نئے سال کی آمد پر ایک سبق
صادق مظاہری
تقریباً سب اہل اسلام اس سے واقف ہیں کہ نئے سال پر جشن منانا خلاف شریعت بھی وخلاف عقل بھی ، خلاف شریعت اس معنی کر کہ زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا دور صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین میں یا اکابرین امت کے یہاں اس کی کوئی اصل نہیں ملتی۔ اور خلاف عقل اس معنی کر ہے کہ زندگی کے ماہ وسال جو دنیا کی سب سے قیمتی چیز ہے، وہ آہستہ آہستہ کم ہونے پر ہے اور اس بیش بہا چیز کے چھن جانے پر ہم خوشیاں منارہے ہیں اس سے بڑی بے وقوفی اور کیا ہوسکتی ہے ۔ اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم اس لیے خوشی منارہے ہیں کہ ہمارا آئندہ سال اچھا گزرے ان سے عرض ہے کہ جس کے بارے میں ہمیں معلوم ہی نہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے اس پر مسرت کا اظہار کرنا کونسی عقل مندی ہے یہ بھی ایسا احمقانہ وبے وقوفانہ فعل وعمل ہے جس کے کوئی سر پیر نہیں ہے۔
غور کرنے سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ اس طرح کے جتنے بھی جشن منائے جاتے ہیں سب خود ساختہ چیزیں ہیں وہ لوگ جن کا کام دنیا میں عیاشیاں کرنا ہے ، فحاشیاں وبے حیاٸیاں جن کے یہاں عزت کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں اس طرح کے موقعوں پر اپنی جنسی خواہشوں کو پورا کرلیتے ہیں۔ خواہ وہ کلبز میں ناچ کر ہو ، یا پھر میخانے پر شراب کے دور چلاکر ہو ، یا پھر کسی ہیل اسٹیشن پر موجود کسی ہوٹل میں پارٹی کر کر ہو ، یا پھر کسی بڑے شہر (Big City)کے ہائی ایسٹ علاقے میں حسیناؤں ونازنیناؤں کے ساتھ رنگ ریلیاں مناکر ہو، یا پھر کسی ایسے مقام پر کہ جہاں پر گانے کی دہن ہو ، ہاتھ میں شراب کا گلاس ہو ، اور تبلے کی تھاپ ہو ، گھنگھروں کی جھنجھناہٹ ہو ، کسی صنف نازک کا نزاکت سے پُر بدن ہو مزید اس کے حسن کو دوبالا کر تاجھلملاتا لباس ہو ، بس یہ کہہ لیجئے شراب بھی ہو ، کباب بھی ہو ، شباب بھی ہو ،یہ سب انھیں دنیا کے پجاریوں وحسن پرستوں کے کارنامے ہوتے ہیں جو رنگین دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں یہ حال اس نۓ سال کی رات میں سارے یوروپ ، ایشیا اوراب عرب میں بھی آسانی کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے، ہم اس طرف تو جانا نہیں چاہتے کہ اس رات میں کیا کیا ہوتا ہے ورنہ حالات ایسے ہیں کہ ایک ایک چیز پر لمبی لمبی تحریرں لکھی جاسکتی ہیں ۔۔۔بس یہ کہہ لیجۓ اس رات میں خدا کی ناراضگی کے سارے ہی جراٸم ہوتے ہیں، حیرت اس پر ہے کہ ان کو جرم ہی نہیں سمجھاجاتا۔۔۔۔
خیر یہ تو شکوے ہیں جو کبھی پورے ہوئے نہ ہونگے اس لیے کہ برائی ابتدا سے ہے اور تاقیامت رہے گی عقل مند وہ ہے جو اپنی زندگی کے ہر گزرنے والے سال ، جانے والے مہینے ، چلے جانے والے ہفتے ودن ، ساعت ولمحے سے سبق حاصل کرے ۔ اس سے ہر شخص واقف ہے کہ دنیا کی ہر چیز فانی ہے ہر داستاں وکہانی کا اینڈ ہے اس لئے ہر انسان اس کا اقرار کرتا ہے کہ ہماری داستان حیات کا بھی خاتمہ ہوگا ، اسکرپٹ لکھنے والے نے کچھ اس طرح لکھی کہ اس میں اونچائیاں بھی ہیں اور کھائیاں بھی بلندیاں بھی ہیں، اور پستیاں بھی ، پریشانیاں بھی ہیں اورراحتیں بھی ، اس میں بھی خلاق عالم کی بڑی مصلحت ہے اور وہ یہ کہ اگر انسان کی داستان حیات میں یہ اتار چڑھاؤ نہ ہوتا تو پھر مزہ نہ آتا ،کمال کی بات یہ ہے کہ سب وقتی وعارضی ہیں اس لئے جو گزرگیا اس کو یاد کر کے یہ سوچنا چاہیے کہ جیسے ہمارا یہ سال گزرگیا آئندہ سال بھی ایسے ہی گزرجاۓ گا وقت ایک ایسی چیز ہے جس کو کسی مشین سے نہیں روکا جاسکتا بس وہ تو چلنے پر ہے۔ شب وروز ، صبح وشام کا سلسلہ جاری ہے یہی دن رات کا گزرنا انسان کو بچپن سے جوان پھر جوان سے بوڑھا کردیتا ہے یہاں تک کہ قبر تک پہنچادیتا ہے اس منظرنامے کی طرف کسی نے اس طرح اشارہ کیا تھا ...
ایک تبصرہ شائع کریں