*🌳ایک ٹوٹےدل کی نا تمام کہانی💥*

 *🌳ایک ٹوٹےدل کی نا تمام کہانی💥*


*✍️از قلم:* *گمنام مسافر*


موسم گرما کی رات ہے،عشاکےبعد کا وقت ہے، بجلی بھی جاچکی ہے،ہر طرف تاریکی ہی تاریکی اور اندھیرا ہی اندھیرا ہے، میں اپنے کمرے میں بیٹھتاہوں مگر بیٹھانہیں جاتا،دل اداس اور مغموم ہے،زندگی کی ہر خوشیاں فناہوکر یادوں میں ڈھل جاتی ہیں،لیٹتاہوں تو طبیعت میں بےکلی محسوس ہونے لگتی ہے، باہر کی طرف نکلتاہوں تو نگاہوں کے سامنے لہلہاتے درخت ہیں، اوپر کو نظر کرتاہوں تو آسمانوں پر جگمگاتے تارے خدا کی قدرت کا نظارہ پیش کررہےہیں،میں سوچتا ہوں کہ یہ کائنات اور کائنات کی ہر چیز جس خدا نے پیدا کیا اسی خدا نے تو ہمیں بھی پیداکیا، میرے دل بھی اسی خدا نے بناۓ مگر میں نہیں سمجھ پاتا ہوں کہ آخر میرا دل آج اتنا بےکیف کیوں ہے، میں تدبیریں سوچتا ہوں کہ دل کے بجھے ہوئے چراغ کو کیسے روشن کروں؟، شکستہ دل کو کس طرح جوڑوں،؟ میں انہی سوچوں میں گم ہوجاتاہوں اور مجھےیہ احساس ہی نہیں ہوپاتا کہ میں کتنی دیر سے ان تاروں اور سبزہ زاروں کو تک رہاہوں،اچانک مجھے خیال آتاہے،اور اندر آکر چارپائی پر بیٹھ جاتاہوں،اور کمرے کی دیوار پر لگی گھڑی کی طرف نظر کرتاہوں تو رات کے گیارہ بج رہے ہوتے ہیں،گھر کے دیگر کمروں میں دیکھتا ہوں تو گھر کےسب لوگوں کو نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا ہوتا ہے،میں ہی ایک رہ جاتاہوں جسے نیند آنے کا نام نہیں لیتی ہے،واپس کمرہ آکر لیٹ جاتاہوں، مگر دل بےتاب کو کسی صورت میں چین نہیں آتاہے، اور پھر یکدم سے اٹھ کر بیٹھ جاتا ہوں، تنہائی محسوس کرتاہوں کہ کوئی پوچھنے والا اور تسلی دینے والا بھی پاس موجود نہیں ہے،مگر میرا ضمیر مجھ سے مخاطب ہوکر کہتاہے، کہ تو تنہاء نہیں ہے،تیرے پاس کتابیں ہیں، جو تیرے بہترین ساتھی ہیں، ایسا کہ تجھ سے کبھی رخ نہیں موڑتے،تو ان کتابوں سے دل بےکیف کو حلاوت بہم پہنچا،جن میں زندۂ جاوید لوگوں کا تذکرہ ہے،جن میں جانبازوں اور زندہ کرداروں کا ذکرہے، الغرض! میں کتابوں کی الماری کی طرف بڑھتاہوں،اور الماری پر سجی کتابوں پر نگاہ ڈالتاہوں، کہ کس سے دل بےتاب کو سکون بہم پہنچے،کافی دیر تک سوچنے اور غور فکر کرنے کے بعد نگاہ انتخاب قبول کرتی ہے ایک کتاب کو جس کا نام ہے ,,کیاہم مسلمان ہیں؟،، ہاتھ میں اٹھاتا ہوں ، چارپائی پر بیٹھنے کے بعد گھڑی کی طرف نگاہ ڈالتاہوں، تو اب بارہ بج کر بھی پار ہوچکےہیں، کتاب کو کھولتاہوں،الٹ پلٹ کردیکھتاہوں،تو آخر کتاب سے چند صفحے قبل ایک شہ سرخی پر نگاہ پڑتی ہے، ,,جوانی۔۔۔۔۔اور قربانی،، دل کو بھاتی ہے،اور میں پڑھنا شروع کردیتاہوں،چند سطریں پڑھتاہوں، پھر پڑھتاہی چلاجاتاہوں،تذکرہ شروع ہوتاہے،صحابئ رسول حضرت مصعب بن عمیر کا، پہلے مال ودولت کی نشیلی چھاؤں میں گزرتی جوانی کا،پھر مصعب کی قربانی اور جزبۂ ایمانی کا،جزبۂ جہاد کا، خدا اور رسول سےبےلوث محبت،حسین اور پربہار جوانی کو خدا کی راہ میں قربان کردینے اور خون سے نہاکر خدا کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کی گواہی دینے کا،پس میں پڑھتاہوں اور پڑھتاہی چلاجاتاہوں، آنکھیں بھی اپنا کا شروع کردیتی ہیں،دل کا سارا غم آنسوؤں میں ڈھل کر بہنا شروع ہوجاتا ہے،میرا ضمیر مجھے بار بار جھنجھوڑ تاہے، اور مجھ سے پوچھتا ہے، تم بھی تو جوان ہو اور وہ بھی تو ایک جوان تھا؟ کیا تجھ میں اور اس میں شمہ بھر بھی مماثلت ہے؟، کیا بروز حشر تم اس کا سامنا کر سکوگے؟،جس جانباز نے اپنی پر بہار جوانی کو خدا کی راہ میں قربان کردیا؟،میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتاہے میں سوچتا ہوں، اور روتاہوں، روتے روتے سو جاتاہوں، اور نیند مجھےاپنی آغوش میں لے لیتی ہے،

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی