد الاسلام وفات تک اس کے بانی و صدر رہے۔حضرت مولاناانیس الرحمن قاسمی ابتدائے قیام سے ہی اس ادارہ کے بانی اورتاسیسی ذمہ داروں میں رہے اورتمام ہی سیمناروں اورورکشاپ میں شرکت کرتے ہیں اورمقالات بھی لکھتے ہیں۔

2009 ء میں حضرت مولانابہار اسٹیٹ حج کمیٹی کے چیرمین بنائے گئے،2015ء میں دوسرا ٹرم پورا ہوا،مولانا کی خصوصی محنت سے ریاست میں عازمین حج کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ مولانا کے دور صدارت میں اکتوبر2014میں بی پی ایس سی میں داخلے کے لیے مسلم لڑکے اورلڑکیوں کی کوچنگ کا انتظام کیا گیا،پہلے سال اقلیتی طبقہ کے امیدواروں کو 56 سے 59 ویں بیچ کی تیاری کرائی گئی، جن میں 90 طلباو طالبات نے شرکت کی اوریہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

 سیاسی بصیرت:

حضرت مولانا اپنے اکابر واسلاف کی طرح خاص سیاسی نگاہ کے مالک ہیں۔ صوبائی، ملکی اور عالمی حالات سے باخبر رہتے ہیں، کہیں کوئی حادثہ، یا تکلیف دہ صورتِ حال پیش آتی ہے تو بے چین ہو جاتے ہیں۔وہ اپنی دور اندیشی،بالغ نظری اور سیاسی بصیرت میں اپنے ہم عمروں پر فوقیت حاصل کر چکے ہیں۔

مردم شناسی:

 حضرت مولانادامت برکاتہم کے اندر ایک بڑی صلاحیت،انسان شناسی ہے، وہ بہت جلد سمجھ جاتے ہیں کہ متعارفین اور لائق افراد میں سے کون کس خوبی کا آدمی اور خرابی کا آدمی ہے، امارت شرعیہ کی قیادت کی منبر سے سال ہا سال جو صوبائی وملکی اور ملی ودینی کارنامے وہ انجام دیتے آئے ہیں، اُن میں بہت بڑارول اُن کی انسان شناسی اور لیاقت کے عرفان کا ہے۔ وہ اَن گنت کام کے آدمیوں سے مختلف الانواع کام لے رہے ہیں، لائق انسانوں کا حصول جتنا مشکل کام ہے، اِ س اہل دانش اچھی طرح جانتے ہیں اور اِ س سے بھی زیادہ مشکل اُن سے کام لینا ہے۔ 

اخلاق وعادات:

نہ ہٹو نہ بچو،نہ ہو نہ ہنگامہ،نہ کروفر،نہ آب وتاب،نہ دکھنے دکھانے کی دھن،نہ بننے سنورنے کی لگن،نہ مریدوں کی فوج،نہ تملق بازوں اورچاپلوسوں کی انجمن،دیکھنے میں عام سے؛ لیکن خاص بہت خاص،سادہ لباس،سادی سی ٹوپی،ہاں کبھی شروانی تو کبھی صدری زیب تن،نہ بزرگیت کا رعب دکھانے کے لیے ہاتھ میں لاٹھی اورنہ جبہ ودستار،نہ بڑی بھاری سی پگڑی،سیدھی سادھی عالمانہ ہیئت،کوئی دیکھے تو اندازہ لگانا مشکل ہے، یہ کون ہے اورکتنی بڑی شخصیت کا مالک ہے،دورسے بس ایک عام سا مولوی؛لیکن کوئی مل بیٹھے تو ان کی علمی شخصیت سے مرعوب ہوکر رہے۔نہ عہدے کا غرور،نہ علم کا پندار،نہ خودرائی کی سرمستی؛لیکن خودی کا احساس، نخوت سے پاک،نفرت سے دور،شہرت وریا سے نفور،یہی وہ سادگی اورپرکاری؛بلکہ متضادصفتیں حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی کی شخصیت میں جمع ہیں،جوانہیں سب سے الگ اور سب سے ممتازبناتی ہیں،کوئی اجنبی سے اجنبی شخص جس سے دورتک بھی شناسائی نہ ہو،اس سے بھی ایسی مقالات نہ جانے کب کا یارانہ ہے،ہر ملنے والے کے دل میں یہی احسا س ہوتا ہے کہ مولانا ہم سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں اورمیں ان سے سب سے زیادہ قریب ہوں،ملازمین اورماتحتوں کے ساتھ محبت آمیز برادرانہ سلوک،ان کی ایسی خوبی ہے جس میں بہت کم لوگ سہیم وشریک ہو سکتے ہیں،بہت دفعہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک معمولی سے معمولی شخص جس کا نہ کوئی وقارہو نہ سماجی امتیاز اگر اسے کوئی عہدہ مل جاتا ہے تو وہ کرسی کی نخوت اورگھمنڈمیں اچھے اچھوں کاخاطرمیں نہیں لگتا ہے اورخود کو بادشاہ وقت اورتمام دنیا کو اپنا غلام تصورکرتا ہے؛لیکن مولانا کی خوبی یہی ہے کہ جب وہ ناظم امارت شرعیہ تھے، تب بھی اورجب وہ حج کمیٹی آف بہارکے چیرمین تھے، ان کے اندازمیں کوئی فرق نہیں آیا، وہی تواضع اورانکساری سے ملنا،ہرچھوٹے بڑے سے برادرانہ سلوک کرنا ان کی جبلت میں داخل ہے۔حضرت مولاناقاسمی صاحب حسن اخلاق کے مجسم ہیں،آپ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ سب کے کام آتے ہیں، سب سے اخلاق کریمانہ کے ساتھ ملتے ہیں اورسب کے لیے ان کا دروازہ کھلا رہتا ہے، مولانا اس وصف میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔

افکار ونظریات:

حضرت مولانا کے افکاروخیالات،ان کے مقالات ومضامین اورکتابوں میں ہیں،ان میں سے ایک اہم فکر اتحاد ملت ہے،حضرت مولانا میں اتحادِ ملت کی بڑی فکر ہے، اسی کے لیے وہ بولتے ہیں، اِسی کے لیے لکھتے ہیں، اِسی کے لیے دورے کرتے ہیں، اسی کے لیے مشورے کرتے ہیں، اِسی کے لیے جاگتے ہیں،اِسی کے لیے اپنا خون جلاتے ہیں۔

اعزازواکرام:

حضرت مولانادامت برکاتہم نے امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے جو دینی وملی خدمات کے نقوش چھوڑے ہیں،اس کے اعتراف میں انہیں یہ حق حاصل ہے کہ انہیں اعزازواکرام سے نوازاجائے،ملک کے مختلف علمی،سماجی ودعوتی تنظیموں نے آپ کی خدمات کے اعتراف میں مختلف ایوارڈوں سے نوازا۔

فتاویٰ علماء ہند/تفسیر القرآن:

ابوالکلام ریسرچ فاؤنڈیشن ایک علمی،تحقیقی دینی،ملی و فلاحی ادارہ ہے،فتاویٰ علمائے ہند کی جمع و ترتیب کاکام کئی سالوں سے انجام دیا جا رہا ہے۔۰۶/جلدوں پر مشتمل برصغیر کے گزشتہ دو سو سال کے مشہور ومعروف علماء کرام ومعتبر و مستند مفتیان کرام کے فتاویٰ کا ضخیم مجموعہ مستند حوالہ جات اور مفید حواشی کے ساتھ منفرد انداز میں تیار کیاجارہا ہے۔

قرآن کریم کا ابدی اورلافانی پیغام کو عام کرنے کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ(1)احکام ونصائح قرآنی(2)دینی وسائنسی علوم۔(3)قرآن کا فلسفہ تعلیم(4)سول سوسائیٹی اور قرآن(5)تخلیق انسانی آیات قرآنی میں (6)جغرافیہ قرآن (7) فلکیات قرآن(8)تاریخ قرآن (9)حیوانات قرآن(11) اشجار قرآن(12)قرآنی ادب وغیرہ علوم وفنون کی طرف اہل علم توجہ دیں اورقرآن کریم کی ایسی تفسیر تیارکی جائے،جو انسائیکلوپیڈیا کے طورپرہو۔حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی کی نگرانی میں بیس جلدوں پر مشتمل قرآن کریم کی ایسی تفسیر تیارکرنے کے منصوبہ کی شروعات ہوچکی ہے۔

تصنیف وتالیف:

زبان وقلم اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے،قلم کے ذریعہ اللہ پاک نے بے علم انسانوں کو علم کے زیور سے آراستہ کیااورانسان کو وہ سب کچھ سکھایا، جس سے وہ نا آشناتھا،افکاروخیالات اورفکر ونظرکی ترسیل کازبان ایک اہم ذریعہ ہے؛لیکن خطابت و تقریروقتی ہوتی ہے،جب کہ فکرونظرکے ذریعہ وہی نوک قلم سے صفحہ قرطاس پر بکھرنے کے بعد حیات جاودانی حاصل کرلیتے ہیں،مولاناانیس الرحمن قاسمی صاحب کو بخشنے والے رب نے قلم کی دولت سے بیش بہا سرمایہ عطا کیا ہے،ان کی کتابیں شوق کے آنکھوں سے پڑھی جاتی ہیں اوردل کے ہاتھوں سے لی جاتی ہیں۔اب تک حضرت مولاناکے گہر بار قلم سے چھوٹی بڑی تقریباًبیسیوں کتابیں چھپ چکی ہیں،جن میں:

(1)خطبات جمعہ (اردو) (2) طہارت کے احکام ومسائل

(3) لباس کے احکام ومسائل (4) خلع کا اسلامی طریقہ

(5)تعمیرات کے احکام ومسائل (6) مصنفین زندان

(7)اسلامی حقوق (8)مکارم اخلاق

(9) حیات سجاد (مجموعہ مضامین ومقالات) (10) کھانے،پینے،سونے کے احکام ومسائل

(11)مقالات انیس (مرتبہ: نیر اسلام قاسمی) (12)تعلیم کی اہمیت

(13)معاشرتی اصلاح (14)ہمارا خاندان کیساہو؟

(15) الشیخ ابن تیمیہ وافکارہ (عربی)(غیر مطبوعہ)

(16)مولانا سجاد: حیات وخدمات (مجموعہ مقالات ومضامین از اصحاب قلم)

(17)اصلاح ِ معاشرہ اورسماج کی ذمہ داریاں (18)اخلاقیات الحرب فی السیرۃ النبویۃ (عربی)(غیر مطبوعہ)قابل ذکر ہیں۔

امارت شرعیہ:اغراض ومقاصد کے آئینہ میں:

کسی بھی ادارہ کی ترقی کا دارومدار اس کے اغراض ومقاصد پر ہوتا ہے،امارت شرعیہ کے اغراض ومقاصدکی عظمت اوربلندی کا حال یہ ہے کہ یہ ادارہ سوسال سے اپنی عظمت کے ساتھ ترقی کی جانب گامژن ہے؛اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اجمالی تذکرہ کردیا جائے،جو کہ حسب ذیل ہے:

(۱) منہاج نبوت پرنظام شرعی کا قیام؛ تاکہ مسلمانوں کے لیے صحیح شرعی زندگی حاصل ہوسکے۔

(۲) اس نظام شرعی کے ذریعہ جس حد تک ممکن ہو، اسلامی احکام کو بروئے کار لانا اوراس کے اجراء وتنفیذ کے مواقع پیدا کرنا،مثلاً عبادات کیساتھ مسلمانوں کے عائلی قوانین، نکاح، طلاق، میراث، خلع،اوقاف، وغیرہ احکام کو ان کی اصلی شرعی صورت میں قائم کرنا۔

(۳)ایسی استطاعت پیدا کرنے کی مستقل جدوجہد جس کے ذریعہ قوانین خداوندی کو نافذاوراسلام کے نظام عدل کو قائم وجاری کیاجاسکے۔

(۴) امت مسلمہ کے جملہ اسلامی حقوق ومفادات کاتحفظ اوران کی نگہداشت۔

(۵) مسلمانوں کو بلااختلاف مسلک؛ محض کلمہ لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد پرمجتمع کرنا؛تاکہ وہ خدائے تعالیٰ کے احکام اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پرعمل کریں اور اپنی اجتماعی قوت کلمۃ اللہ کو بلند کرنے پرخرچ کریں۔

(۶) مسلمانوں کو تعلیم،معاش اور ترقی کے میدان میں اسلامی نظام تعلیم اور اسلامی نظام تجارت کی روشنی میں رہنمائی دینا۔

(۷) عام انسانی خدمت کے لیے رفاہی اورفلاحی ادارے قائم کرنا۔

(۸) مسلمانوں کے حقوق، شریعت کے احکام اور اسلام کے وقار کو پوری طرح قائم اور محفوظ رکھتے ہوئے مقاصد شرع اسلام کی تکمیل کی خاطر اسلامی تعلیم کی روشنی میں ہندستان میں بسنے والے تمام مذہبی فرقوں کے ساتھ صلح وآشتی کا برتاؤ کرنا،ملک میں امن پسند قوتوں کو فروغ دینا اور تعلیم اسلامی لا ضررولاضرار فی الاسلام کی روشنی میں ملک کے مختلف مذہبی فرقوں میں ایک دوسرے کے حقوق کے احترام کا جذبہ پیدا کرنا اور ہر ایسے طریق کار وتحریک کی ہمت شکنی کرنا، جس کا مقصد ہندستان میں بسنے والے مختلف طبقات میں سے کسی ایک کی جان ومال،عزت وآبرو،تصورات ومعتقدات پر کسی دوسرے کی طرف سے حملہ ہوا ور ایسی تمام تحریکات کو قوت پہونچانا؛ جن کا مقصد ملک میں بسنے والی مختلف مذہبی اکائیوں کے درمیان ایک دوسرے کی جان ومال، عزت و آبرو کا احترام پیدا کرنا اور فرقہ وارانہ تعصب ومنافرت کو دور کرنا۔یہی وہ عظیم مقاصد ہیں،جو امارت شرعیہ کی ترقی کے لیے کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔

امیر شریعت کے لیے موزوں شخصیت:

امارت شرعیہ ایک دینی تنظیم ہے، جس کا مقصد شرعی امور کی حفاظت اور اشاعت ہے اور اس کا امیر دین کامحافظ ہوتاہے؛اس لیے سب سے پہلے خودشریعت پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے، جوامیر خود دین کا گہرا علم نہ رکھتا ہو،وہ شرعی حکم کیسے دے سکتا ہے؟امیر کے لیے لازمی شرط جو دستور امارت میں ہے،وہ یہ ہے کہ:

(1)عالم باعمل ہو،یعنی کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معانی اورحقائق کامعتدبہ علم رکھتا ہو، اغراض ومصالح شریعت اسلامیہ وفقہ اسلامی وغیرہ سے واقف ہواوراحکام شریعت پرعمل پیراہو۔

(2)سیاسیات ہندوسیاسیات عالم اسلامیہ سے واقفیت رکھتاہواورحتی الامکان تجربہ سے اکثرصائب الرائے ثابت ہوچکاہو۔

(3)ذاتی قابلیت ووجاہت کی وجہ سے عوام وخواص کے اکثرطبقات کی ایک معتدبہ جماعت پراس کااثرہو۔

(4)حق گو،حق شنو اورصاحب عزیمت ہو۔

(5)فقہی تعبیرمیں اس کی ذات ایسی نہ ہو،جس سے امارت شرعیہ کامقصدختم ہوجائے۔

(دیکھئے دستورامارت شرعیہ صفحہ4)

یہ تمام صفات حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔انہوں نے ملی اتحادکا نمایاں کام کیا ہے،مسلکی تشدد کو کم کیا ہے،فرقہ وارانہ خیرسگالی اوربرادران وطن کے دلوں سے نفرت کو دورکرنے کی کوشش کی ہے۔مدارس کو قوت دی ہے۔تعلیمی تحریک کو پھیلایا ہے۔مکاتب،مدارس،اسکول،ٹکنیکل انسٹی ٹیوٹ،پارا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ،کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ،لڑکیوں کے تعلیمی ادارے قائم کئے ہیں۔سیاسی طور پر مسلمانوں کو کمزور ہونے سے بچایا ہے اوربرابراس کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔عوام میں اتحادواتفاق کو بحال کرنے کی جہدمسلسل حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی کی زندگی کا نصب العین ہے،آپ  امت مسلمہ کو کلمہ واحدہ کی بنیاد پرایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور متحد کرنے کے لیے سرگرم عمل نظرآتے ہیں۔امارت شرعیہ کا پلیٹ فارم ہو، یاملی کونسل،یا مسلم پرسنل لا بورڈاور یا پھراسلامک فقہ اکیڈمی کے سیمینار ہرجگہ آپ کی زندگی کامشن امت مسلمہ کو کلمہ واحدہ کی بنیاد پر متحد کرناہے۔اختلافات رائے میں اعتدال کی راہ پر قائم رہتے ہوئے تعامل اور تعاون باہمی کی راہیں کھولنا آپ کا سب سے بڑا مقصدہے۔میری معلومات کی حد تک یہ بات واضح ہے کہ امارت شرعیہ کی ترقی واستحکام ان حضرات کی زندگی میں زیادہ ہوئی،جنہوں نے امارت شرعیہ کے لیے زیادہ وقت دیا،اس لحاظ سے مولانا انیس الرحمن قاسمی پھلواری شریف میں رہتے ہیں،ان کے ذریعہ ادارہ میں مزید وسعت وترقی کی امید کی جاسکتی ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کی عمر میں برکت عطاکرے اورقوم وملت کی خدمات کا مزید موقع عنایت کرے۔]وماذلک علی اللہ بعزیز[

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی