دارالعلوم دیوبند علم وعرفان کی روشنی پر انحصار رکھنے والی سدا بہار تحریک

 دارالعلوم دیوبند
 علم وعرفان کی روشنی پر انحصار رکھنے والی سدا بہار تحریک

 محمد فہیم الدین بجنوری
استاذ: دارالعلوم دیوبند

12/ دسمبر 2021ء 

 انقلابِ زمانہ، اصل میں ﴿كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ﴾ کا پرتو ہے، لہریں ہر زمانے میں اٹھتی ہیں، مزاجِ وقت کی بھر پور تسکین بھی کرتی ہیں؛ لیکن محدود میعاد کے بعد، قضا واجل کا شکار ہو جاتی ہیں، یا اپنی خاص روح وامتیازی شان سے محروم ہوجاتی ہیں، تاسیس کے وقت کی جوانی، تازگی، صفائی، شفافیت اور مقصدیت باقی نہیں رہتی، مرورِ زمانہ کے ساتھ، نقشہء جماعت خود مقصد جماعت کی جگہ لے لیتا ہے، گروپ کی سرگرمیاں، خاندانی وقومی عرفیت بن جاتی ہیں، اگر ایک نوجوان فرض نماز میں سست ہے؛ لیکن گشت کے لیے جان دے سکتا ہے، تو آپ سمجھ لیں کہ وسیلے نے، مقصد کو بے دخل کردیا ہے۔


 دیگر معاصر تحریکوں کے برخلاف، تحریک دارالعلوم کے شب وروز کی تابانی، ایک سو پچپن سال بعد بھی بحال ہے، تو سہرا اس کی بنیاد کو جاتا ہے، جو خالص علم وعرفان پر اٹھائی گئی ہے، قال اللہ اور قال الرسول یہاں کی لگام ہے، جس نے احاطے کے کرداروں کوصراطِ مستقیم کی ضمانتیں فراہم کیں، قرآن وسنت کے نغمے، ہماری فضا کو عہد بہ عہد، تازہ بہ تازہ، زہریلے جراثیم سے سینیٹائز کرتے رہے، فتنوں کی ہر موج نے، زور آزمائی کی؛ لیکن قلعہ کی تسخیر میں نامرادی ہی ہاتھ آئی۔


 دیوبند کے لیے، اس کے شہرۂ آفاق مہتمم، حضرت قاری طیب صاحب علیہ الرحمہ نے، الہامی نسبت کا حوالہ، اپنے لٹریچر میں بہ طور خاص شامل کیا ہے، تاریخ اس تصور کی تائید کرتی ہے، دیوبند کے گوناگوں پیش رو پوری دنیا میں ہوئے ہیں، وہاں بھی علم وعرفان کی بارشیں برسیں؛ لیکن آخرش حصہء داستان بن گئے، آخری مثال جامعہ ازہر ہے، علوم وفنون کی جو خدمت اس کے حصے میں آئی، اس میں وہ لاثانی وبے نظیر ہے؛ لیکن یہ چشمہء فیاض، حکومتی دام کے سامنے، بالغ نظر ثابت نہ ہوسکا، اقتدار کی ہم جولی نے، اس کے رقبے کو ہوش ربا وسعتیں ضرور دیں؛ مگر ایوانِ اقتدار نے قربتوں اور نوازشوں کی قیمت اپنی شرائط پر وصول کی، اس کے دینی رنگ اور علمی وقار کی پامالی کا جو سلسلہ، جمال عبد الناصر نے شروع کیا تھا، وہ ہنوز جاری وساری ہے۔


  اس کے بر خلاف یہی خوب صورت وپر کشش جال، ہمارے لیے بھی وقت بہ وقت بچھایا گیا؛ روشن خیال منصوبوں کو، نئے نئے عناوین دیے گئے، ذہن سازی ودباؤ دونوں راہیں اختیار کی گئیں؛ حتی کہ ایک مرتبہ کانگریس دور میں بجٹ کا تخمینہ بھی تیار ہوا، قریب تھا کہ ہماری تنخواہیں بھی عصری یونیورسٹیز کے مساوی ہوجاتیں؛ مگر اسی دستِ غیب نے -کہ جس کی تعبیر الہام سے کی گئی- بر وقت رہنمائی کی، ہمارے اکابر نے طرب انگیز پیش کش پر، حقارت سے تھوک دیا اور زبردستی کے خلاف سد سکندری بن گئے۔


 اسلام کے شفاف چشموں کی کرامت کبھی ماند نہیں ہوسکتی؛ علم ومعرفت کی بنیادوں پر قائم، یہ مینارۂ نور، ایک سو پچپن سال سے برابر درخشاں ہے اور اگر قیام ِقیامت میں، مزید ایک سو پچپن سال باقی ہیں، تو ان شاء اللہ یہ میعاد بھی، اس کے لیل ونہار کو غبار آلود نہیں کر پائے گی

 کاروان علم   

پر مقالات و مضامین بھیجنے کے لئے ای میل آڈی 

mdalij802@gmail.com









Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی