اور شمع بجھ گئی

 .                  اور شمع بجھ گئی 

                                      🖊ظفر امام 

____________________________


    دو بار ڈولی کا اٹھنا یہ ہر عورت کا نصیب ہے،ایک بار جب وہ اپنے مائیکے سے سرخ لباس میں ملبوس اپنے پِیا کے گھر جاتی ہے اور ایک بار جب وہ پِیا کے گھر سے سفید کپڑوں میں لپٹی ہوئی خدا کے حضور جاتی ہے،دونوں کی شکلیں ایک جیسی ہی ہوتی ہیں،دونوں بار اس کی ڈولی کے پیچھے باراتیوں کی شکل میں ایک قافلہ ہوتا ہے، دونوں مرتبہ اس کی ڈولی کے پیچھے خویش و اقارب کا ایک ازدحام ہوتا ہے،بس فرق دونوں میں صرف یہ ہوتا ہے کہ وہاں اس ڈولی کے پیچھے خوشی کے ترانے ہوتے ہیں اور یہاں غم کے فسانے، وہاں مسرت کی راگنیاں بجتی ہیں اور یہاں کرب کی شہنائیاں،وہاں سماں تبسم زار ہوتا ہے اور یہاں اشک بار۔ 

   ایسی ہی ایک ڈولی ۱۹/ستمبر ۲۰۲۱؁ء بروز اتوار رات کے نو بجے اٹھی،یہ میری سگی پھوپھی کی ڈولی تھی،لیکن میری پھوپھی کی یہ ڈولی پہلی والی نہیں تھی کہ وہاں ہر طرف ہو حق کی صدائیں گونجتیں،خوشیوں کے ترنگ اور مسرت کے شادیانے بجتے،بلکہ یہ ڈولی دوسری والی تھی جس کے ہر طرف خاموش حسرتیں ماتم کناں تھیں، آنکھیں اشک بار اور دل زار زار تھے،لوگوں کا ایک لمبا قافلہ ہوتے ہوئے بھی وہاں ایک وحشتناک سناٹا چھایا ہوا تھا۔ 

   آہ! کتنا پرکیف رہا ہوگا وہ دن جب اسی گاؤں میں میری پھوپھی دلہن بن کر آئی ہونگی،کتنے رونق زار ہونگے وہ لمحے جب پہلی بار انجان لوگوں سے ان کا تعارف ہوا ہوگا،اور کتنے سہانے ہونگے وہ پَل جب سسرال کی نندیں اور جٹھانیاں ان کی گھونگٹ اٹھا کر ان کی بلائیں اتار رہی ہونگی،ان کے دل میں اس دن کتنے ارمان کروٹیں لئے ہونگے،خوشیوں اور آنسوؤں کے حسین سنگم میں نہ جانے وہ کتنی دیر تیرتی رہی ہونگی،یقینا اس وقت بھی شہنائیاں بجی ہونگی،دیہاتی گیت ضرور گائے گئے ہونگے، قہقہوں کی محفل ضرور لگی ہوگی اور ایک آج کا یہ پُرحسرت دن جس میں ایک بار پھر میری پھوپھی دلہن بنیں مگر یہاں نہ کوئی ارمان تھے نہ آرزو،نہ یہاں کوئی خواب تھے نہ ان کی تعبیر اور نہ ہی یہاں قہقہوں کی محفل تھی نہ خوشیوں کے گیت، اگر یہاں کچھ تھے تو بس وہی پُرسوز نالے،پُردرد آہیں اور پُرغم بَین۔ 

    میرے دادا کی پانچ اولادوں میں سب سے چھوٹی میری یہی پھوپھی محترمہ عظمیٰ خاتون مرحومہ تھیں،جن کی شادی آج سے تقریبا ۴۰/ برس پہلے ہمارے گھر کے قریب ہی کے ایک گاؤں ( کماتی، جھالا ٹیڑھاگاچھ، کشن گنج) میں ہوئی تھی،اللہ نے اپنے خاص لطف و مہربانی سے میری اس پھوپھی کو کثیر الاولاد بنایا اور چھ باکمال بیٹیوں اور تین ہونہار بیٹوں کی شکل میں کل نو اولادیں انہیں عطا کیا۔

     میری ایک پھوپھی اور تھیں جو عمر میں ان سے بڑی تھیں،وہ ہمارے بچپنے ہی میں اس دنیا سے رخصت ہوچکی تھیں،بس یہی ایک پھوپھی بچی تھیں جو ہماری محفل کی ایک ایسی شمع بنی ہوئی تھیں جس کی ضوفشاں اور ہمہ گیر کرنیں ہماری زندگی کی تاریک راہوں میں اجالا کئے ہوئے تھیں، اس کی روشنی حاصل کرنے،ان سے دعائیں لینے اور اپنی بلائیں اتارنے کے لئے اکثر ان کے یہاں جاتے رہتے تھے،اور کبھی گھنٹوں اور کبھی پورے دن وہاں رہ کر رخصت ہوتے،اس بیچ بے شمار باتیں ہوتیں، راز و نیاز کی گفتگو ہوتی، ان کی محبت بھری نگاہ دنیا جہان کی کلفتوں کو ہوا کردیتی اور ان کا ایک پیار بھرا لمس وجود میں سرشاری کی لہر دوڑا دیتا،آخر ہم ان کے خون تھے،خون چاہے کتنا پرانا ہی کیوں نہ ہوجائے وہ ہمیشہ سرخ ہی رہتا ہے،اور اس کی قدر دل سے محو نہیں ہوتی،باوجودیکہ میری پھوپھی کی شادی ہوئے ایک لمبا عرصہ گزر چکا تھا،اس بیچ ان کی نواسے اور نواسیاں بھی جوان ہوچکی تھیں، مگر اپنے خون کے ساتھ ان کا رشتہ پہلے دن کی طرح ہی مضبوط تھا۔ 

   یہی وجہ ہے کہ جس دن ان کا انتقال ہوا اس سے دو دن پہلے ان کی عیادت کے لئے ان کے یہاں جانا ہوا،مگر افسوس کہ اس بار میری پھوپھی وہ نہیں رہی تھیں جو کبھی ہوا کرتی تھیں،ایک دم چست و چوبند،بیٹھے رہنے کو وہ گناہِ کبیرہ خیال کرتی تھیں،ان کے بال بچے اسی بات کو لےکر کبھی ان کو گھرک دیتے تھے کہ وہ آرام کرتی ہی نہیں تھیں،بس کام،کام اور صرف کام ہی میں لگی رہتی تھیں، مگر اس بار ان کے وجود کا پورا نقشہ ہی بدل گیا تھا،لبِ بستر ہوکر تکلیف و درد کے مارے کروٹیں بدل رہی تھیں،نقاہت اور کمزوری کی لکیریں ان کے رخساروں پر گہری ہوگئی تھیں،چہرے کی جھریوں میں کافی اضافہ ہوگیا تھا،اس دن ان کی زبان بھی خاموش ہوگئی تھی،ان کے بیٹے عزیزی قاسم ثمر اور محترم اجمل فیضی صاحب اور ان کی بیٹیاں ان کے پائینتی بیٹھی ہوئی تھیں،میں جب اس کمرے میں داخل ہوا جس میں میری پھوپھی درد کے مارے پیچ و تاب کھا رہی تھیں تو میری آہٹ پر ان کی نیم وا آنکھیں مکمل کھل گئیں اور کافی دیر تک مجھے اس کیفیت کے ساتھ تکتی رہیں جیسے وہ میرا شدت سے انتظار کر رہی تھیں، معلوم نہیں کیا کچھ کہنا چاہ رہی تھیں، لب جنبش میں آئے مگر آواز نہ نکل سکی، اپنی پھوپھی کی یہ حالت دیکھ کر میری آنکھیں نم ہوگئیں،یک بیک میرے ہاتھ اوپر اٹھے اور میری پھوپھی کے پیروں کو سہلانے لگے،یہ میری بدنصیبی کہیے یا آپ سے جو کچھ بن سکے اسے میری ذات کے ساتھ چسپاں کیجیے میں یہ کہنے سے جھجکونگا نہیں کہ یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا جب میں نے اپنی پھوپھی کے آخری وقت میں ان کا پیر سہلایا تھا۔ 

     اس دن میں کافی دیر تک وہاں بیٹھا اور جب رات تاریک ہوگئی تو بجھے من کے ساتھ وہاں سے اپنے گھر کو رخصت ہوا،دو دن کے بعد فون پر اطلاع ملی کہ میری پھوپھی اپنے خالقِ حقیقی سے جاملی ہیں،اس روح فرسا خبر کے سنتے ہی لب حرکت میں آئے اور انا للہ الخ کے الفاظ ان سے خارج ہوگئے،وجود پر ایک ارتعاشی کیفیت طاری ہوگئی،آنکھیں پُرنم اور دل ملول ہوگیا۔

     میری پھوپھی تقریبا پچھلے ڈیڑھ سال سے بیمار چل رہی تھیں،بیماری تو جان لیوا تھی مگر اس کی پکڑ اس زہر کی طرح تھی جو دھیرے دھیرے اپنا اثر دکھاتا ہے،اس بیچ میری پھوپھی کی جان مد و جزر کی شکار رہی، کبھی تکلیف یوں بڑھ جاتی جس سے یہ گمان ہونے لگتا کہ بس یہ چند دنوں کی مہمان ہے اور کبھی حالت ایسی ہوجاتی کہ یہ یقین ہونے لگتا کہ یہ اب اچھی ہو رہی ہیں،اسی گومگو حالت میں ڈیڑھ سال کا عرصہ بیت گیا، اس بیچ ان کی اولادیں ایک سایہ کی طرح ان سے چپکی رہیں،علاج و معالجہ اور خدمت میں اپنی طاقت سے بڑھ کر حصہ لیا،مگر موت کو کون ٹال سکتا تھا،چاہے دنیا کی پوری طاقت کسی کو بچانے میں کیوں نہ جھونک دی جائے مگر موت اپنے وقت پر آکر اپنا کام کر جاتی ہے،ادھر کئی دنوں سے میری پھوپھی کی حالت دگرگوں بھی ہوگئی تھی جس سے تقریبا یقین سا ہو چلا تھا کہ بس اب یہ چند دنوں کی مہمان ہے اور پھر بالآخر ۱۹/ ستمبر بروز اتوار بوقت ساڑھے تین بجے دن وہ دنیا کی ساری کلفتوں سے آزاد ہوگئی۔ 

   آنا فانا میں اپنی پھوپھی کے گھر پہونچا دیکھا کہ میری پھوپھی کی میت دیدبانوں کے بیچ میں چت پڑی ہے،لب یک دوجے سے پیوست ہیں،آنکھیں پتھراگئی ہیں،زبان خاموش اور سانسیں تھمی ہوئی ہیں،پورے گھر میں کہرام مچا ہے،در و بام سے رونے کی آوازیں آرہی ہیں،بیٹے اور بیٹیاں پچھاڑیں کھا رہی ہیں،اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ اس دن تو ان کی دنیا ہی اجڑ گئی تھی،باپ آٹھ سال پہلے ہی قبر کی گڈھا میں جا سویا تھا، ایک ماں تھی جو باپ کی کمی کو کبھی محسوس ہونے نہیں دیتی تھی آج وہ بھی ان سے جدا ہوگئی۔ 

     آہ!کیا گزر رہا ہوگا ان کے اس بیٹے کے دل پر جب وہ دور دیس میں اپنی ماں کی موت کی خبر سنا ہوگا؟ وہ تو اپنی ماں کے دامن کو خوشیوں سے بھرنے کے لئے تین سال پہلے ہی ولایت چلا گیا تھا،اب کسے پتہ تھا کہ اس کے بعد وہ اپنی ماں کو کبھی دیکھ نہیں سکے گا،ولایت پہونچنے کے چند مہینوں کے بعد اس نے اپنی ماں کے سلسلے میں ایک نہایت ہی شاندار اور پُردرد غزل لکھی تھی،جس میں اس نے اس بات کی منظر کشی کی تھی کہ ” جب میں اپنے گھر سے نکل رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ میری ماں اپنے آنسوؤں کو اپنی اوڑھنی کے پلو میں جذب کر رہی ہے، اور نم آنکھوں اور بھرائی ہوئی آواز میں مجھے الوداع کہہ رہی ہے “ یہ شاید ایک ماں کی چھٹی حس تھی جو اسے کہہ رہی تھی ” جی بھر کے دیکھ لے ذرا پھر تمہارے نین کبھی اپنے جگر پارے کو دیکھ نہ سکیں گے“ اس کے بعد دن مانو اڑتے چلے گئے اور مکمل تین سال کا عرصہ گزر گیا، ادھر ماں بیمار پڑگئی مگر ایک بیٹے کا نصیب کب کا ہی سر بہ مہر ہوچکا تھا، وہ چاہ کر بھی گھر واپس نہ پہونچ سکا کہ ماں اسے ہمیشہ کے لئے رنج دے گئی۔ 

    الغرض میری پھوپھی کے دفنانے کفنانے کا وقت رات کا ہی طے پایا تھا، لوگ جب تک عشاء کی نماز پڑھ کر آئے تب تک میری پھوپھی کی آخری ڈولی سج دھج کر تیار ہوچکی تھی،ڈولی پوش سے عطر و گلاب کی خوشبوئیں اٹھ رہی تھیں جس میں میری پھوپھی دنیا جہان کے رنج و محن سے بے خبر بڑے مزے کی نیند سوئی ہوئی تھیں،میں عشاء کی نماز پڑھ کر سیدھا اپنی پھوپھی کی ڈولی کے پاس پہونچ گیا،ابھی ڈولی اٹھنے میں چند منٹ باقی تھے اتنے میں میری نگاہوں کے سامنے ماضی کا ایک نقشہ گھوم گیا،ایک زمانہ تھا جب غربت کی طوطی بولتی تھی،میری پھوپھی کا گھرانہ اولاد کی کثرت سے لدا ہوا تھا، کمانے والے صرف میرے پھوپھا ہی تھے،وہ مکتب کے مدرس تھے، مکتب میں کتنی تنخواہ ہی ملتی ہے،جیسے تیسے کرکے گزارہ ہوجاتا تھا،لیکن اس کے باوجودانہوں نے اپنے پیٹ میں پتھر باندھ کر اپنی تمام اولادوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا ،پھر وقت کا پنچھی اڑتا چلا گیا،یہاں تک کہ میرے تمام پھوپھی زاد بھائی جوان ہوگئے،اور کمانے کجانے لگے،ان میں سے ایک ( بھائی ابوالحسن راہیؔ) ولایت چلے گئے،اور لاکھوں روپے کا انہوں نے ایک عالیشان گھر بنایا،اس گھر میں خوشیوں کی محفلیں سجنے لگیں،مگر خدا نے میری پھوپھی کی تقدیر میں شاید ان خوشیوں کو دیکھنا نہیں لکھا تھا،وہ بہت ہی جلد ان سب خوشیوں سے کافی دور چلی گئیں،اور جس بدن کو اس عالیشان محل میں آرام کرنا تھا وہ بےجان ہوا اس کے سامنے ایک کرخت جنازے پر پڑا تھا،ابھی میرا ذہن ماضی میں پرواز کر ہی رہا تھا کہ اچانک میری سماعت سے آواز ٹکرائی ” چلو اٹھاؤ “ اس آواز کے ساتھ ہی میں ماضی کے خول سے باہر نکل آیا اور پھر اپنی پھوپھی کی ڈولی کو اٹھا کر قبرستان تک لے گیا،کچھ ہی دیر میں میری پھوپھی کے جسد خاکی پر منوں مٹی ڈال دی گئی اور یوں ایک شمع جو ہماری محفلِ حیات میں روشن تھی وہ ہمیشہ کے لئے قبر کی کھوہ میں چلی گئی اور پیچھے بس صرف اندھیری ہی اندھیری اور تاریکی ہی تاریکی رہ گئی۔ 

   دعا ہے کہ اللہ میری پھوپھی کی مغفِرت فرمائے،جنت الفردوس کے اعلی مقام میں جگہ عنایت کرے اور پسماندگان کو صبرجمیل کی توفیق بخشے۔۔۔آمین یا رب العالمین 

   

                        ظفر امام،کھجورباڑی 

                      دارالعلوم بہادرگنج 

                      ۲۵/ ستمبر ۲۰۲۱؁ء

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی