آج کا معاشرہ اور والدین کے حقوق

 *آج کا معاشرہ اور والدین کے حقوق!!*


*✍🏻 :- محمد آصف حسامی دیناجپوری* (بانی گروپ مطالعاتی انعامی مقابلہ) 



       موجودہ حالات میں اگر معاشرہ کا ایک سطحی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حق تلفی کا زہریلا سلسلہ معاشرہ میں روز بزور بڑھتا ہی جا رہا ہے، انسان بے راہ روی میں پڑ کر ایک دوسرے کے حقوق کی حق تلفی کر رہے ہیں، کسی کو ایک دوسرے کے حقوق کی کوئی پرواہ نہیں، انہیں حق تلفی  میں سے ایک حق تلفی والدین کی نافرمانی کا ہے جس کے تعلق سے آج معاشرہ بے روی کا شکار ہو چکا ہے، والدین کو مارا پیٹا جا رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ گالم گلوچ کی جا رہی ہے، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، ان کو گھروں سے بے گھر کیا جا رہا ہے، ان کے حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے، ان پر طرح طرح کی ظلم و زیادتیاں کی جا رہی ہیں، اور یہ زیریلا سلسلہ ختم ہونے کے بجائے دن بدن روز افزوں ہیں، گویا کہ معاشرہ میں والدین کی حلق تلفی، ان پر ظلم و بریریت کو ہلکا سمجھا رہا ہے، جب کہ قرآن و احادیث میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے، ان کے ساتھ حق تلفی، اور ظلم و زیادتی کو گناہ قرار دیا، اور اللہ تعالیٰ نے مقام والدین کو اس قدر بلند کیا کہ جہاں اپنی بندگی کا حکم دیا وہیں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور رواداری کا حکم دیا، جو والدین کی اہمیت و فضیلت کو بتانے کے لئے کافی ہے۔



*والدین کے ساتھ حسن سلوک قرآن و احادیث کی روشنی میں* 


       جس طرح اللہ رب العزت انسانوں کے پیدا کرنے کے موجد حقیقی ہے اسی طرح والدین عالم اسباب میں اپنی اولاد کے وجود کا سبب ظاہری ہے، یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں اپنی عبادت کا تذکرہ کیا وہیں پر والدین کے ساتھ حسن سلوک  و روا داری کا حکم دیا، اس کے علاوہ بھی الگ سے حسن سلوک کی تاکیدی حکم دیا، چنانچہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا «وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ً وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَارَبَّيَانِي صَغِيرًا» *(الإسراء: 23، 24)* (اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ، اگر وہ یعنی ماں باپ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اور ان کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو ) ان سے کبھی ”ہوں“ بھی مت کہنا، اور نہ انھیں جھڑکنا، اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا :اے ہمارے پروردگار! تو ان پر رحم فرما، جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے) 


       اس آیت کریمہ میں اللہ جلَّ جلالُہ نے سب سے پہلے اپنی بندگی و اطاعت کا حکم ارشاد فرمایا ہے کہ میرے علاوہ کسی اور کی بندگی ہرگز مت کرنا، اس کے بعد فرمایا کہ اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔ اولاد کو یہ سوچنا چاہیے کہ والدین نہ صرف میرے وجود کا سبب ہیں، بلکہ آج میں جو کچھ بھی ہوں، انھیں کی برکت سے ہوں، والدین ہی ہیں جو اولاد کی خاطر نہ صرف ہر طرح کی تکلیف دکھ اور مشقت کو برداشت کر تے ہیں، بلکہ بسا اوقات اپنا آرام و راحت اپنی خوشی و خواہش کو بھی اولاد کی خاطر قربان کر دیتے ہیں۔


       دوسری جگہ ارشاد فرمایا «وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا» *(سورہ نساء آیت نمبر : 36)* (اور اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو) 


       اور ایک جگہ ارشاد فرمایا «وَوَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ حُسۡنًا» *(سورہ عنکبوت آیت : 8)* (اور ہم نے انسان کو تاکیدی حکم دیا کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کرو) 



       اور ایک جگہ ارشاد فرمایا «وَوَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ اِحۡسٰنًا ؕ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ کُرۡہًا وَّ وَضَعَتۡہُ کُرۡہًا ؕ» *(سورہ احقاف آیت نمبر : 15)* (اور ہم نے انسان کو تاکید کی کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرے، اس کی ماں نے اسے مشقت کے ساتھ پیٹ میں رکھا اور مشقت کے ساتھ اس کو جنا) 



       نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کو اللہ کے نزدیک محبوب عمل قرار دیا، چنانچہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا «أيُّ العَمَلِ أحَبُّ إلى اللَّهِ؟ قالَ: الصَّلاةُ علَى وقْتِها، قالَ: ثُمَّ أيٌّ؟ قالَ: ثُمَّ برُّ الوالِدَيْنِ، قالَ: ثُمَّ أيٌّ؟ قالَ: الجِهادُ في سَبيلِ اللَّهِ» *(صحیح بخاری کتاب الادب باب ووصینا الانسان بوالدیہ)* (کونسا عمل اللہ کے یہاں زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز اپنے وقت پر پھر پوچھا کونسا؟ جواب دیا والدین کے ساتھ حسن سلوک پھر سوال کیا۔ کونسا؟ جواب دیا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا) 


       ایک حدیث میں والدہ کو حسن سلوک کا زیادہ مستحق قرار دیا «جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِىّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ‏:‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِى‏؟‏ قَالَ‏:‏ ‏(‏أُمُّكَ‏)‏، قَالَ‏:‏ ثُمَّ مَنْ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ‏(‏ثُمَّ أُمُّكَ‏)‏، قَالَ‏:‏ ثُمَّ مَنْ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ‏(‏ثُمَّ أُمُّكَ‏)‏، قَالَ‏:‏ ثُمَّ مَنْ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ‏(‏ثُمَّ أَبُوكَ‏)‏‏» *(صحیح بخاری کتاب الادب)*؟ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول!  بھلائی کے لیے لوگوں میں سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ نے فرمایا : (ماں) اس نے کہا: پھر کون؟ اس نے کہا: (پھر تمہاری ماں) اس نے کہا : پھر کون؟ اس نے کہا: (پھر تمہارے والد)


      آپ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو جہاد کے بجائے والدین کی خدمت کی تلقین کی، روایت یوں ہے «قال رَجُلٌ لِلنَّبِى صلى الله عليه وسلم‏:‏ أُجَاهِدُ، قَالَ‏:‏ ‏(‏لَكَ أَبَوَانِ‏)‏‏؟‏ قَالَ‏:‏ نَعَمْ، قَالَ‏:‏ ‏(‏فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ‏)‏‏» *(صحیح بخاری کتاب الادب باب لا يجاهد إلا بإذن الأبوين)* (ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، کیا میں جہاد کروں؟ آپ نے فرمایا : آپ کے والدین ہیں؟ اس نے کہا: ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو ان دونوں میں جہاد کر یعنی خدمت کر۔

ان آیات اور احادیث  سے واضح طور پر والدین کے ساتھ حسن  سلوک و رواداری کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے. 



*والدین کی نافرمانی کرنا*


       والدین کی نافرمانی کرنا جائز نہیں، حتیٰ کہ مشرک باپ کی بھی نافرمانی سے منع کیا، شرک کے بعد یہ سب سے بڑا گناہ ہے، اور اللہ تعالی شرک کے علاوہ کے گناہوں کو جتنا چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے، لیکن والدین کی نافرمانی کی سزا دنیا ہی میں دیتا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كلُّ الذنوبِ يغفرُ اللَّهُ مِنْهَا مَا شاءَ إِلَّا عُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ فَإِنَّهُ يُعَجَّلُ لِصَاحِبِهِ فِي الحياةِ قبلَ المماتِ»". *(مشکاۃ المصابیح ،باب البر والصلۃ)* (رسول کریمﷺ نے فرمایا : شرک کے علاوہ تمام گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے جس قدر چاہتا ہے بخش دیتا ہے، مگر والدین کی نافرمانی کے گناہ کو نہیں بخشتا، بلکہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کو موت سے پہلے اس کی زندگی میں جلد ہی سزا  دے دیتا ہے۔


       دوسری حدیث میں ہے : قال رسول الله ﷺ : من الکبائر شتم الرجل والدیه، قالوا: یارسول الله وهل یشتم الرجل والدیه، قال: نعم، یسب أبا الرجل فیسب أباه ویسب أمه فیسب أمه. متفق علیه". *(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الاول)* (رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے، لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا کوئی آدمی اپنے والدین کو گالی بھی دے سکتاہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں! آدمی کسی دوسرے کے والد کو گالی دیتا ہے تو وہ بھی اس کے والد کو گالی دیتا ہے، اور یہ دوسرے کی ماں کو گالی دیتاہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے) 


       دوسرے کے والدین کو گالی دینا جو اپنے والدین کو گالی دینے کا سبب ہے اسے کبیرہ گناہ قرار دیا جا رہا ہے، پھر براہِ راست اپنے والدین کو خود گالی دینا کتنا بڑا گناہ ہوگا. 


      اور ایک حدیث میں ہے جو والدین کی نافرمانی کرتا ہے تو اس کے لئے جہنم کا دورازہ کھول دیا جاتا ہے : قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان". *(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث)* (رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے، اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتا ہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔



*آخر یہ زہریلا سلسلہ روز افزوں کیوں؟*


       والدین کے ساتھ نافرمانی کا جو زہریلا سلسلہ روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہیں، اسکی اصل سبب یہ ہے کہ اولاد کی اچھی طرح تربیت نہیں کی جا رہی ہے، بچپن میں اسلامی تعلیمات سے اولاد کو جس طرح سنوارنا تھا ویسے سنوارے نہیں جا رہے ہیں، جس برے ماحول سے بچانا ہے اس ماحول سے بچانے کے بجائے اس ماحول کو نظر انداز کر دیتے ہیں، پھر بڑا ہو کر یہی بچہ آنکھوں کی ٹھنڈک کے بجائے آنکھوں میں آنسو جاری کرتے ہیں، تکلیف پہنچاتے ہیں، اس وقت ہم یہ کہتے کہ ہمارا بچہ نافرمان ہو گیا، ہماری بات ہی نہیں مانتا، جب کہ بچہ کو اس طرح بنانے میں ہماری خود کی کاشت ہوتی ہے۔



*والدین کے ساتھ حسن سلوک کی برکت*


      جب اولاد والدین کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے، ان کی اطاعت و فرماں براداری کو اپنی سعادت مندی سمجھتا ہے، تو پھر اس کی برکتیں بھی اولاد کو نصیب ہوتی ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ له فِي رِزْقِهِ، وأَنْ يُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ, فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ. *(صحیح بخاری کتاب الادب باب من بسط لہ فی الرزق بصلتہ الرحم)* (جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی رزق میں گشادگی ہو اور اسکی عمر دراز ہو تو اسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے) 


       اس حدیث کے اندر صلہ رحمی کی فضلیت بیان کی گئی ہے، اور صلہ رحمی کے سب سے زیادہ مستحق والدین ہیں، لہٰذا جو شخص والدین کے ساتھ صلہ رحمی کرے گا تو اسے اللہ تعالی اسکی وجہ سے رزق اور عمر کی گشادگی عطا کریں گے) 


       اسی طرح ایک حدیث کے اندر مذکور ہے کہ : «بَرُّوْا آبَاءَ کُمْ تَبُرَّکُمْ أَبْنَاوٴُکُمْ» *(مستدرک حاکم)* (تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو تمہا ری اولاد تمھارے ساتھ حسن سلوک کرے گی) 


       اس حدیث سے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی برکت یہ سمجھ میں آرہی ہے کہ اگر اولاد حسن سلوک کریں تو اس کی اولاد بھی حسن سلوک کریں گی، اور اگر اولاد حسن سلوک کو ترک کر دیں تو پھر یہ نافرمانی کا زہریلا سلسلہ چلتا ہی رہے گا. 


       اور ایک حدیث کے اندر ہے کہ جب ایک مرتبہ تین شخص کسی غار کے اندر بند ہو گئے اور سوائے موت کے کوئی چارہ کار نہیں تھا تو ایسے وقت میں ہر ایک نے اپنے اعمال کا وسیلہ دیکر دعا کی، ان تین اشخاص میں ایک والدین کا مطیع و فرماں بردار بھی تھا، جب اس نے دعا کی اور خدمت و صلہ رحمی کا وصیلہ دیا تو اللہ نے اسکی برکت سے غار کے منہ سے پتھر کو ہٹادیا۔ *(صحیح بخاری و مشکات المصابیح)*


       ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی اطاعت و فرماں برداری کرنے میں نفع ہی نفع ہے، اس سے رب راضی ہوتا ہے جیسا کہ ترمذی کی حدیث میں مذکور ہے اسی طرح عمر اور رزق میں گشادگی ہوتی ہے، لیکن پھر بھی اس نفع کو چھوڑ کر نقصان کا سودا کر کے اپنی دنیا و آخرت کو تباہ  کر رہے ہیں۔



*والدین کی بددعا سے بچیں*


      اولاد کو چاہئے کہ وہ والدین کی بد دعا سے بچیں، چاہے اولاد کتنا ہی نیک ہو، لیکن والدین کی بد دعا اولاد کے حق میں بہت جلد قبول ہوتی ہے، اور والدین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کو نہ کوسے، اور نہ ہی بد دعا دیں، اگر اولاد کی طرف سے تکلیف پہنچ جائے تو معاف کر دیا کریں۔


*والدین کے انتقال کے بعد افسوس ہوتو کیا کریں*


       بچپن یا عالم شباب میں اولاد ناسمجھی اور بے راہ روی میں پڑ کر والدین کی نافرمانی کرتا ہے، ان کو تکلیف دیتا ہے، پھر والدین دل برداشتہ ہو کر اس دنیا سے چلے جائے اور بعد میں اولاد کو نافرمانیاں یاد آتی ہیں، افسوس کرتا ہے، دل میں یہ داعیہ پیدا ہوتا کہ کاش! میں نافرمانی نہ کرتا، اطاعت و فرماں برداری کرتا، اگر والدین ہوتے تو ان سے معافی مانگ لیتا، ان کی خدمت کرنا، اپنی نیک بختی سمجھتا تو ایسے شخص کے متعلق حدیث پاک کے اندر موجود ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : إن العبد لیموت والداه أو أحدهما و إنه لهما لعاق، فلایزال یدعو لهما ویستغفر لهما، حتی یکتبه الله بارًّا. *(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث)* (بے شک (بعض اوقات کسی) بندے کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک اس حال میں مر جاتے ہیں کہ وہ ان کا نافرمان ہوتا ہے، چنانچہ وہ ان دونوں کے لیے دعا اور استغفار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے فرماں بردار لکھ دیتے ہیں) 


    اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کسی نافرماں اولاد کے دل میں خواہش پیدا ہو کہ وہ مطیع و فرماں برداد میں شمار کیا جائے تو اسکو حکم دیا گیا کہ وہ والدین کے لئے رحمت، مغفرت اور بخشش کی دعا کرتے رہیں تو اللہ تعالی اسکو فرماں بردار میں لکھ دیتے ہیں. 



*والدین کے وفات کے بعد کیا حقوق ہیں*


       جب والدین دنیا سے چلے جاتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں اب ہمارے اوپر کوئی حق باقی نہیں، جو حق تھا وہ صرف زندگی باقی رہنے تک ہی تھا، ہم لوگ بالکل ہی لاپرواہی کا شکار ہو چکے ہیں، غلفت برتتے ہیں، حالانکہ والدین کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد بھی ہمارے اوپر کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کا تذکرہ حدیثوں کے اندر موجود ہے۔


عن أبي أسيد الساعدي -رضي الله عنه- قال: بَينَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلِمَة، فَقَال: يا رسول الله، هَل بَقِيَ مِنْ بِرِّ أَبَوَيَّ شَيءٌ أَبُرُّهُمَا بِهِ بَعدَ مَوتِهِما؟ فقال: «نَعَم، الصَّلاَةُ عَلَيهِما، والاسْتِغْفَارُ لَهُما، وإِنْفَاذُ عَهدِهِمَا مِنْ بَعْدِهِمَا، وَصِلَةُ الرَّحِم الَّتِي لاَ تُوصَلُ إِلاَّ بِهِمَا، وإِكرَامُ صَدِيقِهِما». *(ابوداؤد و ابن ماجہ)* (حضرت ابو اسید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو بنی سلمہ سے ایک شخص حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوا اس نے عرض کیا یارسول اللہ! کیا میرے والدین کے حسن سلوک میں سے کچھ باقی ہے جسے میں ان کی وفات کے بعد ان دونوں کے ساتھ کر سکوں؟  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں! ان کے لئے خیر و برکت کی دعا کرتے رہنا، ان کی بخشش کی دعا کرنا، ان کے مرنے کے بعد ان کے وعدوں کو پورا کرنا، والدین کے خونی رشتہ داروں کا اِحترام کرنا، اور والدین کے دوستوں کا اِحترام کرنا۔‘‘


      اس حدیث مبارکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے والدین کے مرنے کے بعد ان کے حقوق بتائے، اس لئے ہم بھی ان حقوق کی پاسداری کا خیال کریں اور ان کو نبھائیں۔


*آخری بات*


      والدین اللہ تعالی کی ایک عظیم ترین نعمت ہے، والدین نے ہمارے لئے جو کچھ کیا ہم لوگ ان کا حق کرنا چاہیں بھی تو نہیں کر سکتے، ساری زندگی اگر ان کی خدمت میں بھی گزار دیں تو والدین کے ایک حق کو بھی ادا نہیں کر سکتے، اتنے احسانات ہوتے ہیں اولاد پر والدین کے، لہٰذا ہم سب پر لازم اور ضروری ہے کہ ہم ان کی خدمت و اطاعت کریں، ان کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ دیں، خصوصا بڑھاپے کے عالم میں جب والدین اولاد کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ ہو جائے تو اولاد کو چاہئے کہ وہ صبر و تحمل سے کام لیں، ان پر غصہ وغیرہ سے پرہیز کریں، کیونکہ بڑھاپے کے عالم میں والدین کے اندر ایک چڑچڑاپن آ جاتا ہے، نیز ہم والدین کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہیں، اگر آج ہم اطاعت والدین کریں گے تو کل ہماری اولاد بھی ہماری طرف خیر و بھلائی کریں گی اور نافرمانی کا زہریلا سلسلہ ختم ہوکر ایک بہتر معاشرہ وجود میں آئے گا ان شاء اللہ۔


اللہ تعالی ہم سب کو والدین کی خدمت کی توفیق عطا کریں ...آمین

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی