بنت حوا کی پکار

 بنت حوا کی پکار 

( عصمت دری (Rep) کے بڑھتے واقعات انسانیت کا خون ) 

 ✏صادق مظاہری



جب بھی یہ آواز سناٸ دیتی ہے کہ فلاں مقام پر کسی بنت حوا کی عصمت وعفت کو تارتار کردیا گیا ہے کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ اس روۓ زمین پر کیسے کیسے انسان کی شکل میں درندے موجود ہیں جو سر عام نہ صرف یہ کہ کسی بیٹی کی آبرو پر حملہ آور ہو تے ہیں بلکہ اس کو قتل کرڈالتے ہیں ان واقعات کو سن کر کبھی کبھی انسان ہونے پر شرم آتی ہے اس لۓ کہ حیوانوں میں بھی اتنی ہمدردی باقی ہے کہ وہ کبھی کسی مادہ سے اپنی خواہش پوری کرکے مارتے نہیں ہیں لیکن یہ انسان جو خونخوار درندہ بن چکا ہے جس پر کوٸ لگام نہیں ہے بسا اوقات بگڈیل سانڈ کی طرح کھلے عام پھرتا ہے جس چاہے پر زیادتی کرتا ہے ۔۔۔۔اس سے کوٸ پوچھنے والا نہیں ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے ۔۔۔۔۔سمجھ نہیں آتا ہم کیا کریں ذبح ہوجاٸیں یا پھر کسی دوسری دنیا میں جا بسیں ۔۔۔۔۔۔۔ جب دیکھو آواز آرہی ہے کہ فلاں جگہ پر چند غنڈوں نے مل کر کسی راستے سے گزر رہی لڑکی کے ساتھ ریپ کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہاں ہے قانون داں جو انصاف دلانے کی بات کرتے ہیں ؟ لیکن انصاف ملتا ہوا نظر نہیں آتا جب کہ ہزاروں ریپ کے کیسیز کورٹ میں جاری ہیں کہاں ہے وہ لوگ جو لوگوں کی حفاظت کے لۓ کھڑے کر رکھے ہیں لیکن جراٸم پر کوٸ قد غن نہیں لگ رہا ہے ؟ کہاں ہے وہ لوگ جو سفید پوش ہیں ان کے آگے پیچھے وردی والے لوگ بھاگتے ہیں ان کو قوم وملک کی حفاظت کے لۓ چنا گیا تھا ؟ لیکن جراٸم پیشہ لوگ جراٸم کی رفتار بڑھانے پر ہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں پر ان لوگوں سے بھی سوال کرتا ہوں جو عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن جب کسی عورت کی عزت کو پیروں تلے روندا جاتا ہے تو وہ کبھی کوٸ احتجاج کرتے ہوۓ نظر نہیں آتے ۔۔۔۔اگر کوٸ مسلم اسکالر اسلام میں عورت کے حقوق کی بات کرتا ہے اور اس کو اس خطرناک ماحول سے بچانا چاہتا ہے جس میں اس کے جسم کو مسلا جارہا ہے جس میں اس کے حسن کا فاٸدہ اٹھایا جارہا ہے جس میں اس کو سرعام ننگا کیا جارہا ہے جس میں اس کا استحصال کیا جارہاہے تو ہر طرف شور بر پا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ہل چل ہوجاتی ہے کہا جاتا ہے عورت کے حقوق کو چھینا جارہا ہے اس کو پریشان کیا جارہا ہے اس کے ساتھ دوہرا رویہ اختیار کیا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔آٸیۓ ہم کہتے ہیں اگر آپ کے پاس کوٸ ایسا دستور ہے جس سے عورت محفوظ ہوسکتی ہے تو بچایۓ اس کی عزت کو ۔۔۔۔۔۔۔ بچاٸیے اس کے جسم کے استعمال ہونے کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ملک جہاں سے یہ ویمن راٸٹس والی تحریکیں جنم لیتی ہیں وہاں دنیا میں سب سے زیادہ ریپ ہوتے ہیں اور وہاں ریپسٹ سرعام گھومتا ہے وہاں ہم نے ایسا کم سنا ہے کسی ریپسٹ کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا یا گیا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔بھلا کوٸ بات ہے بات کرتے ہو حقوق کی اور حقوق سے پیچھا چھڑاتے ہو ۔۔۔۔۔یہ تو دوہرا کردار ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں قانون داں لوگ بھی مغربیت کے اس قدر ذہنی غلام ہیں کہ ہر اس قانون کو لا نے کی کوشش میں ہیں جس سے یہ وبا مزید عام ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔قریب ہے کہ ہر شہر میں ہو ۔۔۔ہرگاٶں میں ہو ۔۔۔۔ہر محلہ میں ہو ۔۔۔۔ اور لوگوں کے دلوں سے اس کی مذمت ہی نکل جاۓ اس لۓ کہ جب کوٸ براٸ اتنی بڑھتی ہے کہ ہر جگہ پر وہ بہ آسانی دیکھی جاسکتی ہے تو اس کی مذمت دل سے نکل جاتی ہے جب دلی کے اندر پہلی بار ایک بس میں چند درندوں نے ایک لڑکی کے ساتھ ریپ کیا تھا تو لوگ سہم گۓ تھے اب آۓ دن ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن ہلکا پھلکا احساس ہوتا ہے پھر ختم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم کہتے ہیں جب اسلام کے قانون سے اتنی دشمنی ہے کہ اگر اس کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو بہت سے لبرل لوگ پریشان ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔ایسےلوگوں سے بڑے جرأت مندانہ انداز میں سوال ہے کہ بتایۓ اس کا حل کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ کوٸ قانون بنایا جاۓ ۔۔۔۔ اس سے کچھ نہیں ہوگا سخت سے سخت قانون موجود ہے ۔۔۔۔۔۔اس لۓ کہ بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں پر اس کے خلاف سخت قانون ہے لیکن وہاں یہ جرم بڑھ رہا ہے ۔۔۔۔عورت کو سیکورٹی دیدی جاۓ ۔۔۔یہ بھی کامیاب نہیں اس لۓ کہ خود سیکورٹی گارڈ اس میں ملوث ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ بھی معاشرے کا ہی حصہ ہیں ۔۔۔۔۔۔لڑکی کو خود اس کی حفاظت کے طریقے سکھاۓ جاٸیں وہ بھی کار گر ثابت نہ ہوگا اس لۓ کہ مرد اکثر عورت سے زیادہ ہی طاقت ور ہوتا ہے وہ اس پر غالب آہی جاتاہے ۔۔۔۔۔۔۔ ہم پورے یقین کےساتھ یہ بات کہتے ہیں کہ سب سے آسان وسہل طریقہ یہ ہے کہ اسلامک قانون پر عمل کیا جاۓ اور وہ یہ ہے کہ عورت پردہ کرے۔۔۔۔۔ مرد سے اختلاط کے ساتھ بچنے کی کوشش کرے اور مرد اپنی نظر کو نیچا رکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی بھی غیر محرم عورت کو شہوت کی نظر سے نہ دیکھے۔۔۔ اسی طریقہ پر معاشرے کو سدھارنےکی کوشش کی جاۓ جب جاکر کہیں مسٸلہ حل ہوگا دنیا جانتی ہے جن ممالک میں براۓ نام بھی اسلامک قانون کو فولو کیا جاتا ہے وہاں سب سے کم ریپ کے واقعات ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ہمارے یہاں اگر یہ ہی سلسلہ رہا تو حالات بد سے بد تر ہونگے اور اپنی آنکھوں سے لوگ دیکھے نگے کہ عورت کا ریپ ہورہا ہوگا وہ چیخ وپکار کررہی ہوگی لیکن کوٸ پرسان حال نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ آج اس وقت دل پر بڑا اثر ہوا جب یہ خبر سامنے آٸ کہ ایک پولیس اسپکٹر لڑکی کا جس کا نام صبیحہ سیفی تھا ریپ کیا گیا اور اس کے مخصوص اعضا کو چار درندوں نے چاقو سے کاٹ دیا ۔۔۔۔۔۔۔کیا ہوگا اس انسان کا جو کہتا پھرتا ہے کہ انسان نے تعلیم حاصل کرلی ۔۔۔۔۔ مہذب ہوگیا ۔۔۔۔۔ ترقی یافتہ ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔ خلاٶوں وفضاٶوں کی سیر کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔ ہواٶوں پر اڑنے لگا لیکن یہ تو سب سے بڑا ظالم وجابر نکلا اس کے پاس تو انسانیت نام کی چیز ہی باقی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔دل روتا ہے ۔۔۔۔۔کہتا ہے ۔۔۔۔۔پریشان ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔صدا دیتا ہے۔۔۔۔۔۔اے انسان تو کہاں ہے ۔۔۔۔۔کس بیابان میں کھوگیا ۔۔۔۔۔کس صحرا میں گم ہوگیا ۔۔۔۔۔۔کس سمندر میں ڈوب گیا ۔۔۔۔۔۔۔لیکن جب آتا ہے تو وہی ظالم وجابر انسان ۔۔۔۔۔۔


٢٥ محرم ١٤٤٣ ھ 



مقالات مضامین 

mdalij802@gmail.com 

٤ ستمبر ٢٠٢١ ٕ

2 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی