کیا تھے اور کیا ہوگئے ، دیکھتے دیکھتے

 🌹﷽🌹 

کیا تھے، اور کیا ہوگئے ، دیکھتے دیکھتے


🌹🌹محمد شاداب سیتامڑھی🌹🌹



نوجوانوں کی معاشرہ میں بڑی اہمیت ہے وہ قوم وملت کا قیمتی سرمایہ،ان کے مستقبل کا روشن ستارہ ہے اور ملک وملت کا طاقت ور ستون ہوتے ہیں جن پر قوموں کی تنزلی اور ترقی کا مدار ہوتا ہے،وہ پہاڑوں کو ہلا دینے والے اور دریاٶں کا رخ موڑ دینے والے جزبے سے سرشار ہوتے ہیں

الغرض نوجوانوں سے معاشرہ کی تعمیروترقی بھی ہوتی ہے اور تخریب وویرانی بھی،قومیں ان سے بنتی بھی ہیں اور بگڑتی بھی ہیں،ملک آباد ہوکر ویران بھی ہوتے ہیں،اور ویران ہوکر آباد بھی ہوتے ہیں،اس لٸے قوم کے نوجوانوں کی بربادی اس قوم وملت کی تباہی ہے،جب تک نوجوانوں کوتباہی سے نہ بچایا جاٸے اس وقت تک کوٸ قوم تباہی سے بچ نہیں سکتی 

مگر حیف صد حیف جس نوجوانوں سے امت کی اتنی امیدیں وابستہ ہیں آج وہ نوجوان دور دور تک نظر نہیں آتے ایک زمانہ وہ تھاکہ جہدوعمل،عبادت وریاضت،صداقت وامانت، شجاعت و بہادری،سخاوت وفیاضی،عدل وانصاف اور عزاٸم کی بلندی وغیرہ جتنے اچھے اوصاف تھے وہ مسلمان بالخصوص نوجوانوں کی پہچان بنٸے ہوٸے تھے او آج جتنی بھی بری عادتیں اور رذیل کام ہیں وہ ہمارے نوجوانوں کی شناخت بنتے جارہے ہیں،مادیت کی چمک دمک اور مغربی تہزیب و طرز زندگی پر جوانوں کی فریفتگی کا یہ عالم ہے کہ تعلیم وتربیت جیسی مٶثر چیزان کے ذہن ودماغ پر اثر انداز ہو نہیں پاتی، ہمارے نوجوانوں کی بدحالی اس حال تک پہچتی جارہی ہے ک اب غیر مسلم بھی ہم پر ہستے ہیں،اور خوش ہوکر یہ کہتے ہیں کہ اب اس قوم کا خاتمہ ہی سمجھو 

     مراکش جاچکا،ایرں گیا،اب دیکھنا یہ ہے 

کہ جیتا ہے ترکی کا یہ مریض،ناتواں کب تک 


نوجوان وہ نسل ہے جس نےبرسوں نہیں بلکہ صدیوں تک پوری دنیا کی قیادت کی ہے بلکہ قیادت کے عجیب و غریب جوہر دکھلاٸے جن کی تاریخ میں کوٸ نظیر نہیں ملتی، آج وہی نسل مخلص،ایمانداراور قاٸدانہ صلاحیت رکھنے والے نوجوانوں و افراد سے خالی اور محروم نظر آرہی ہے 

کل تک وہ نوجوان جنہوں نے اپنی زندگی کا مقصد دین کی سر بلندی کو بنا لیا تھا جو ہمہ وقت جہاد کے لٸے تیار رہتے تھے 

آج ہمارے نوجوانوں کی نگاہوں سے زندگی کے مقاصد اوجھل ہوتے نظر آرہے ہیں مادیت کی چمک دمک اور رنگینیوں نے ان کی نگاہوں کو اس طرح اندھا کردیا ہے کہ وہ اپنی پرانی روایات اور اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر غیروں کے پیچھے اس طرح دوڑ رہے ہیں کہ انہیں کچھ خبر بھی نہیں ہے کہ انجام کیا ہوگا غیر اسلامی طور طریق کو اپنی پہچان بناتے جارہے ہیں

کل کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں قرآن مجید ہوتا تھا،آج ان کے ہاتھوں میں کرکٹ کا بلا اور وی سی آر کی کیسٹ ہوتی ہے،کل کے نوجوان اپنا سارا وقت تعلیم وتعلم میں صرف کرتے تھے،اور آج کے نوجوان سارا وقت انٹرنیٹ کے فحش ویب ساٸٹس اور مغریبی تہزیب سے آراستہ لڑکیوں سے عشق بازی کرنے میں گزار دیتے ہیں   

شراب اور دوسری نشہ آور چیزیں {ہیرٸن،افیون،گانجہ،مارفیا،کوکین، بھنگ سگریث وغیرہ}جن کو پہلے کے نوجوان ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے تھے، مگر آج کے نوجوان ان کے اتنے عاشق نظر آتے ہیں کہ چند لمحے کے لٸے بھی جداٸگی گوارہ نہیں کرسکتے 

آج کے نوجوان کو دینی اعمال بالخصوص نماز وعبادت سے کوٸ دلچسپی نہیں،یہاں تک کہ وہ فرض کو ادا کرنے پر بھی تیار نہیں ہوتے ان کے رویے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اسے فضول اور لغو سمجھتے ہو جبکہ پہلے کے نوجوان نماز اور دیگر عبادت کے عادی بلکہ شیداٸ تھے آج کے نوجوان رات کے قیمتی لمحات فضول باتوں اور ٹیلی ویزن،انٹرنیٹ، اور اپنی معشوقہ سے دل لگی کی باتیں کرنے میں گنوادیتے ہیں تو وہی کل کے نوجوان رات بھر ذکر وازکار تلاوت اور رب سے مناجات اور دعا میں مشغول رہتے تھے 

قارٸین کرام ۔۔۔یہ در اصل پہودی ونصاری کی زبردست سازش ہے، وہ لوگ مسلم معاشرے کی اصل روح نوجوان اسلام کو اسلامی تعلیم سے دور رکھنے،اور ان کے اندر سے ایمانی روح کو ختم کرنے کے لٸے اپنے تمام وساٸل کے ساتھ ایک عرصہ سے مسلسل کوشاں ہیں،اس لٸے انہیں معلوم ہے کہ ہر میدان میں قوم کی قیادت کرنے والے دشمنوں کے مقابلہ پر پہاڑ کی چٹان بن کھڑا ہونے والےیہی شیر دل نوجوان ہے اگر انہیں دنیا کی لذتوں اور شہوتوں میں پھنسا کر اندر سے کھوکھلا کر دیا جاٸے،تو اسلام اور مسلمانوں کی طاقت خودبخود کمزور پڑجاٸے گی،مسلمانوں کی نٸ نسل کو لہو ولعب شراب وشباب میں الجھا کر اسے ذہن ودماغ سے اس طرح نکما کردیا جاٸےکہ یہ نوجوان میدان میں اتر کر مقابلہ کے بجاٸے اپنا عشرت خانہ آباد کرنے میں مگن رہے 


حضرات پس ان حقاٸق کی روشنی میں یہ کہنا قطعا غلط نہ ہوگا کہ اگر ان نوجوانوں کو خالید بن ولید کی جرآت کو یاد نہ دلایا گیا،محمد بن قاسم کے کارناموں سے روشناش نہ کرایاگیا،جلیل القدر مجاہد انور پاشا کی آخری خط کو انہیں نہ سنایا گیا،فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد خاں کی زندگی میں اسے نہ ڈھالاگیا،فاتح اندلس طارق بن زیاد کی تقریر ان کے دل ودماغ میں نقش فی الحجر نہ کیا گیا، فاتح فلسطین سلطان صلاح الدین ایوبی کی ہمت وبہادری ان کے اندر پیدا نہ کی گٸی تو خدا کی قسم وہ دن دور نہیں کی آنے والی نسلیں تو رنگ وروپ،شکل وصورت میں تو ظاہر مسلمان ہوگی مگر دل دماغ اور باطن کے اعتبار سے اسلام مخالف اور غیروں کی طرف ماٸل ہوگی 


  یہ عالم عیش وعشرت کایہ دنیا کیف ومستی کی 

بلند اپنا تخیل کر،یہ سب باتیں ہیں پستی کی 

   

نہیں ترا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر 

تو شاہی ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں 



Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی