تبلیغی جماعت کے متعلق سعودی حکومت کا حکم نامہ صحیح یا غلط

 تبلیغی جماعت کے متعلق سعودی حکومت کا حکم نامہ صحیح یا غلط

صادق مظاہری 

تبلیغ کی ابتدا بلغو عنی ولو آیة  سے ہوتی ہے پھر اسی سلسلے کو کنتم خیر امة اخرجت للناس تأ مرون بالمعروف تنھون عن المنکر کے تحت آگے بڑھایا جاتا ہے دنیا جانتی ہے کہ اچھائی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا ایک اچھا عمل ہے بلکہ اسلام میں تو اس کو عمل صالح کہا گیا ہے قرآن میں مختلف  مقامات پر اس کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے ایک جگہ پر ان لوگوں کو کامیاب بتایا گیاہے جو دعوة الی الخیر دیتے ہیں ارشاد ربانی ہے ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر ویأمرون بالمعروف وینھون عن المنکر ۔ والٸک ھم المفلحون

 لیکن اس فریضے کی اداۓ گی پر عمل دو طرح سے ہوتا ہے
 (١) دعوت الی الایمان ۔۔ ایمان کی طرف دعوت دینا یعنی کفر وشرک سے توحید ورسالت کی طرف لوگوں کو بلانا
(٢)دعوت الی الاعمال الصالحة یعنی نیک اعمال کی طرف لوگوں کو بلانا
اس کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں (١) وعظ ونصیحت کے ذریعے 
(٢ ) تحریر وصحافت کے ذریعے ۔۔ 
(٣) تدریس وتعلیم کے ذریعے ۔۔ (٤) لوگوں کو گھر گھر جاکر سمجھایا جاۓ ۔۔۔ یہاں ہمارا مقصود آخری صورت ہے ۔۔ 
دنیا میں عموماً اور ہندوستان میں  خصوصاً جب امت مسلمہ اعمال صالحہ سے دور ہونے لگی اور برائیوں کی طرف تیزی کے ساتھ بڑھنے لگی بعض علاقوں کا حال یہ ہوگیا تھا کہ کفریہ و شرکیہ عقائد کو اہل اسلام عزت وعظمت کے ساتھ اپنانے لگے تھے اور بعض مقامات پر حال یہ تھا کہ مسلمان نام تھا لیکن سارے کام کافرانہ و مشرکانہ تھے ، بدعات وخرافات میں لوگ الجھے ہوۓ تھے ، رسومات و لغویات کو اپنی زندگی کا اہم حصہ سمجھنے لگے تھے تو حضرت مولانا الیاس صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ نے آخری صورت والی تبلیغ کا کام شروع کیا جس کا مقصد لوگوں کو برائیوں سے نکالنا تھا ، جس کا مقصد اچھائیوں کی طرف لانا تھا ، ان کو ان کا مقصد حیات یاد دلانا تھا تاکہ وہ پکے سچے مسلمان بن سکیں، یہ ان کے اخلاص کا نتیجہ تھا کہ ان کا یہ درد اللہ نے سنا اور ساری دنیا تک یہ پیغام عام ہوا  بحمد الٰہ آج دنیا میں نہ جانے کتنے زانیوں ، شرابیوں ، جواریوں ، چوروں نے توبہ کی اور وہ راہ راست پر آۓ اور نہ جانے کتنے لوگ عبادات کے پابند بنے ، معاملات کی صحت کی طرف آۓ ،  اخلاق کی پاکیزگی کی طرف آئے، عقائد حقہ کو سمجھنے والے بنے...
 اسلام میں سب سے پہلی اور اہم چیز توحید ورسالت ہے
توحید اس کام کو کرنے والا ہر شخص اتنا بولتا ہے کہ اس کے دل سے شرک کا شاٸبہ تک نکل جاتا ہے اسی طرح نبی علیہ السلام و صحابہ کے واقعات کو اتنا پڑھا وسنا جاتا ہے کہ ان کی عظمت واہمیت کا عالم یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر چیز میں ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ کسی سیاسی مسئلے پر نہیں بولتے ، وہ کسی سیاسی تنظیم وجماعت کے ممبر نہیں بنتے، ان کا نعرہ یہ ہے کہ صرف اللہ والے بنو ، اعمال صالحہ کی طرف آؤ مسائل خود حل ہوجائیںں گے...
لیکن جب ہم نے سعودی عرب میں موجود عالم اسلام کے سب سے بڑے اسٹیج سے یہ آواز سنی کہ یہ جماعت اہل بدعت کی جماعت ہے جو شرک وبدعت میں ملوث ہیں  ان کا نظام ہے تبلیغ میں جانے کے لۓ ٣ دن ، ١٠ دن ، ٤٠ چالیس دن ، ٤  مہینے  یہ ثابت نہیں ہے،  ہمیں احساس ہوا کہ یہ بات کیسے کہہ دی گٸ جب کہ معاملہ اس کے بر عکس ہے جو کہا گیا ہے۔
پہلا دعویٰ شرک وبدعت کا یہ صحیح نہیں ہے شاید وہاں کی وزارت کو اس کی صحیح انفارمیشن نہیں ہے اس لۓ کہ اس جماعت میں توحید پر اس قدر بولا جاتا ہے شاید کوٸ دوسری جماعت اتنا بولتی ہو اور اس پر یہ لوگ مکمل عمل بھی کرتے ہیں قبور پر سجدہ ریز ہونا تو بہت دور کی بات ہے ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ کے کرنے سے سب کچھ ہوتا ہے دنیا کے اسباب بھی اس کے سامنے بے دم وبے جان ہیں ان کے یہاں توکل علی اللہ کی بڑی اہمیت ہے ،ویسے بھی  یہ جماعت مجموعی طور پر اہل السنہ والجماعت سے تعلق رکھتی ہے جس کا متفقہ فتوی یہ ہے کہ قبور پر سجدہ کرنا شرک وبدعت ہے دوسرے جتنے دعوے کۓ گۓ ہیں ان کی بنیاد پر بھی اہل بدعت کہنا ناواقفیت کی دلیل ہے ۔۔۔ اس لۓ کہ جس کی تائید میں شیخ الحدیث حضرت مولانا  شیخ زکریا علیہ الرحمہ جیسے لوگ رہے ہوں جنھوں نے مؤ طا امام مالک کی شرح اوجز المسالک لکھی ہو جس کے چرچے عجم سے لے کر عرب کے اہل علم طبقے تک میں سنائی دۓ ہوں ،جن کے بارے میں کہا گیا ہو،کہ قد حنف المؤطا اس نے مؤطا کو حنفی بنادیا اسی طرح جس پر شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ نے اعتماد کیا ہو اسی طرح جس کو عظیم مفکر حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی کی تائید حاصل رہی ہو جنھوں نے ” ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین “ جیسی تصنیف لکھ کر عالم عرب کے مفکرین کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا تھا اور عرب دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا پھر انھوں نے ان کی زبان وادب ، فکر وعمل کا لوہا مانا تھا ایسے لوگوں کی نگرانی میں ایسی بے بنیاد باتیں کیسے ہوسکتی ہیں ظاہر بات ہے کسی بھی جماعت کو چلانے کے لۓ ایک نظام ہوتا ہے اس کے لۓ یہ ٣ دن ، ٤٠ دن بناۓ گۓ ہیں نہ ان کو ضروری قرار دیا جاتا ہے نہ ہی ان کو کسی حدیث یا پھر قرآن سے ثابت کیا جاتا ہے  مقصد تبلیغ ہے جو قرآن وحدیث سے ثابت ہے اس لۓ ان باتوں پر اعتماد کرکے وہاں کی وزارت کا ایسا فیصلہ لینا صحیح معلوم نہیں ہوتا اس لۓ سعودی حکومت کو چاہۓ کہ اس پر نظر ثانی کرکےاہل السنة والجماعة  کے بارے میں معتدل ذہن رکھنے والے اہل علم کے ذریعے ریسرچ کراٸیں  اس سے کوٸ انکار نہیں کرسکتا کہ سابقہ سعودی حکومتوں کی اسلام واہل اسلام کے لۓ جو دینی وملی خدمات رہی ہیں وہ قابل ستاٸش ہیں۔ جن میں حرمین شرفین کی خدمت ، پھر مساجد کا قیام ، ان میں فقہ وحدیث ، تفسیر وعلوم اصلیہ پر ریسرچ کا انتظام وغیرہ پڑے پیمانے پر کام ہوا ۔۔۔ اسی طرح شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز کے زمانے میں اسلام مخالف پروپیگنڈوں کا جواب دینے کے لۓ ” مکالمہ بین المذاہب “ کا قیام یہ سب چیزیں اس پر دال ہیں کہ سعودی حکومتوں کی خواہش کہیں نہ کہیں یہ رہتی ہے کہ اسلام واسلامی تعلیمات کا فروغ ہو۔۔ اس لۓ وہ ہر اس کام کو سراہتے ہیں جس سے اسلامی تعلیمات وہدایات کو فروغ مل رہا ہو  اگر غور کیا جاۓ گا تو معلوم ہوگا کہ تبلیغی جماعت بھی اسلامی تعلیمات کو فروغ کی ہی کوشش کرتی ہے اس لۓ اس حکم نامے پر غور کیا جاۓ ۔
٩ جمادی الاولیٰ ١٤٤٣ھ 
١٤ دسمبر ٢٠٢١ ۶

                            کاروان علم 
mdalij802@gmail.com

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی