سیرت النبی کا ابدی پیغام

 *سیرت النبیؐ کا ابدی پیغام* 


*عثمان واؔرد سہارنپوری*




ماہ ربیع الاول پوری امت مسلمہ کے لئے موسم بہار کی حیثیت رکھتا ہے چونکہ اس مہینہ نبی ئے آخر الزمان محمد بن عبداللہ کی ولادت با سعادت کا شرف حاصل ہے فرحت و مسرت کا مظہر کھلائے جانے والے اس مہینہ کو اسلامی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل ہے یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ عزوجل نے سرور کائنات فخر موجودات، دانئے سبل، ختم الرسل، جیسے القاب دیکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدعو کیا اور تمام انسانوں کے لئے محسن انسانیت اور ملت کا غم گسار بناکر اس کرۂ ارض پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امام الانبیا، سیدالمرسلین، تاجدار مدینہ، احمدمجتبا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمتہ للعالمین بناکر مبعوث فرمایا آپ کا ظہور پوری انسانیت کے لئے ایسا ہمہ گیر اور انمول تحفہ تھا جسنے صحرائے عرب میں ایسا انقلاب برپا کیا جس سے کفروشرک، ضلالت و گمراہی کے بادل چھٹنے لگے عرب کے صحرانشینوں پر روحانیت کے بادل کمندے ڈالنے لگے فرقہ پرستی منظر سے غائب ہونے لگی آواز حق سے ایوان باطل پر لرزاں طاری ہوگیا آپ کی ولادت با سعادت نے دنیا کو مسخر کردیا عرب کے لوگ زندگی گزارنے کا سلیقہ پاگئے نسوانیت سے بدسلوکی کا خاتمہ کردیا گیا غرض قتل و غارت گری، بت شکنی، نور توحید سے جگمگا اٹھی بندوں کا رشتہ خالق سے جڑ گیا نسیم ہدایت کے نرم وخنک جھونکوں سے فضا کی آلودگی کو زیر زمین کردیاگیا:۔

ربیع الاول کا مہینہ جس چیز کی جانب اشارہ کرتا وہ یہ ہے کہ آپؐ کی سیرت کو پڑھا جائے آپؐ کے بتائے گئے راستے پر چلا جائے نیز سیرت کے مقابلے منعقد کرکے نئی نسل کو آپ کے اسؤ حسنہ سے متاعرف کرایا جائے اور اتنا ہی نہیں بلکہ آپؐ کی روشن تعلیمات سے استفادہ کیا جائے غربا اور مسکینوں کا سراغ لگا کر ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے لیکن دور حاضر میں یہ تمام کے تمام افعال نفی کی شکل اختیار کرچکے ہیں اور عوام الناس گمراہی کے راستے کا حصہ بن کر رہ گئ جبکہ آپؐ کی ولادت ایسے موقع پر ہوئی تھی جس وقت دنیا کی تاریکی عروج پر تھی جگہ جگہ بتوں کی پرشتش ہوا کرتی طاقت ور طبقہ کمزورں پر ظلم و زیادتی کرتا دیکھائی دیتا انصاف کو نا انصافی کے پیمانہ پر تولا جاتا چہار سو کفر و شرک کا دور دورہ تھا لیکن آپؐ کے تشریف لاتے ہی تاریکی کو زوال اور روشنی کو دوام ملتا چلا گیا کمزو روں پر ہورہی ظلم و زیادتی دھیرے دھیرے اپنے پر سمیٹنے لگی آپؐ کی روشن تعلیمات سے دینا کا کوئی بھی طبقہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا آپ کے روشن آئین نے دنیا کو انصاف دلانا شروع کردیا آپؐ کی عادات و اطوار کی پذیرائی ہونے لگی صحرائے عرب میں آپ کی سچائی و امانت داری کا طوطی بولنے لگا آپ کی حق گوئی و بے باکی ظالم رہنماؤں پر بجلی بن کر گرنے لگی غرض ایک طرح سے آپؐ کے اخلاق حسنہ سے روشنی کی قندیلوں نے تاریکی کو اپنے پر سمیٹ نے پر مجبور کردیا اور دشمنان اسلام کے قافلے جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے،، یہ سب آپؐ کے اخلاق کا کرشمہ تھا جس نے دنیا کو مسخر کردیا لہذا دور حاضر میں بھی ایسے ہی کردار سازی اور اخلاق کی ضرورت ہے جس سے ظلم کا خاتمہ کیا جا سکے آئے ہم سب مل کر وعدہ کرتے ہیں کہ اپنی زندگی کے بقیہ شب و روز آپؐ کے قول و فعل کے مطابق گزارنے کی کوشش کریں گے۔۔


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی