مذہب کے نام پر نفرت اور اس کا حل ایک تجزی

 مذہب کے نام پر نفرت اور اس کا حل 


ایک تجزی


✏صادق مظاہری 



بھارت صدیوں سے مختلف مذہبوں  وتہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے اسی لۓ یہاں پر اسلام کے نام لیوا آۓ اور اس کو اپنا جاۓ سکونت بنایا اور یہاں پر موجود انسانوں کو اسلام کی حقانیت وصداقت سے روشناس کرایا جس کے نتیجے میںنے لوگ دامن اسلام کو پکڑتے گۓ اور اہل اسلام کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا تاریخ اس پر شاہد ہے کہ مسلمانوں نے جب بھی اسلامی احکامات کی تبلیغ واشاعت کی تو کبھی  کسی پر اس کو تھونپنے کی کوشش نہیں کی اس لۓ کہ ایمان نام ہے تصدیق قلبی کا اقرار باللسان کا درجہ بعد میں ہے اور اس سے ہر شخص واقف ہے کہ دل پر کوٸ زبردستی نہیں کرسکتا اسی لۓ نبی پاک علیہ السلام کے زمانے میں بھی دیگر مذاہب کو ماننے والے مکہ ومدینہ بلکہ پورے جزیرہ عرب میں موجود تھے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام کو زبردستی تھونپا گیا یا پھر تلوار کے زور سے لوگوں سے قبول کرایا گیا وہ لوگ یا تو تاریخ سے واقف ہی نہیں ہے یا پھر کسی غلط فہمی کا شکار ہیں یا پھر تاریخ کو ان کے سامنے توڈ موڈ کر پیش کیا گیا ہے جو اسلام و اہل اسلام پر کھلم کھلا الزام تراشی وبہتان ہے خصوصا ہندستاں میں جہاں پر مسلم قوم کی داستانیں کتابوں کی زینت بنی ہوٸ ہیں ان کی  بادشاہت وسلطنت کو تاریخ کے اوراق نظر انداز نہیں کرسکتے ایسے میں اگر وہ چاہتے تو سارے بھارتیوں کو مسلمان کرلیتے لیکن ایسا نہیں ہوا  بلکہ ان کے دور اقتدار کے اختتام تک بھی مسلم قوم اقلیت میں رہی جو اس کا واضح ثبوت ہے کہ اہل اسلام نے دعوت پیش کی جس نے چاہا قبول کیا جس نے چاہا انکار کیا لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب کہ اہل اسلام کے خلاف یہ آوازہ بلند کیا جاتا ہے کہ انھوں نے غیر مسلموں پر ظلم وجبر سے اسلام کو ماننے پر مجبور کیا اور طرح طرح کی  جھوٹی کہانیاں ان کی طرف منسوب کی جاتی ہیں جب کوٸ غیر مسلم بھاٸ اس کو سنتا ہے تو فورا وہ اہل اسلام سے نفرت کرنے لگتا ہے جب کہ وہ اس معاملے میں سیدھا وبھولا ہوتا ہے لیکن ہاۓ افسوس ہم بھی اس کام کو نہ کرسکے کہ اس کی اس غلط فہمی کو دور کرتے اور اس کے قلب وجگر میں پنپنے والی اس نفرت کو ختم کرتے کیونکہ ہم بھی تو قصور وار ہیں نہ ہم ہمارے پاس  کردار ہے نہ دعوت اسلام کی فکر بس جذبات ہیں اللہ اکبر کی بلند آواز سے تکبیرات ہیں کوٸ بھی آتا ہے ہمیں اُکساتا ہے استعمال کرتا ہے  اور جانی ومالی نقصان کرا جاتا ہے حالانکہ دشمن کا کام ہے ہمارے خلاف زہر اگلنا ہمارا کام ہے اس کا کوٸ ایسا معقول توڑ نکالنا جس سے وہ بے دم و بے جان ہوجاۓ اور وہ صبر کے ساتھ کوٸ ایسا لاٸحہ عمل تیار کرنا ہے جس پر چل کر ہم اپنی حق بات پہنچا سکیں در اصل ہوتا یہ ہے کہ بہت مخصوص لوگ کام کرتے ہیں دشمنان اسلام ان کو غلط ثابت کر کے دبادیتے ہیں اگر مسلم قوم کا ایک بڑا طبقہ دعوتی پہلو کو اپنا ۓ اور اپنا کردار واخلاق درست رکھے تو ان شا اللہ پھر وہ سب پر الزام لگا کر مجرم ثابت نہ کر پاٸیں گے اس وقت مادر وطن میں سب سے زیادہ ضرورت اسی چیز کی ہے ورنہ تو کچھ متشدد وظالم قسم کے لوگوں کے لۓ آسان ہے وہ کہیں پر بھی ہند ومسلم فساد  کراکر اقتدار کی کرسی تک پہنچ جاتے ہیں اب آۓ دن کوٸ نہ کوٸ ایسا واقعہ اخباروں کی زینت بنا ہوا ہے کہ فلاں جگہ پر باشرع شخص کو چند ہندو جوانوں نے کار میں سے نکال کر مارا پیٹا ہے  فلاں جگہ پر کسی عالم کے ساتھ بد تمیزی سے پیش آۓ کسی پر کسی خطرناک جرم کا الزام لگا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچادیا جس سے  ان کو نفرت پھیلا کر مقصود ہاتھ آجاتا ہے اور روۓ زمین پر بستے انسان حیران وپریشان ہوتے ہیں اور غافل لوگ  خاموش تماشاٸ بنے رہتے ہیں اس وقت جوصورت حال ہے وہ المناک ہے درد ناک ہے تنظیموں کی پالیسیا ں سب ہیچ نظر آرہی ہیں رہنما ٶں ورہبروں کی اکثر تعداد ڈری ہوٸ و سہمی ہوٸ ہے کہ کہیں سیاسی چولا پہن کر کوٸ  ڈاکو ہمارے گھر میں داخل نہ ہوجاۓ  ہماری جان بھی جاۓ اور مال بھی جاۓ  ایسی صورت میں سب سے زیادہ ضرورت جس کام کی   ہے وہ ہے کہ اہل اسلام دعوتِ دینِ حق کا فریضہ انجام دیں اور اسلامک لٹریچر ان کی زبان میں  سمجھانے کی کوشش کریں شکوک وشبہات کو دور کرنے کی سعی کریں آپسی غلط فہمیاں ختم کی جاٸیں بلا مذہب کی تفریق کے انسانوں کے قریب آیا جاۓ اور اپنی بات سمجھاٸ جاۓ ورنہ صورت حال بد سے بد تر ہونے کو ہے

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی