پس مرگ زندہ: عقیدت و محبت کا تابندہ نقوش

 *پس مرگ زندہ : عقیدت ومحبت کے تابندہ نقوش* 



*از قلم:محمد اکرام الحق ندوی* 


    دنیا میں جو بھی آیا وہ جانے کے لیے ہی آیا ، کوئی یہاں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آیا ، یہاں کی ہر چیز فانی ہے ، ہر ایک کو اسی مٹی میں مل جانا ہے ، جس اس کا خمیر اٹھا ہے ، خلود ودوام اور بقا صرف اللہ کے لیے ہے ؛ لیکن ان فانی انسانوں میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو موت کے بعد ہمارے دلوں میں زندہ رہتی ہیں ، ان کی یادوں کے چراغ ہمارے قلوب میں روشن رہتے ہیں ، لیل ونہار کی مسلسل گردش کے باوجود ان کے ذکر خیر سے ہماری زبانیں تر رہتی ہیں ، ان کے افکار وخیالات ہمارے ذہن وفکر کو بالیدگی اور شعور کو گہرائی و گیرائی عطاکرتے ہیں ، ان کے سماجی ، اصلاحی ، تربیتی ، فکری ، علمی ، ادبی اور سیاسی کارنامے تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں ، اور آنے والی نسلیں ان کے  فکر و فن سے استفادہ کرتی رہتی  ہیں ۔  


           زیر نظر کتاب "پس مرگ زندہ " بر صغیر کے عربی واردو کے ممتاز اور صاحب طرز ادیب حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی رحمۃ اللہ علیہ (١٩٥٢-٢٠٢١) کی ہے ، یہ کتاب وفیاتی مضامین  کا گراں قدر مجموعہ ہے ، جن میں سے اکثر مضامین مولانا امینی رح نے اپنے اساتذہ ، محسنین اور  دوستوں واحباب  کی وفات پر  مجلہ "الداعی " میں لکھا تھا ، ہاں کچھ خاکے ایسے بھی جو بہ راہ راست اردو میں لکھے گیے ہیں ۔


      مولانا امینی رح اپنے اساتذہ کا ذکر خیر بڑی عقیدت ومحبت  سے کرتے ہیں  ، وہ اپنے اساتذہ کی ایک ایک ادا ، چال ڈھال ، رہن سہن ، انداز افہام وتفہیم ، طرز تحریر اور  اسلوب تربیت کو نہایت اہتمام سے ذوق وشوق کے ساتھ بیان کرتے ہیں ،  ایسا لگتا ہے کہ وہ ان کی زندگی کی کسی جز کو قلم انداز کرنا نہیں چاہتے ،  وہ اپنے محسنین کے احسانات کو  نیاز مندانہ انداز میں قرطاس پر ثبت کرتے ہیں ، اپنے کرم فرماؤں کی کرم فرمائیوں کا ذکر  مزہ لے لے کر کرتے ہیں ،  وہ دوستوں واحباب کے ساتھ بتاۓ ہوے ایام اور ان کی  پر لطف وپر کیف یادوں کو  عطر بیز اسلوب میں لکھتے ہیں  ، یہ مولانا مرحوم کے عقیدت مندانہ ، والہانہ اور دلکش اسلوب کا ہی کمال ہے قاری مطالعہ کے دوران اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا ہے ،  میں نے یہ ضخیم کتاب -جو ٩٣٩صفحات پر مشتمل ہے- صرف پانچ دن کی قلیل مدت میں پڑھ لیا ، پڑھنے کے دوران ذرا بھی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوئی   ۔ 


         اس کتاب کی یہ بھی بڑی خصوصیت ہے کہ  دار العلوم دیوبند  کے قضیہ نا مرضیہ (١٩٨٢)  اور اس  وقت کے  ناگفتہ بہ حالات پر مولانا امینی رح لکھتے ہیں لیکن دونوں فریقوں میں سے کسی کی  جانب داری نہیں کرتے ، ان کے سب سے محبوب استاذ مولانا وحید الزمان قاسمی کیرانوی رح کے ساتھ نئی انتظامیہ کی بحالی کے بعد ناروا سلوک کیا جاتا ہے ، ان پر بعض شریر طلبہ انڈے اور ٹماٹر پھینکتے ہیں، اس وقت عزیز  شاگرد کتنا تڑپا  ہوگا ، لیکن انہوں کتاب میں کسی کے خلاف کوئی ناروا لفظ استعمال نہیں کیا ،  مولانا کیرانوی رح اور سید اسعد مدنی رح کے درمیان سخت اختلافات تھے ، آخر تک  دونوں کے درمیان صلح صفائی نہیں ہوسکی  ، لیکن جب مولانا کیرانوی رح کے عزیز شاگرد مولانا اسعد مدنی کی وفات پر مضمون لکھتا ہے ، تو صرف یہ کہ کے رہ جاتا ہے کہ کاش ان دونوں کے درمیان صلح صفائی ہوجاتی ،   یہ مولانا امینی رح کی کشادہ ظرفی، میانہ روی  اور سلامت فکر کی بہت بڑی دلیل ہے ۔  


 مولانا آپ بیتی  لکھنا چاہتے تھے :

         مولانا امینی رح نے اس کتاب میں دو جگہ خود نوشت سوانح کا ارداہ ظاہر کیا ہے ،  اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ٢٠١٠ میں  نکلا تھا ، اس کے بعد آپ دس سال باحیات رہے ، ایسا لگتا ہے مولانا رح  بے پناہ مشغولیات کی وجہ سے اس جانب متوجہ نہ ہوسکے ، لیکن انھوں نے اس کتاب میں اپنی زندگی کے متعلق بہت سے مواد متفرق طور پر جمع کردیا ہے اور سوانح نگار کے لیے راہ ہموار کردی ہے ،  اب ضرورت ہے کہ حضرت مولانا رح کے کوئی باذوق شاگرد اٹھے اور ان منتشر دانوں کو ایک لڑی میں پرو کر ایک عمدہ کتاب تیار کرے ۔  

     اس کتاب میں کل ٣٧شخصیات پر مضامین میں ہیں ، کل صفحات ٩٣٩ ہیں ، آپ یہ کتاب حضرت مولانا کے قائم کردہ ادارہ "ادارۂ علم وادب دیوبند " سے حاصل کرسکتے ہیں ۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی