محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کلامِ الہی کی مرئی تفسیر نذرانہءِ محبت:

 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

کلامِ الہی کی مرئی تفسیر


نذرانہءِ محبت:

محمد فہیم الدین بجنوری قاسمی

خادم تدریس دارالعلوم دیوبند

9 ربیع الاول 1443ھ - 16 اکتوبر 2021ء



 بسم اللہ الرحمن الرحیم، حامدًا ومصلیًا أما بعد:


لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب

گنبد آب گینہ رنگ تیرے محیط میں حجاب

                                     علامہ محمد اقبال 


 قرآن مجید، لوح محفوظ کے گنج ہائے گراں مایہ میں، کوہ نور کا درجہ رکھتا ہے، خالق کائنات کے اس شاہ کار خطاب کو، ساتویں آسمان کی چھت سے اتار کر، اہل زمین کی تحویل میں دینے کا معاملہ سادہ وآسان نہ تھا، امانتِ ِازل کی تفویض کے لیے ایسا امین درکار تھا، جس کی شخصیت کا ہر پہلو جوہرِ لیاقت کا اعجاز ہو، جس کے کمالِ حسن میں، گمانِ نقص کا کوئی گذر نہ ہو، جس کی ہستی کا پھول، ہر طرح کے خار سے منزہ ہو، جس کے وجود کی شمع کبھی دھواں آشنا نہ ہوئی ہو۔


 اولین وآخرین کی پاک روحیں صف بستہ تھیں، نگاہِ غیب سے کسی حسن کی پردہ داری ممکن نہ تھی کہ کرشمہ سازی سب اسی کی ہے! لیکن دارالاسباب کے دستور کا لحاظ کیا گیا اور اولاد آدم کے قلوب کا جائزہ عمل میں آیا اور یوں جانِ ِجاناں، وجہِ کون ومکاں، خاصہءِ ِخاصاں، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی، انتخابِ ِازل قرار پائی، اس حکایت کی ترجمانی، فقیہ امت حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے الفاظ میں اس طرح ہے:

 ”عن عبد اللہ بن مسعود ؓ قال: إن اللہ نظر في قلوب العباد، فوجد قلب محمد صلی اللہ علیہ وسلم خیر قلوب العباد، فاصطفاہ لنفسہ، فابتعثہ برسالتہ“ [مسند احمد: 3589]۔


  عرش وفرش کے مابین کا یہ آخری رابطہ؛ کوئی عشوہ یا نازش کا معاملہ نہ تھا؛ بل کہ امانت کبری کی ذمہ داری کا وہ بوجھ تھا، جس کو کہساروں نے بھی گراں بار جانا، جس تکلیف کا مجرد حصہ بننے سے آسمان وزمین معذرت خواہ ہوئے (احزاب: 72)؛ لیکن قیامت نما اس بارِ امانت کے لیے، سید بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوشِ باعظمت، متاع تسکین ثابت ہوئے، آپ نے ہدایت کے اس سرچشمے کی گود سے، عالم گیر شمع فروزاں تراشی، جس کی روشنی نے دنیا کے ذرے ذرے کو نہال وسرشار کیا۔


 معلوم ہے کہ ترسیل کے جملہ ذرائع میں، اعتبار وثقاہت کے لحاظ سے، مرئی وسائل کو تفوق حاصل ہے، تبلیغ ودعوت کی یہ شکل سب کو یکساں اپیل کرتی ہے، ناخواندہ ماحول میں تو یہ صورت متعین ہے؛ تعلیم یافتہ طبقے کی ترجیح بھی یہی ہے، کہتے ہیں کہ ”شنیدہ کے بود مانند دیدہ“؛ پھررابطے کے جدید ذرائع نے، اس کے امتیاز پر مہر لگادی ہے، چناں چہ فی زمانہ، خواندہ طبقہ بھی مرئی ذرائع کا مفتوح ہے، اب وہی خدام سکہء رائج الوقت ہیں، جو ذرائع ابلاغ کے مدار میں جیتے جاگتے پیکر ہیں۔


 قرآن کریم کے اعجاز کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے عجائب سمندر ہیں، ان کی رونمائی میں مصروف عندلیبیں، چودہ سو سال سے متواتر چہچہا رہی ہیں؛ لیکن عجائب کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، اس میعاد میں تراجم وتفاسیر کی ایک نئی دنیا وجود میں آئی، تاریخ انسانی کے منتخب دماغوں نے طالع آزمائی کی، اسلامی کتب خانے کے ذخائر، اس حکایت کے زندہ ترجمان ہیں؛ لیکن ان تراجم وتفاسیر کے انبوہ میں، ایک واحد تفسیر ایسی ہے، جس کو ”مرئی تفسیر“ ہونے کا شرف حاصل ہے، وہ تفسیر بھی ہے اور ترجمہ بھی، وہ بہ یک وقت طویل بھی ہے اور مختصر بھی، وہ مجسم وپیکرِ کلامِ الہی بھی ہے اور پیغامِ خداوندی کی متحرک ریکارڈنگ بھی، کاتب کا خیال نہیں ہے کہ یہ کنایے محتاجِ تصریح ہیں، فلکِ علم ودانش کی، صدیوں پر مشتمل گردش میں، وہ ستارہ متعین ہے؛ کیوں نہیں! اس کا نام گرامی توحرزِ جاں ہے: 

آؤ کہ مجھ میں سیرت احمد کے ذائقے ہیں 

ہم تشنگاں سے چشمہءِ قرآن کہہ رہا ہے۔


  قرآن کریم کی کتنی ہی ہدایات تفصیل طلب ہیں؛ اسی لیے آپ نے سب سے بڑے حکم کا حوالہ دے کر فرمایا: ”مجھے دیکھ کر عمل کرو“ (بخاری: 631)، یہ منصب آپ کی خصوصیت ہے؛ کوئی اور منھ نہیں، جو شریعت کی کسوٹی کے ضمن میں، اپنے ذاتی عمل کا حوالہ دے اور پھر سرخ رو بھی ہو، اسی نکتے کو واضح کرنے کے لیے، اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ”وہ مجسم قرآن تھے“ (مسند احمد: 24056)، عابدِ شب زندہ دار سے لے کر، عسکری محاذ کے محافظ تک؛ زندہ ورواں دواں معاشرے کے ہر رکن کے لیے، آپ کی حیات دائمی مشعل راہ ہے: (لقد کان لکم في رسول اللہ أسوۃ حسنۃ) (احزاب: 21)، آخر میں اقبال کے اس جذب سے بھی لطف اندوز ہوں:  

   

وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر

وہی قرآں وہی فرقاں وہی یس وہی طہ

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی