انتخابات اور مسلمان

 *انتخابات اور مسلمان*


__روح الامین ندوی_



نفرت اور عداوت کا زہر پورے ملک میں پھیل چکا ہے....سیاست انسانیت سوز بن چکی ہے حکمراں طبقہ پروفیشنل چور بن چکا ہے...

آزادی سے کچھ قبل اور آزادی کے بعد سے مسلسل اس ملک میں ذہنی تقسیم کا کام کیا گیا ہے

خلافت کمیٹی میں گاندھی جی کا شامل ہونا...اسکے بعد ایک حادثہ کے نتیجہ میں گاندھی جی کا کمیٹی سے الگ ہونا مستقبل میں تقسیم کا پیش خیمہ ثابت ہوا......

آزادی کے بعد مسلمانوں کے خلاف گاندھی جی کا نظریہ *پیار سے لوگوں کو رام کرو* کانگریس اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے اپنایا جبکہ طاقت اور ہتھیار سے لوگوں کو مجبور کرنے کا نظریہ آر ایس ایس اور اسکی سیاسی پارٹی کا رہا ہے


آزادی کے بعد سیاسی میدان میں کانگریس کا اپنا طریقہ عمل رہا ہے.....وہ ہندو مسلم کو بظاہر ایک آنکھ سے دیکھنے کی قائل رہی ہے 

مندر اور دیگر ہندو ازم کے کام ایک ضابطہ اور قانونی شکل میں کئے گئے

جبکہ مسلمانوں کے مسائل غیر قانونی شکل میں حل کئے گئے

اور ہمارے نادان مسلمان اپنی پیٹھ تھپتپاتے رہے کہ ہم نے طاقت کے بل پر...یا تعلق کی وجہ سے...یا کچھ لے دے کر اپنے مسائل حل کروالئے...

مسلمانوں کے اوقاف آج تک غیروں کے رحم وکرم پر ہیں جنکی سالانہ آمدنی اندازا

 ۹۰ کروڑ سے زائد ہیں


اب جبکہ برسراقتدار پارٹی دہشت عداوت خونی کھیل پر یقین رکھتی ہے....

اس پارٹی نے اپنا ووٹ ہندو ازم کی بنیاد پر بنایا ہے...

کانگریس نے یہ کوشش کی ہے کہ وہ مسلمانوں میں مسلم چہرہ کے ساتھ نظر آئے

جبکہ بی جے پی نے یہ کوشش کی ہے کہ مسلمان بی جے پی کے چہرہ میں نظر آئیں


یہی وہ بنیادی سیاسی فرق ہے جسکی وجہ سے آج بی جے پی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے


ملک کی معاشی و تعلیمی ابتری کسی پر ڈھکی چھپی نہیں ہے..کورونا مہاماری میں ہزاروں بھکتوں کا حال برا ہوا....لیکن اسکے باوجود چاروں طرف سناٹا ہے......کچھ آوازیں بلند ہورہی ہیں تو وہ اسلئے تاکہ لوگوں کے ذہن میں جمہوریت کا تصور برقرار رہے


ذرا غور کیجئے....این آر سی..اور دیگر مواقع پر آوازیں بڑی شدت سے بلند ہوئی تھیں انھیں کس طرح دبادیا گیا...اور کونسی سیاسی پارٹی ہے جو دبی ہوئی آواز کو بلند کرنا چاہتی ہے 


دوسری طرف کسان آندولن اسے حکومت نہیں دباسکتی کیونکہ وہ ہندو مسلم نہیں بلکہ معاشی مسئلہ ہے...مزید جمہوریت کا احساس باقی رہے اسلئے بھی سلسلہ جاری رکھا گیا ہے


ان سطور کے بعد اب یہ اندازہ لگانا آسان ہوگا

کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی اب مسلمانوں سے نہ بات کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی دیکھنا چاہتی ہے

اسلئے کہ اس وقت الیکشن کا قبلہ ہندو مسلم بنا ہوا ہے....اور ملک کی ایک بڑی آبادی کو ہندو بنا لیا گیا ہے

(ملک میں حقیقی ہندو کی تعداد کم ہے..لیکن ووٹ کے لئے پارسی جین بودھ دلت سب کو ہندو کہا جارہا ہے) 

اسلئے ہر پارٹی کا رخ مندر پنڈت اور ہندوانہ رسم و رواج ہے......آجکل جسکا مشاہدہ ہورہا ہے

اور اسی سے بھولے بھالے مسلمانوں کو بھی جان لینا چاہئے کہ یہ تمام پارٹیاں یکجان ویک قالب ہیں

اسلئے کرکٹ سے لے کر بیماری تک

زمین سے لے کر آسمان تک

بلکہ کوئلہ کی کمی...معیشت کی کمزوری ہر ایک شعبہ میں ہندو مسلم کا فرق کام کررہا ہے


 ایسی گھڑی میں مسلمان اگر کسی سیاسی لیڈر ( اسد الدین اویسی مثلا )کو بحیثیت مسلم پسند کرتا ہے تو یہ ہماری سیاسی کمزوری ہوگی جسکا نقصان آئندہ کئی نسلوں کو بھگتنا پڑیگا


اگرچہ تمام پارٹیاں مسلم مخالف ہیں...لیکن ڈوبتے کو تنکا چاہئے.....

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود و کفار عرب کی طرف سے پیش آنے والے حالات کا مقابلہ کیا.....لیکن ساتھ میں منافقین کو بھی رکھا جو کئی مواقع پر دھوکہ دے چکے تھے...


اسلئے مسلمان الیکشن ہندو مسلم نہ ہونے دیں....

بلکہ یہ اور آئندہ الیکشن بد اور بدتر کے فرق کے ساتھ ہو کہ بدتر کے بجائے بد کو پسند کرلیں

تاکہ بے جی پی کی کراری شکست ہو اور آئندہ پرسکون ہوکر بہتر سے بہتر لائحہ عمل سوچا جاسکے

ساحل تک بعافیت پہنچ جاؤ....

پھر تو سارا شہر ہمارا ہے

کاروان علم_ karwaneilm

mdalij802@gmail.com

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی