ارتداد کی لہر، اسباب و اتدارک

 *•┈━━━•❂❄︎•📚﷽📚•❄︎❂•━━━┈•*

*•┈┈•◈◉❒  اصلاحی مضامین  ❒◉◈•┈┈•*

*✍🏻 :- محمد آصف حسامی دیناجپوری* (بانی مطالعاتی انعامی مقابلہ) 

*{ارتداد کی لہر.....اسباب و تدارک}*

        اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، اور اس طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : ”اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار بھی کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے“. *(سورہ ابراہیم آیت نمبر : 34)* ان تمام نعمتوں میں عظیم ترین نعمت ایمان ہے، جسکی حفاظت بہت ہی ضروری ہے، عالمی و ملکی حالات سے واقفیت رکھنے والا ایک ادنی درجہ کا  مسلمان بھی اس بات کو جانتا ہے آج  ایمانی شعائر کی حفاظت کرنا، راہ شریعت پر گامزن رہنا اور سنت نبوی سے اپنے شب و روز کو مزین کرتے ہوئے زندگی کو گزارنا کتنا مشکل ترین امر ہوتا جا رہا ہے، دنیا اسی حالت کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے جسکی پیشن گوئی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کی تھی، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اپنے دین پر قائم رہنے والا ہاتھ انگارا پکڑنے والے کی طرح تکلیف میں مبتلا ہوگا». *(جامع الترمذی ابواب الفتن)*

     آج دنیا کا ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے کہ باشرع زندگی گزارنے والوں پر لعن طعن کیا جا رہا ہے ان کو ”شدت پسند“ کہا جا رہا ہے، زیادہ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب کہ اس میں اپنے ہی لوگ ان کی آواز میں اپنی آواز ملا کر ان کی ہی صف میں کھڑا دکھائے دے رہے ہیں۔

    آج دشمنانِ اسلام نے مسلمانوں سے ایمانی جذبے اور دینی غیرت و حمیت کو ختم کرنے کے لئے اپنے تمام تر وسائل کو صرف کر رہے ہیں، اور مسلمانوں کے ذہنی و فکری خیالات کو بدلنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، جس میں وہ ایک حد تک کامیاب بھی ہوتے نظر آ رہے ہیں، اور مسلمانوں کی ذہنوں میں اسلام کے خلاف شکوک و شہبات پیدا کر کے ان کے ذریعہ اپنی بات کہلوا رہے ہیں اور پھر یہ کہتے ہیں کہ دیکھو! خود مسلمان ہی اسلام کے خلاف بول رہا ہے، پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کی مسلمان کی ذہن سازی اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ تبدیلی مذہب کر لیتا ہے، اور اسلام جیسی مقدس اور پاکیزہ مذہب کو چھوڑ کر ایمان کا سودا کر لیتا ہے، یہ کس قدر افسوس کی بات ہے۔

 اس وقت مسلمانوں کے لئے سب سے اہم اور ضروری کام یہ ہے کہ معاشرے اور سماج میں رہنے اور بسنے والے افراد جو متاثر ہو رہے ہیں ان کے ایمان کو کیسے بچایا جائے؟ ان کو کس طرح سے ارتداد کی طرف بڑھنے سے روکا جائے؟ ان کی ایمان کی حفاظت کس طرح کی جائے؟ اس بارے میں ہم نے کبھی غور و فکر کیا؟ اس کے لئے آخر ہم نے کیا تدبیریں کیں؟ کیا لائحہ عمل تیار کیا؟ اگر نہیں تو کیا ہم سے اس بارے میں کل قیامت کے دن باز پرس نہیں ہوگی؟ کیا ہمیں خدا کے یہاں جواب دینا نہیں ہوگا؟ ضرور ہوگا لیکن ہم پھر بھی غفلت میں پڑے ہیں، اپنے ہر کام کو محنت و لگن سے کر رہے ہیں، زندگی کے اوقات کو بیجا ادھر اُدھر صرف کر رہے ہیں، اصل جس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ادھر سے ہماری توجہ ہٹ چکی ہے، اس لئے دشمنانِ اسلام اس کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں، اور وہ اس میں کامیاب بھی ہو رہے ہیں، لہٰذا اس بارے میں ہمیں غور کرنے کی از حد ضرورت ہے کہ بحیثیت مسلمان ہماری کیا ذمہ داری ہے اور ہم اپنی کس ذمہ داری کو کس قدر ادا کر رہے؟ 

اگر اس وقت ہم جائزہ لیں کہ ارتداد کی لہر کتنی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے اور اسکی  لپٹ میں کتنے خاندان اور افراد آ چکے ہیں تو ہمیں بہت ہی افسوس ہوگا کہ ہزاروں خاندان و افراد ایمان کی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اور اگر ہم ارتداد سے متاثر ہونے والے  کے اسباب پر غور و فکر کریں تو ظاہراً مندرجہ ذیل اسباب سمجھ میں آ رہے ہیں۔

*(1)* مال و دولت کی فراوانی کی وجہ سے لوگ ارتداد کے شکار ہو رہے ہیں، کیوں کہ مال دار مال و دولت کی نشہ میں اپنے آپ کو مذہب سے آزاد تصور کرتا ہے، اور  یہ سوچتا ہے مذہب سے ہمیں کوئی سروکار نہیں، مذہب ہمارے لئے نہیں ھے، جس بناء پر مرد ہو تو غیر مسلم عورت سے اور عورت ہو تو غیر مسلم مرد سے اپنا رشتہ ازدواج قائم کر کے زندگی بسر کر رہے ہیں اور اسلام کو خیر باد کہہ رہے ہیں، نیز اس طرح ناجائز تعلقات اور بد مذہبی کے ساتھ زندگی گزارنے کو فیشن سمجھ رہے ہیں۔

*(2)* غریب اور کمزور طبقہ کے لوگوں کو ان کی غربت کو نشانہ بنا کر پیسے کی لالچ دے کر اسلام کو ترک کروا دیتے ہیں یا ڈرا دھمکا کر اسلام چھوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

*(3)* اسکولوں اور و کالجوں میں مخلوط تعلیم کا جو رجحان پایا جا رہا ہے اور بالغ لڑکے اور لڑکیوں کا ایک ہی کلاس میں پڑھنے کا جو آزادانہ ماحول ہوتا ہے، آپس میں بے تکلفی ہوتی ہے، پھر یہی بے تکلفی ناجائز تعلقات کا سبب ہوتا ہے، اور آخر میں یہ ناجائز تعلقات تبدیلی مذہب کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

*(4)* سوشل میڈیا کا غلط استعمال، کیوں کہ اس کے ذریعہ معاشرہ و سماج جس فحاشی و عریانیت کا شکار ہو رہا ہے ہم سب اس سے ناآشنا نہیں، فیس بک واٹس ایپ ٹوئٹر وغیرہ پر لڑکوں کا لڑکیوں سے دوستیاں  کرنا، ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنا، پھر یہی دوستی اور معلومات کے خراب نتائج ابھر کر سامنے آتے ہیں، پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ  اسلام کو بھی پس پشٹ ڈال کر غیروں کے ساتھ راہ فرار اختیار کر کے زندگی بسر کرتے ہیں۔

       چونکہ امت میں ارتداد کا ماحول سر گرم ہیں، ایسے وقت میں اگر اسکی روک تھام نہ کی جائے تو پھر یہ پورے سماج کو اپنی لپٹ میں لے لے گا، اس لئے ضرورت ہے کہ اس کی روک تھام کے لئے مناسب تدبیریں اختیار کی جائیں، جس کے لئے مندرجہ ذیل چند تدابیر پیش خدمت ہے۔

*(1)* ارتداد کے سیلاب کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ خطباء و ائمہ کرام بیانات میں اسلام کے اہم اہم پہلوؤں کو اجاگر کریں، اور عوام الناس کا علمائے کرام سے رابطہ مضبوط ہو، اور علمائے کرام عوام الناس کے درمیان اصلاحی مجلسیں قائم کریں، ان کو وقت دیں، عوام الناس کے مسائل کو حل کراوئیں، اور اپنے آپ کو عوام الناس میں اس طرح پیش کریں کہ عوام الناس علمائے کرام سے بلاجھجک نفع اٹھا سکیں۔

*(2)* مکاتب دینیہ کا قیام عمل میں لایا جائے، اور اس میں اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ ہر ہر فرد بنیادی عقائد و مسائل سے واقف ہو اور بالغان اور زیادہ عمر والے اشخاص کے لئے بھی تعلیم کا انتظام کریں۔

*(3)* صاحب اقتدار اور صاحب ثروت لوگوں کو چاہئے کہ وہ ایسے اسکولوں و کالجوں کا قیام عمل میں لائیں کہ جس میں مخلوط تعلیم نہ ہو۔

*(4)* والدین اور سرپرست حضرات کو چاہئے کہ اپنے گھر کے ماحول کو دینی بنائیں، اولاد اور ماتحتوں کی بہترین نگرانی کریں، انہیں اسلامی احکام و مسائل سے واقف کرانے کی بھر پور کوشش کریں۔

*(5)* والدین اس بات کا بھی اہتمام کریں کہ بچہ کب کیا کر رہا ہے، کس سے مل رہا، کس سے دوستی کر رہا، موبائل میں کیا سر گرمیاں انجام دے رہا ہے، اس پر نظر رکھیں اور زیادہ موبائل استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔

*(6)* نکاح کو آسان بنایا جائے، بے جا فضول خرچی رسم و رواج سے بچا جائے، شریعت کے مطابق نکاح کرنے پر زور دیا جائے، اور ایسی مہم چلائی جائے کہ جس سے لغویات سے کلی اجتناب ہو جائے، کیوں کہ شریعت نے نکاح کو آسان بنایا ہے، اگر ہم نکاح کو آسان بنائیں گے تو نوجوان بن بیاہی لڑکیوں کی عمریں گھروں میں رہ کر نہیں گزرے گی اور وہ حالات سے تنگ آ کر تبدیل مذہب پر آمادہ نہ ہوگی۔

*(7)* ان تمام کے ساتھ ساتھ سب سے اہم یہ کہ روزانہ یا کم از کم ہفتہ میں ایک مرتبہ اپنے گھروں میں دینی اور اصلاحی مجالس کا انعقاد کیا جائے، تاکہ نئی نسل کے اندر دینی رجحانات پیدا ہوں. 

اللہ تعالی ہم سب کو ارتداد سے بچائے اور ایمان کے ساتھ خاتمہ بالخیر نصیب فرمائے. (آمین)

*≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈*


*(نوٹ) اس قسم کی عمدہ تحریر اور بہترین مضامین کے لئے واٹس ایپ پر رابطہ کریں :*


*https://wa.me/+918790203776*

*🥏_______________________________🥏*


                    🥀 *منجانب* 💫

♣️   *منتظمین مطالعاتی انعامی مقابلہ*   ♣️

مقالات و مضامین بھیجنے کے لئے ای میل آڈی 

mdalij802@gmail.com

*•┈┈•◈◉❒   📚✍🏻📝📚   ❒◉◈•┈┈•*

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی