لڑکے اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم co education فائدہ یا نقصان

 لڑکے لڑکیوں کی مخلوط تعلیم ( Co education ) فاٸدہ یا نقصان 

✏صادق مظاہری 

جہاں تک تعلق ہے تعلیم کے حصول کا ۔۔ اس کی اجازت لڑکے ولڑکیوں سب کے لۓ ہے بلکہ اسلام میں اس کی ترغیب دی گٸ ہے اس لۓ کہ اسلام کا پہلا پیغام غار حرا میں جو نازل ہوا اس کا آغاز ہی ایسے لفظ سے ہوتا ہے جس میں مشن تعلیم ہے اور وہ اقرأ ہے ۔۔۔اس لۓ اس بارے میں تو کوٸ شک ہی نہ ہونا چاہیۓ کہ اسلام کسی صنف کو تعلیم سے باز رہنے کا حکم دیتا ہو ۔۔۔۔۔ اسلام کا نظام مکمل ہے اس میں ہر چیز کا خیال رکھا گیا ہے ایسا نہیں کہ تعلیم تو ہو  لیکن نظام معاشرت اس سے متاثر ہو ۔۔۔جس سے انسانی زندگی پر غلط اثرات مرتب ہو بلکہ ہر چیز اپنی جگہ پر محفوظ ر ہے اور تعلیم کا بھی حصول ہو چنانچہ جہاں تک تعلق ہے اُس نظام تعلیم کا جو اس وقت اسکولز وکالجز میں راٸج ہے اس میں ہر اس چیز کا خیال رکھا گیا ہے جس سے مادی ترقی کی رفتار تیز ہوتی ہے اسی لۓ وہ لوگ ہر اس چیز کو اچھا سمجھتے ہیں جس سے مادیت پرستی کا گہرا رشتہ ہے اسی کو روشن خیالی و آزادی جیسے نام دیۓ جاتے ہیں جو مغربی تمدن کا ایک شاخسانہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔اورہم یہ بات بڑی جرأت سے کہہ سکتے ہیں کہ مغربی تمدن کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ زندگی کے معاملوں میں اور ذمہ داریوں میں عورت اور مرد کو یکساں شریک کرکے مادی ترقی کی رفتار تیز کردی جاۓ ۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ شہوانی جذبات کو ایسے فنوں ومشغلوں میں شامل کردیا جاۓ جو حیات کی تلخیوں کو لطف ولذت میں تبدیل کردے ۔۔۔۔۔ چنانچہ مغرب اس میں حد تک کامیاب بھی ہوا لیکن جس نظام کی بنیاد فطرتِ انسانی سے ہٹ کر ہو بھلا وہ کیونکر کامیاب ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔ کچھ عرصے کے بعد  اس کے نقصانات دیکھے گۓ اور عورت کے حسن وجمال کو  ترقی وآزادی کے نام پر سر بازار لاکر رکھ دیا گیا ۔۔۔۔۔خریداروں نے خوب خریدا اور استعمال کیا ، پھینک دیا ۔۔۔۔۔۔جس کے نتیجہ میں مغرب کی عورتوں کی حیثیت ٹیشو پیپر سے زیادہ نہ رہی ۔۔۔۔۔۔کوٸ بھی ان کا بہ آسانی استحصال کرسکتا  ہے اور سب سے برا اثر جو سوساٸٹی پر پڑا وہ ہے فیملی سسٹم تباہ وبرباد ہوگیا ۔۔۔۔۔اب وہاں کے تھنکرز پریشان ہیں کہ کیسے اس خطرناک ٹریک پر چلتی سوساٸٹی کو صحیح راستے پر لایا جاۓ جب کہ ان کے ہاتھ سے سب کچھ نکل چکا ہے ۔۔۔۔ اس وقت وہ خالی ہیں اگر کوٸ بولتا ہے تو چاروں طرف سے عورتوں کی عزت وعصمت کا سودا کرنے والے ایسے لپٹتے ہیں جیسے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ دینے کے بعد بھڑیں پیچھے لگ جاتی ہیں اور ان سے جان بچانی مشکل ہو جاتی ہے ۔۔۔۔ اس لۓ بہت سے جانتے ہوۓ بھی خاموش تماشاٸ بنے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اسی طرح یہ مخلوط تعلیمی نظام بھی عورت کو اسی راستے کی عادت ڈالنے کا ایک حصہ ہے ۔۔۔۔ جس کے نقصانات بہت پہلے  ظاہر ہوچکے تھے اب تو اس کے ذریعہ نٸ نسل تباہی کے دہانے پر ہے چنانچہ ایک زمانے میں  لنڈسے نے اندازہ بتایا تھا کہ ہاٸ اسکول کی کم ازکم ٤٥ فیصد لڑکیاں اسکول چھوڑنے سے پہلے خراب ہوچکی ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔ جب کہ  اس وقت کے مقابلہ اُس وقت خیر القرون تھا فی زماننا حال یہ ہے کہ مخلوط تعلیم ہو اور لڑکی کا لڑکے کے ساتھ کوٸ تعلق نہ ہو ایسا مشکل ہے اس کا نظارہ آۓ دن اسکولز وکالجز کے باہر بہ آسانی ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اس کے بارے میں سب جانتے ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ کہہ نہیں سکتے کیونکہ ماحول کا سب کو علم ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور جو اسکولز عیساٸیوں کے ہیں وہاں تو خدا کی پناہ ۔۔۔۔۔۔۔ اور جب کوٸ لڑکا یا لڑکی اسکول سے فارغ ہوکر  کالج کا رخ کرتی ہے تو لڑکوں کی ہوسناک نظریں اس کے حسن کو تکتی رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ کسی شکاری کے ہاتھ لگ ہی جاتی ہیں پھر کیا کیا نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ ریسٹورانٹز وہوٹلز میں ڈیٹ کا سلسلہ پھر پارٹیز کا سلسلہ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ جس میں کوٸ رومانٹک سونگ چل رہا ہوتا ہے ۔۔۔۔پہلٶوں میں حسینہ ہوتی ہے ۔۔۔۔محفل میں حسن پرستوں کی نگاہیں ٹکٹکی باندھیں ایک دوسرے کو دیکھ رہی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔دل ہی دل میں محبت کے افسانے ہوتے ہیں جن میں چھپی نفسانی خواہشات وشہوانی جذبات کا سیلاب ہوتا ہے ۔۔۔۔۔اگر کوٸ ذرا اڈوانس ہوتو کانچ کے گلاسوں میں چھلچھلاتی شراب کا دور ہوتا ہے جس میں برانڈ کا باقاعدہ خیال کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اسی پر بس نہیں بلکہ اب یہاں سے لڑکی ولڑکے کی سب حدیں پار ہوجاتی ہیں ایک دن آتا ہے ان کے دلوں سے زنا کی قباحت نکل جاتی ہے اور وہ دوستی والے  رشتے کے ساتھ آگے بڑھتے رھتے ہیں۔۔۔۔۔یہ ایک جھلک ہے مخلوط تعلیم کی سوساٸٹی پر غلط اثر کی ۔۔۔۔ ورنہ نہ جانے کیا کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ہم پوچھتے ہیں کوٸ بتاۓ گا ان نوجوانوں کا یہ حال کیوں ہوا ؟ کوٸ ہے جو جواب دے کہ اس عورت کواس قدر بے عزت وذلیل کس نے کیا ؟ کوٸ ہے جو جواب دے کہ کیا کسی بھی سوساٸٹی کے لۓ یہ فاٸدہ مند ہے ؟ پکارو ۔۔۔۔۔۔صدا دو کوٸ نہیں بولے گا ۔۔۔۔۔۔خاموشی ہوگی ۔۔۔۔سناٹا ہوگا ۔۔۔۔۔۔ آپ کی چیخ وپکار کو سب سنیں گے لیکن کوٸ بولے گا نہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن جب کوٸ اس سوساٸٹی کو صحیح وسچی بات پہنچانے کی کوشش کرے گا ۔۔۔۔۔کوٸ عورت کا ہمدرد بن کر ، کوٸ اس عورت کو آزادی دلانے کا نعرہ لگاتے ہوۓ آگے آۓ گا۔۔۔۔ اور جب عورت کا استحصال ہوگا بیٹھا دیکھتا رہے گا ۔۔۔۔۔۔معلوم نہیں یہ کیسے ہمدرد ہیں ۔۔۔۔۔در اصل یہ جھوٹے ہیں ۔۔۔۔مکروفریب میں ڈوبے ہوۓ ہیں ۔۔۔۔۔ دو چہرے رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ان کے قول وفعل میں تضاد ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس لۓ اسلام کا تصور یہ ہے  کہ عورت آوارگی عمل اور ہیجانِ جذبات میں ضاٸع ہونے کے بجاۓ ایک پاکیزہ اور صالح تمدن کی تعمیر میں صرف ہو ۔۔۔۔۔۔جس سے انسانیت پیدا ہوتی ہے ۔۔۔۔۔جس سے بہترین اخلاق وکردار وجود میں آتا ہے اور اس کے لۓ ہر اس راستے کو بند کیا جاۓ جس سے عورت کی عزت وعصمت محفوظ رہے اس لۓ گرلز کالجز ہونے چاہۓ اور گرلز اسکول ہونے چاہیۓ تاکہ اس گندگی سے عورت نکل کر تعلیم یافتہ وتہذیب یافتہ بنے اور اسلام کے مطابق وہ شہزادی ہے تو شہزادی ہی رہے ۔۔۔۔۔۔نہ کہ کسی کے بستر کی گرماہٹ بنے ۔۔۔۔۔۔مجھے حیرت ہوتی ہے ان اپنے آزاد خیال وروشن خیال لوگوں پر جو جسمانی آزادی  اور ذہنی غلامی رکھتے ہیں کہ وہ کیسے اس صریح جھوٹ کو سچا ثابت کرنے پر تلے ہیں ان کو غور کرنا چاہۓ اور اسلامی تعلیمات کا بغور مطالعہ کرنا چاہۓ ان شا اللہ اس تعلق سے ان پر بڑی چیزیں کھلیں گی اور وہ جو دقیانوسیت کا لیبل اہل علم پر لگایا جاتا ہے وہ بھی دور ہوجاۓ گا ۔۔۔۔۔۔ وہ مغرب جس کی پیروی کی جارہی ہے وہاں مخلوط تعلیم سے پریشان ہوکر بواٸز وگرلز کے الگ الگ تعلیمی ادارے بنا ۓ جانے لگے  ہیں لیکن چونکہ لوگوں کو مغربیت کا تھوک چاٹ کر زندگی گزارنے کی عادت پڑگٸ ہے اس لۓ وہ اس غلطی کا اعتراف تو کیا کرتے بلکہ اس کو صحیح ثابت کرنے میں لگے ہیں ۔۔۔۔۔

  ٢٧ محرم ١٤٤٣ ھ 

٦ ستمبر ٢٠٢١ ٕٕ

مقالات و مضامین 

mdalij802@gmail.com 

کاروان علم_Karwaneilm


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی