نبی علیہ الصلاة والسلام کی بعثت دنیا میں ایک عظیم انقلاب

 نبی علیہ الصلاة والسلام کی بعثت دنیا میں ایک عظیم انقلاب 

✏صادق مظاہری 

-مقالات مضامین- 
-کاروان علم_ karwaneilm-

زمانہ جاہلیت کا تھا ، براٸیوں وخرابیوں کا دور تھا ، لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ، شراب نوشی و نشے کے عادی تھے ، عیاشی وعیش کوشی ان کے قلب وجگر میں گھر کر چکی تھی ، خون ریزی و قتل وغارت گری ان کی بہادری تھی ، دوسرے کو دبانا فخر سمجھتے تھے ، جبروتشدد ان کا مزاج تھا ، عورتوں کے شباب و حسن سے لطف اندوز ہونا اپنا فرض گردانتے تھے ،  عورت کی عزت وعصمت کو پیروں تلے روندنا ان کا شوق تھا ۔

یہ حال نہ صرف یہ کہ دنیا کے کسی ایک خطے کا تھا بلکہ دنیا کے بعض خطوں کا حال اس سے بھی گیا گزرا تھا ، عرب ہو یا عجم ہر جگہ پر فساد تھا ، بگاڑ تھا ، جبر تھا ، ظلم تھا ، بے رحمی تھی ، حیوانیت تھی ، درندگی تھی ۔۔ اس لۓ کہ انسانیت کے پاس کوٸ ایسا مستحکم نظام نہ تھا جس پر چل کر راہ یاب ہویا جاۓ ، مذاہب کی تعلیمات بوسیدہ ہوچکی تھیں ، ان کی ہدایات کی دنیا اجاڑ ہوگٸ تھی ، اگر کہیں پر کوٸ روشنی کی رمق  باقی بھی تھی تو اس کی لو اتنی کمزور تھی کہ ہلکے سے ہوا کے جھونکے سے بجھ جاتی تھی ۔ عالم انسانی باطل عقاٸد و بے کار  رسومات کی پیروکار تھی حال یہ تھا کہ    

وہ عرب جہاں خدا کے برگزیدہ پیغمبر ابراہیم علیہ السلام نے اپنے سعید بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ساتھ لے کر خداۓ واحد کی عبادت کے لۓ مقدس گھر بنایا تھا ۔ اور توحید الٰہی کا غلغلہ بلند کیا تھا ۔ وہاں پتھر کے خود تراشیدہ بتوں نے خدا کی جگہ لے لی تھی ۔۔ہندوستان جس کو عالم اصغر کہا جاتا تھا ایک زمانہ تھا کہ وہاں گیان دھیان کی بات ہوتی تھی ۔ اور ویدانت کے سُندر دیپک جلتے تھے ۔ سانپوں ، برگد اور پیپل کے درختوں کو خدا سمجھا جاتا تھا ۔ چین کنفیوشس کے فلسفہ اوہام میں الجھا ہواتھا ۔ مصر ویونان میں دیویاں اور عقول عشرہ خدا کے شریک کار سمجھے جاتے تھے ۔ سارا مغرب انتہاٸ جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ز ندگی بسر کر رہا تھا ۔ 

یونان ، مصر ، روما جن کی تہذیبوں کے چرچے دور دور تک سناٸ دیتے تھے سب بے بس وبے جان تھے انسان زمین پر تھا لیکن انسانیت اس کے اندر سے رخصت ہوچکی تھی ۔ 

اُس وقت کے لۓ یہ کہنا درست ہے 

غرض دنیا میں ہرسو اندھیرا ہی اندھیرا تھا 

نشان نور گم تھا اور ظلمت کا بسیرا تھا 

 ایسے میں وہ آمنہ کا لال عبد اللہ کا لخت جگر آیا ، جس کی آمد کے گیت زمین سے لیکر آسمانوں تک گاۓ گۓ تھے ، جس کے اسقبال میں فرشتوں نے خوشیاں مناٸ تھیں ، جس کے لۓ محفلوں کو کچھ ایسے انوکھے انداز میں سجایا گیا تھا کہ دنیا میں کبھی ایسا نظارہ نہ کسی نے دیکھا نہ کوٸ دیکھے گا جیسا اس وقت ہوا تھا ، برکتوں کی برسات تھی ، رحمتوں کا نزول تھا ، اُس کے لۓ یہ درست ہے کہ 

دنیا کے افق پر دفعةً سیلاب نور آیا 

جہانِ کفر وباطل میں صداقت کا ظہور آیا 

 لیکن اس بابرکت آمد سے قبل ہی والد ماجد عبد اللہ دنیا سے رخصت ہوگیۓ تھے ، آمنہ پر غموں کا پہاڑ ٹوٹا تھا ۔ پھر جب گھر میں لال کی آمد ہوٸ تو اللہ نے غموں کو دھودیا ۔ یہ در یتیم اپنے سفر حیات کا آغاز کرتا ہے ، بچپن سے عہد شباب میں قدم رکھتا ہے ، تو گناہ آلود ماحول ، بری سوساٸٹی ، مذموم گردوپیش کا دور ہوتا ہے ۔ قدم قدم پر فتنوں کا ہجوم اور براٸیوں کا جمگھٹا ، نفس کی رغبت ، الجھاٶ اور میلان کے لۓ ہر قسم کی سہولیات موجود تھیں ۔ میخانے بھی تھے اور شاہدان سیمیں بدن کے خلوت کدے بھی ۔ نغمہ ورقص کی محفلیں بھی تھیں اور قمار خانوں کی کثرت بھی تھی ۔ لیکن نبی علیہ الصلاة والسلام کی نیک طبیعت پر اس سراپا پراگندہ ماحول کا کوٸ اثر نہ ہوا  ۔ وہ شرابیوں ، زانیوں ، قاتلوں ، سفاکوں اور لٹیروں میں تنہا متقی تھا ، دنیا کے اندھیرے میں صرف ایک ہی چراغ تھا ۔۔۔۔۔غرضیکہ جس عظیم مقصد کے لۓ رب کریم نے دنیا میں اس  کو پیدا کیا تھا اس کے ظہور اور اعلان کا وقت قریب آرہا تھا ۔ انسانیت کی تاریخ کا آخری اور سب سے زیادہ روشن ورق الٹنے کے لۓ دستِ قدرت جنبش میں آنے ہی والا تھا ، اندھیرا کپکپا رہا تھا، اور سمٹتا جارہا تھا ۔ جیسے اجالے کے لۓ خالی جگہ کرنی ہے ، براٸیاں پسینہ پسینہ ہوٸ جارہی تھیں کہ نیکیوں کا دور شروع ہونے والا ہے ۔ جہالت کی تاریکی ختم ہونے والی تھی ، گمراہی کی جان لبوں پر آگٸ تھی ، کہ ہدایت کا ستارہ انقلاب کے جھروکے سے جھانک رہا ہے ، کاٸنات کا ایک  ایک ذرہ تبدیلی محسوس کر رہا تھا اور : 

جب اپنی پوری جوانی پے آچکی دنیا 

جہاں کے واسطے اک آخری نظام آیا 

کی صدا فضاٶوں میں گونج رہی تھی ۔ بس غار حرا کی تقدیر چمک گٸ اور غار حرا کے اندھیرے میں یکایک روشنی نمودار ہوٸ ۔ فرشتہ خدا کا پیغام لے کر حاضر ہوا ، اور اس ربانی پیغام کے الفاظ نبی پاک علیہ الصلاة والسلام کی زبان سے دوہراۓ گۓ ۔ اس میں خالق کے نام کے ساتھ مخلوق میں انسان کی تخلیق کا ذکر تھا تاکہ دنیا کو یہ علم ہوجاۓ ، کہ انسانوں کا خدا سے ٹوٹا ہوا رشتہ جوڑنے کے لۓ محمد بن عبد اللہ کو نبوت عطا ہوٸ ہے ، یہ وہ مقصد تھا جس کی تکمیل کے لۓ آپ کو دنیا میں بھیجا گیا تھا ۔ اعلان حق واظہار صداقت نبوت کی بنیاد ہے لیکن یہ جتنا اہم کام ہے اتنا ہی نازک بھی ہے ، لوگ دیکھتے ہی دیکھتے دشمن بن جاتے ہیں بہ ہر حال  یہ کام انجام  تک پہنچنا تھا تو ایک دن نبی علیہ السلام نے کوہ صفا سے لوگوں  کو آواز دی جس سے محسوس ہورہا تھا کہ کوٸ خاص پیغام سنایا جاۓ گا ۔ جس نے اس پکار کو سنا ۔ صفا کی طرف رخ کیا ۔ اور چلا آیا ۔ پھر صدا بھی محمد بن عبد اللہ دے رہا تھا  جو امانت داری و دیانت داری ، صداقت وسچاٸ میں بے مثال  تھا کوٸ خاص بات ہی ہوگی ۔ نبی پاک علیہ الصلاة والسلام نے بڑی جرأت کے ساتھ اپنی قوم کو خطاب کیا ۔ ایھا القریش : موت قریب ہے خدا کے سامنے حاضری ہوگی جس طرح تم دنیا کی چیزوں کو دیکھ رہے ہو میں اسی طرح عالم آخرت کو دیکھ رہا ہوں تم ایک خدا واحد کی عبادت کرو اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارو ، رب کریم کے علاوہ کسی چیز کے سامنے اپنی پیشانی کومت جھکاٶ ۔

بس یہ اعلان حق جیسے ہی لوگوں کے کانوں میں پڑا ، ہلچل مچ گٸ ،  چہ میگوٸیاں ہونے لگیں ، وہ شخص جو اب تک نیک چلن ، راست باز ، خندہ رو ، امانت دار ، سنجیدہ اور ہر دلعزیز خصلتوں میں نام آور رہا دفعةً کیسی بات کرنے لگا ، کس منصب کا دعویدار بن گیا ۔ کسی نے مجنوں کہا ، کسی نے پاگل کہا ، کسی نے کہا اس پر آسیب ہوگیا ہے ، کسی نے کہا اس کے دماغ میں کوٸ خلل آگیا ہے ۔ ہزار منہ ہزار باتیں ۔ جہاں ایک طرف قیاس آراٸیاں اور راۓ زنی کی جارہی تھی وہیں پر بعض یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اتنے سچے وامانت دار آدمی کو اس طرح ہنسی میں اڑادینا مناسب نہیں ہے ایسے لوگوں پر بھی طعنے کسے گۓ اس محمد بن عبد اللہ کے چکر میں آکر اپنے باپ دادا کے موروثی دین کو تو نہیں چھوڑ رہے ہو ؟ لیکن جو وفادار ہوتا ہے اور زبان کا پکا ہوتا ہے وہ نہ ڈرتا ہے نہ جھجھکتا ہے ایسے لوگوں کی ایک جماعت تھی جن کے قلوب پر صداۓ حق نے دستک دی تھی اور وہ مشرف بہ اسلام ہوۓ تھے 

(١) آزاد مردوں میں ابوبکر بن قحافہ 

(٢) بچوں میں علی بن ابی طالب

( ٣) عورتوں میں خدیجہ بنت خویلد 

( ٤ ) موالی میں زید بن حارثہ 

( ٥ ) غلاموں میں بلال حبشی  

اس طرح اس عظیم انقلاب کا آغاز ہوا پھر پیغامات انقلاب کا نزول ہوتا گیا اور ظلمتیں چھٹتی گٸیں ، روشنی ہوتی گٸ ، یہاں تک کہ ہر طرف نبی علیہ الصلاة والسلام کے نغمے سناٸ دیۓ جانے لگے اُس کے لۓ یہ درست ہے

حقیقتوں کی خبر دینے بشیر آیانذیر آیا

 شہنشاہی نے جس کے پاٶں چومے وہ فقیر آیا 

مبارک ہو زمانے کو کہ ختم المرسلین آیا 

سحاب رحم بن کر رحمة للعالمین آیا 

نبی علیہ السلام کی تعلیمات وہدایات کے سامنے دنیا کی ساری تہذیبیں ومذبی تعلیمات ہیچ نظر آ نے لگیں اور لوگ جوق در جوق دامن اسلام میں آتے گیۓ اور ساری دنیا میں نبی پاک علیہ الصلاة والسلام کی بعثت نے وہ انقلاب برپا کیا کہ اس پہلے نہ کوٸ ایسا انقلاب دیکھنے کو ملا اور نہ ملے گا اس لۓ کہ اس انقلاب میں حقانیت تھی ، صداقت تھی ، ہمدردی تھی ، محبت تھی ، انسانیت تھی ، وفاداری تھی ۔ اس لۓ کسی نے کہا تھا 

وہ آۓ جن کے آنے کی زمانے کو ضرورت تھی 

وہ آۓ جن کی آمد کے لۓ بے چین فطرت تھی 

وہ آۓ نغمہ داٶد میں جن کا ترانہ تھا 

وہ آۓ گریہ یعقوب میں جن کا فسانہ تھا 

وہ آۓ جن کی خاطر مضطرب تھی وادی بطحیٰ 

وہ آۓ جن کے قدموں کے لۓ کعبہ ترستا تھا 

وہ آۓ جن کو حق نے گود کی خلوت میں پالا تھا 

وہ آۓ جن کے دم سے عرش اعظم پر اجالا تھا ۔

نبی علیہ السلام کی شان کو بیان کرتے ہوۓ یہ کہا جاسکتا ہے 

قلم میرا قاصر زباں میری عاجز 

محمد کی عظمت بتاٶں میں کیسے 

٢٦ صفر ١٤٤٣ ھ 

٤ اکتوبر ٢٠٢١ ٕ

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی