سالِ نو کا جشن اورمسلمان New year And Muslims

 سالِ نو کا جشن اورمسلمان 
New year And Muslims
از: محمد علی جوہر سوپولوی
mdalij802@gmail.com


کیا نبی کریم نے نئے سال کا جشن منایا؟ کیا صحابہ کرامؓ نے آپس میں ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارکباد دی؟ کیا تابعین اور تبع تابعین کے دور میں اس رسم کو منایا گیا؟ کیا دیگر مسلم حکمرانوں نے ایسے جشن منانے کا حکم دیا؟ یا ایسی محفلوں میں کبھی شرکت کی ہو؟ یہ وہ سوالات ہیں، جن کا جواب ہرعقلمند شخص نفی میں دے گا؛؛  پھر آج کیوں مسلمان اس کام کو انجام دے رہے ہیں؟  آخریہ کس نے ایجاد کیا؟ یہ جشن منایا کیوں جاتا ہے؟ اور اس وقت مسلمانوں کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ ان چند سطور کے اندر اسی کو واضح کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔دعا کیجیے کہ صحیح بات کہنے اور ہم سبھوں کو عمل کی توفیق عطا فرمائے.... آمین۔
       دنیا کے تمام مذاہب اور قوموں میں تیوہار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے ہیں ہر ایک تیوہار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور ہرتیوہار کوئی نہ کوئی پیغام دیکر جاتا ہے جن سے نیکیوں کی ترغیب ملتی ہے؛ لیکن لوگوں میں بگاڑ آنیکی وجہ سے ان میں ایسی بدعات وخرافات بھی شامل کردی جاتی ہے کہ ان کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے...
دراصل یہ نئے سال کا جشن عیسائیوں کا ایجاد کیا ہوا ہے، عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلتی آرہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق ۲۵/ دسمبر کو حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، اسی کی خوشی میں ”کرسمس ڈے“ منایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہی کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے، نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور ۳۱/ دسمبر کی رات میں ۱۲/ بجنے کا انتظار کیا جاتا ہے اور ۱۲/بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دیجاتی ہے، کیک کاٹا جاتا ہے، ہر طرف ہیپی نیوائیر (happy new year) کی صدائے گونجتی ہے، آتش بازیاں کی جاتی ہے اور مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھا جاتا ہے، جس میں شراب وشباب اور ڈانس کا بھر پور انتظام رہتا ہے، اس لئے کہ ان کی تفریح صرف دو چیزوں سے ممکن ہے: اوّل شراب دوسرے عورت؛ مگر افسوس کہ آج ان عیسائیوں کی طرح بہت سے مسلمان بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہے اور ۳۱/ دسمبر کا بے صبری سے انتظار کرتے رہتے ہے، ان مسلمانوں نے اپنی اقتدار وروایات کو کم تر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کردیا ہے جب کہ یہ سب عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظامِ تاریخ ہے، مسلمانوں کا اپنا قمری اسلامی نظام تاریخ میں موجود ہے جو آپ کی ہجرت سے مربوط ہے، جس کا آغاز ماہ محرم الحرام سے ہوتا ہے؛ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کو اس کا علم بھی نہیں ہوپاتا ہے....
آج مسلمان نئے سال کی آمد پر جشن مناتا ہے، کیا اس کو یہ نہیں معلوم کہ اس نئے سال کی آمد پر اس کی زندگی ایک ایک برس کم ہوگیا ہے، زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمتی نعمت ہے اور نعمت کے زائل یا کم ہونے پر جشن نہیں منایا جاتا ہے؛ بلکہ افسوس کیا جاتا ہے، گذرا ہوا سال تلخ تجربات، حسین یادیں، خوشگوار واقعات اور غم والم کے حادثات چھوڑ کر رخصت ہوجاتا ہے اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور پائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہتا ہے، سال ختم ہوتا ہے تو حیات مستعار کی بہاریں بھی ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اپنی مقررہ مدت زیست کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہوتا رہتا ہے، حضرت عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ میں کسی چیز پر اتنا نادم اور شرمندہ نہیں ہوا جنتا کہ ایسے دن کے گذرنے پر جس کا سورج ہوگیا جس میں میرا ایک دن کم ہوگیا اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہوسکا (قیمۃالزمن عندالعلماء:۲۷) حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ: اے ابن آدم! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے، جب ایک دن گذرگیا تو یوں سمجھ کہ تیرا ایک حصہ بھی گذرگیا، یہ عمر اور زندگی جو ہم کو عطا ہوئی ہے، وہ صرف آخرت کی ابدی زندگی کی تیاری کی خاطر عطا ہوئی ہے کہ ہم اس کے ذریعے آنے والی زندگی کو بہتر بناسکیں اور اپنے اعمال کو اچھا بناسکیں، حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں، اچھے اعمال سے انکو دوام بخشو، یہ مختلف طرح کے جشن یہود ونصاری اور دوسری قوموں میں منائے جاتے ہیں؛ جیسے، مدرڈے، (Mother's day) فادرڈے (Father's Day)، ویلنٹائن ڈے، (Valentine day) چلڈرن ڈے (Children's day) اور ٹیچرڈے  (Teacher's Day) وغیرہ، اس لیے ان کے یہاں رشتوں میں دکھاوا ہوتا ہے، ماں باپ کو الگ رکھا جاتا ہے، اولاد کو بالغ ہوتے ہی گھر سے نکال دیا جاتا ہے اور کوئی خاندانی نظام نہیں ہوتا؛ اس لیے انہوں نے ان سب کے الگ الگ دن متعین کر رکھے ہیں جن میں ان تمام رشتوں کا دکھاوا ہوسکے؛ مگر ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے اسلام نے سب کے حقوق مقرر کردیے ہے اور پورا ایک خاندانی نظام اسلام میں موجود ہے؛ اس لئے نہ ہمیں دکھاوے کی ضرورت ہے نہ مختلف ڈیز (days) منانے کی؛ بلکہ مسلمانوں کو سخت ضرورت ہے ایسی بے ہودہ وبیکار چیزوں سے بچنے کی؛ تاکہ دوسری قوموں کی مشابہت سے بچا جاسکے، اس لئے کہ ہمارے آقا نے ہم کو غیروں کی اتباع اور مشابہت اختیار کرنے سے بچنے کا حکم دیا ہے....
اب یہ سوال ہے کہ اس موقع پر مسلمانوں کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے جو قرآن وحدیث کی روشنی میں صحیح ہو؟ نئے سال سے متعلق کسی عمل کو تلاش کرنے کی کوشش کی تو قرون اولیٰ کا کوئی اور عمل تو مل نہ سکا؛ البتہ بعض کتب حدیث میں یہ روایت ہے کہ جب نئے سال کا پہلا مہینہ شروع ہوتا توصحابہ کرام ؓایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے: اللھم ادخلہ علینا بالامن، والسلامۃ والاسلام، ورضوان من الرحمن وجواز من الشیطان (المعجم الاوسط للطبرانی)
ترجمہ: ’’اے اللہ! اس نئے سال کو ہمارے اوپر امن وامان، سلامتی واسلام اور اپنی رضامندی، نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما، اس دعا کو پڑھنا چاہیے‘‘....
(۱)ماضی کا احتساب:- نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے؟ ہمیں عبادات و معاملات، اعمال، حلال وحرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکہ دیکھنا چا ہئے کہ کہاں ہم سے غلطی ہوئی ہے، اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطی چھپا سکتا ہے؛ مگر اپنی خود کی نظر سے انسان بچ نہیں سکتا، اس لئے ایمانداری سے ہم اپنا اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور ملی ہوی مہلت کا فائدہ اٹھانا چاہیے، اس سے پہلے کہ یہ مہلت ختم ہوجائے.....
(۲)مستقبل کا لائحہ عمل:- اپنی خود احتسابی اور جائزہ کے بعد اس کے تجربات کی روشنی مین بہترین مستقبل کی تعمیر اور تشکیل کے منصوبے میں منہمک ہونا ہوگا کہ کیا ہماری کمزوریاں رہی ہے اور ان کو کس طرح سے دور کیا جاسکتا ہے....
خلاصۂ تحریر کیا ہے؟
وہ یہ ہے کہ ہرنیا سال خوشی کے بجائے ایک حقیقی انسان کو بے چین کردیتا ہے، اس لئے کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ میری عمر رفتہ رفتہ کم ہو رہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے وہ کس بات پر خوشی منائے؛ بلکہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لئے غروب ہوجائے، کچھ کرلینے کی تمنا اس کو بے قرار کردیتی ہے، اس کے پاس وقت کم اور کام زیادہ ہوتا ہے، ہمارے لیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیں ہے؛ بلکہ گزرے ہوئے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحاتِ زندگی کا صحیح استعمال کرنے کے عزم وارادے کا موقع ہے اور ازسرنو عزائم کو بلند کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے...
اخیر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں غیروں کی مشابہت سے بچائے اور نبی آخرالزماں محمد عربی کے سنتوں کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے، آمین.....
یہاں پڑھنے کے لئے

_اس وقت مسلمانوں کو دو کام خصوصاْ کرنے چاہیے:_

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی