*{نکاح کے تعلق سے معاشرے میں پھیلی ہوئی بے راہ روی اور اس کا تدارک}*

 *✍🏻 :- محمد آصف حسامی دیناجپوری* (بانی گروپ مطالعاتی انعامی مقابلہ) 


*{نکاح کے تعلق سے معاشرے میں پھیلی ہوئی بے راہ روی اور اس کا تدارک}*




          اللہ رب العزت نے انسانوں کے اندر انسیت و محبت اور ہم جنسوں سے قلبی میلان و رجحان اسکی فطرت میں ودیعت فرمائی ہے، اور یہ قلبی میلان و رجحان صنف نازک (عورتوں) کے ساتھ اور بھی زیادہ ہوتا ہے، جوں جوں عمر بڑھتی ہے محبت اور قلبی میلان میں اضافہ ہوتا ہی رہتا ہے، انسان جب عالَم شباب میں ہوتا ہے تو اس وقت طبعی خواہشات انگڑائیاں لینے لگتی ہیں، لہٰذا ایسے وقت میں اگر انسان کی رہنمائی جائز طریقہ پر نہ کی جائے تو پھر جائز راہ سے ہٹ کر ناجائز راہ میں اپنی طبعی خواہشات کی تکمیل کرتا ہے، پھر نتیجتاً سماج اور پورا معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے، معاشرے میں فحاشی و عریانیت کا سیلاب امنڈ آتا ہے، اخلاقیاتی بگاڑ بڑھتی جاتی ہے، انہی خرابیوں سے معاشرے کو دور رکھنے، بچانے اور ایک اچھا و پاکیزہ معاشرے کی تکمیل کے لئے شریعت اسلام نے ایک پاگیزہ رشتہ نکاح کی شکل میں قائم کیا۔


      نکاح کے ذریعہ صرف ایک پاگیزہ معاشرہ ہی وجود میں نہیں آتا بلکہ یہ نسل انسانی کی بقاء کا بھی ضامن ہے، مودت و محبت کا اہم ذریعہ ہے، سکون و راحت کا سبب ہے، اس سے دو نئے خاندانوں میں تعلقات قائم ہوتے ہیں، محبت میں اضافہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے نکاح تمام انبیاء علیہم السلام کی سنت رہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اسکی ترغیب دی ہے بلکہ عمل کرکے امت کو درس بھی دیا ہے۔



*نکاح کی اہمیت و فضیلت*


         نکاح صرف تکمیلِ خواہشات، مال و دولت کا حصول، عزت وجاہ کی طلب ہی نہیں بلکہ نکاح کی وجہ سے پاکیزہ نظام و معاشرہ وجود میں آتا ہے، نسب کی حفاظت ہوتی ہے، اور بھی دیگر فوائد حاصل ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ نکاح اور ایمان کے سوا کوئی اور عبادت ایسی نہیں جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک مسلسل مشروع ہو، جتنے بھی انبیاء کرام اس دنیا میں تشریف لائے  تمام ہی انبیاء کی شریعت میں نکاح مشترکہ سنت رہی، اور نکاح خود ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ کی بھی سنت ہے، چنانچہ اللہ رب العزت نے اپنی کتاب ہدایت میں ارشاد فرمایا : «وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلًا مِّنۡ قَبۡلِکَ وَ جَعَلۡنَا لَہُمۡ اَزۡوَاجًا وَّ ذُرِّیَّۃً» *(سورہ رعد آیت نمبر : 38)* (اور یقیناً ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے ان کو بیویاں دیں اور ذریت بھی) 


        دوسری آیت میں نکاح کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : «وَ اَنۡکِحُوا الۡاَیَامٰی مِنۡکُمۡ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنۡ عِبَادِکُمۡ وَ اِمَآئِکُمۡ ؕ اِنۡ یَّکُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ یُغۡنِہِمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ» *(سورہ نور آیت نمبر : 32)* (اور تم میں سے جو بے نکاح ہو اور تمہارے غلام اور باندیوں میں سے جو نیک ہو ان کا نکاح کر دیا کرو، اگر وہ تنگدست ہوں تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی فرما دے گا) 


     اور ایک مقام پر نکاح کو اپنی قدرت کی نشانیوں میں سے قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : «وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَ جَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَّوَدَّۃً وَّ رَحۡمَۃً» *(سورہ روم آیت نمبر : 21)* (اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کے پاس آرام کرو اور تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی پیدا فرما دی) 


       نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دے کر ارشاد فرمایا : «النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي، فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي» *(سنن ابن ماجہ)* (نکاح میری سنت ہے جو میری سنت پر عمل نہ کریں وہ ہم میں سے نہیں) 


        ایک دوسری حدیث میں نکاح کو نگاہ اور شرمگاہ کی حفاظت کا ذریعہ قرار دیا : «يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ» *‏(صحیح بخاری جلد دوم کتاب النکاح)* ( اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہو وہ نکاح کر لیں، کیوں کہ وہ نگاہ کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے اور جو استطاعت نہ رکھے تو وہ روزہ رکھے، کیوں وہ شہوت کو کم کرتی ہے) 


        اور ایک حدیث میں نکاح کو نصف ایمان قرار دیا گیا : «إذا تزوج العبد فقد استكمل نصف الدين فليتق الله في النصف الباقي» *(شعب الایمان حدیث نمبر : 1500)* (جب بندہ نکاح کرتا ہے تو وہ آدھے دین کو مکمل کر لیتا ہے، اور باقی آدھے دین کے بارے میں اللہ سے ڈرو) 


        ان تمام آیات و احادیث سے نکاح کے فضائل، مقاصد و ثمرات کا پتہ چلتا ہے، اور ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نکاح ایک پاکیزہ عمل ہے جو انسان کو بے راہ روی سے بچاتا ہے. 


*دور حاضر کے نکاح*


         اسلام نے نکاح کو آسان اور سادگی والا بنایا لیکن عصر حاضر میں نکاح کو  پیچیدہ اور مشکل ترین بنا دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے معاشرتی خرابیاں، اخلاقی بگاڑ، روحانی بیماریاں، معاشی پریشانیاں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں، اسی لئے آج امت مسلمہ تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، نکاح کے اندر اسراف و فضول خرچی کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں جب کہ قرآن قریم ہمیں صرف اس سے روکتا ہی نہیں بلکہ شیطان کا بھائی قرار دیتا ہے، ارشاد ربانی ہے : «إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ» *(سورہ اسری آیت نمبر : 27)* (بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں) اور اس فضول خرچی کی وجہ سے نکاح مشکل سے مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے، نیز نکاح میں رسم و رواج کو شامل کر کے مجموعہ خرافات بنا دیا ہے، اور یہ رسم ورواج اتنا عام ہو چکا ہے کہ اسکی برائی بھی دل میں برائے نام رہ گئی ہے، بعض تو رسموں کو اطاعت و بندگی سمجھ کر پابندی سے انجام دیتے ہیں اور اسکے خلاف کرنے کو گویا گناہ عظیم کا مرتکب سمجھتے ہیں، افسوس صد افسوس!! 



*پابندی رسومات کی وجہ*


         اگر غور کیا جائے تو پابندی رسم و رواج کی دو ہی صورتیں نظر آ رہی ہیں، پہلی وجہ بڑکپن دکھانے کے لئے کہ میں ہی ہوں میرے علاوہ اور کوئی نہیں ہے، گویا کہ یہ تکبر کرنا ہوا، اور متکبرین کے بارے میں اللہ رب العزت نے فرمایا : «إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ» *(سورہ نحل آیت نمبر : 23)* (یقیناً وہ (اللہ) تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا) اور دوسری وجہ ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ لوگ طعنے دیں گے، معاشرہ میں ذلت و رسوائی ہوگی، کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اندر اللہ اور رسول کی نافرمانی کی طاقت ہے لیکن معاشرے سے روگردانی کرنے کی ہمت نہیں، اللہ اور رسول کو ناراضگی ہمارے لئے اہم نہیں ہے بلکہ ہمارے لئے اہم یہ ہے کہ سماج و معاشرہ ناراض نہ ہو، حالانکہ کسی مخلوق کو خوش کرنے کے لئے خالق کی نافرمانی جائز نہیں، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : «لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ» *(مشکات المصابیح حدیث نمبر : 3692)* (خالق کو ناراض کر کے کسی مخلوق کو خوش کرنا جائز نہیں) ان دو وجوہات کی وجہ سے ہم لوگ رسم و رواج پر عمل کرتے ہیں اسکو چھوڑتے نہیں۔


*معاملات میں آسان کام نکاح کرنا ہے*


          شریعت میں جتنے بھی معاملات ہیں ان تمام معاملات میں آسان ترین معاملہ نکاح کا ہے، شریعت نے نکاح کو اتنا آسان اور سادگی والا بنایا ہے کہ جب دو فریق راضی ہو جائے اور وہ دونوں عاقل بالغ ہوں تو صرف دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کے ذریعہ نکاح کر سکتا ہے، اس کے علاوہ کی چیزیں صرف سنن و مستحبات میں سے ہیں جن کو ادا کرنے کے لئے زیادہ اخراجات کی ضرورت نہیں، یہی وجہ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سادگی سے نکاح کرتے تھے کہ بسا اوقات حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک کو علم نہ ہوتا اور ایسی ہی سادگی سے نکاح کرنے میں برکت ہوتی ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : «إِنَّ أَعْظَمَ النِّكَاحِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُ مَؤُونَةً» *(مسند احمد رقم: ۲۴۵۲۵)* (اُس نکاح میں سب سے زیادہ برکت ہوتی ہے جس میں کم سے کم خرچ ہو) البتہ صرف لڑکے پر ولیمہ کرنا منسون ہے، وہ بھی استطاعت کے مطابق، اور لڑکی والوں پر کوئی ذمہ داری نہیں رکھی۔


*نکاح میں دینداری کو ترجیح دیں*


         آج کل جب رشتہ طئے کیا جاتا ہے کہ اس میں لڑکیوں کے حسن و جمال اور مال و دولت کو معیار بنایا جاتا ہے، حالانکہ نکاح میں دینداری کو معیار بنانا چاہئے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : «تُنْكَحُ المرأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا، وَلِحَسَبِهَا، وَلِجَمَالِهَا، وَلِدِينهَا؛ فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ؛ تَرِبَتْ يَدَاكَ» *(صحیح بخاری و مسلم)* (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ شادی عموماً چار چیزوں کی وجہ سے کی جاتی ہے : *(۱)* حسب نسب کی وجہ سے۔ *(۲)* مال کی وجہ سے۔ *(۳)* حسن وجمال کی وجہ سے۔ *(۴)* دینداری کی وجہ سے۔ لیکن تم لوگ دین داری کو ترجیح دیا کرو! تیرا بھلا ہو) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دین دار گھرانہ کی لڑکی ہو تو اسے ترجیح دینی چاہیے، اسی میں معاشرہ بہتر رہتا ہے۔


          اور ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : «مَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَةً لِعِزِّهَا لَمْ يَزِدْهُ اللَّهُ إِلَّا ذُلًّا ، وَمَنْ تَزَوَّجَهَا لِمَالِهَا لَمْ يَزِدْهُ اللَّهُ إِلَّا فَقْرًا ، وَمَنْ تَزَوَّجَهَا لِحَسَبِهَا لَمْ يَزِدْهُ اللَّهُ إِلَّا دَنَاءَةً ، وَمَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَةً لَمْ يَتَزَوَّجْهَا إِلَّا لِيَغُضَّ بَصَرَهُ أَوْ لِيُحْصِنَ فَرْجَهُ ، أَوْ يَصِلَ رَحِمَهُ بَارَكَ اللَّهُ لَهُ فِيهَا ، وَبَارَكَ لَهَا فِيهِ» *(الترغیب و الترہیب : 2/46)* (جو شخص کسی عورت سے اُس کی عزت و ثروت کے سبب نکاح کرے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کی ذلت میں اضافہ فرما دے گا، اور جو شخص کسی عورت سے اُس کے مال کے سبب نکاح کرے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کے فقرو تنگ دستی میں اضافہ فرما دے گا، اور جو اس مقصد سے نکاح کرے کہ اسکی نگاہیں اور شرمگاہ محفوظ ہو جائے یا صلہ رحمی کرے تو اللہ ان دونوں میں برکت عطا کرے گا) اس حدیث سے پتہ چلتا ہے مال و دولت وغیرہ کو معیار بنانا ذلت و رسوائی ہے، اور ہم ذلت و رسوائی کو خود اپنا کر بعد میں واویلا کرتے ہیں، اسی لئے چاہئے کہ نکاح میں دین داری کو ترجیح دیں۔ 


*کسی چیز کا مطالبہ کرنا کیسا ہے؟*


         اسلام نے نکاح کے وقت سوائے مہر کے کسی اور چیز کو مقرر نہیں کیا ہے، چنانچہ باری تعالی نے ارشاد فرمایا «وَآتُوا النِّسَآءَ صَدُقَاتِھِنَّ نِحْلَة» *(سورہ نساء آیت نمبر : 4)* (اور عورتوں کے مہر بخوشی ادا کر دیا کرو) 


        نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا «فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِیْضَة» *(سورہ نساء آیت نمبر : 24)* (پس جو لطف تم نے ان سے اٹھایا ہے اس کے بدلے ان کے مہر کو ایک فرض کے طورپر ادا کرو) 


     لیکن مسلمان غیروں کی نقالی کرتے ہوئے طرح طرح کے مطالبات کرتے ہیں، جوڑے کی رقم کا مطالبہ کرتے ہبں، جہیز مانگتے ہیں، نقد رقم کا مطالبہ کرتے ہیں، گویا نکاح جو ایک عبادت ہے، دور حاضر میں تجارت بن کر رہ گئی ہے، اسی طرح اور بھی مالی بوجھ لڑکیوں کے اوپر ڈالتے ہیں جو کہ جائز نہیں، کیوں کہ کسی مسلمان کا مال اس کی دلی خوشی کے بغیر لینا جائز نہیں، البتہ اگر صراحۃً، دلالۃً، اشارۃً یا عرفاً سماجی دباؤ کے بغیر خود والدین کچھ دے دے تو اور بات ہے، اس کے لینے کی اجازت ہے، نیز بعض لوگ کہتے ہیں جہیز دینا سنت ہے، اور بطور دلیل کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو جہیز دیا ہے، یقیناً آپ ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو چار چیزیں دیں تھیں، جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے «اِنَّ رَسُوْلَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَمَّا زَوَّجَ فَاطِمَةَ بَعَثَ مَعَھَا بِخَمِیْلَةٍ وَ وِسَادَةٍ مِنْ أدَمٍ حَشْوُھَا لِیْفٌ وَ رَحَیَیْنِ وَسِقَاءً وَجَرَّتَیْن» *(مسند احمد)* (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح کیا تو ان کے ساتھ ایک مخملی چادر، چمڑے کا تکیہ جس کے اندر کھجور کی چھال بھری تھی، دو چکیاں، ایک مشکیزہ اور دو چھوٹے گھڑے، لیکن ان کو سنت نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو بیٹیوں (حضرت رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما) کو حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ  کے نکاح میں دیا  اور ان دونوں کو کوئی جہیز دینا احادیث میں وارد نہیں ہے، اگر جہیز دینا سنت ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام بیٹیوں کو بلا تفریق جہیز سے نوازتے۔



*مطالبات اور رسومات کے نقصانات*


         اسلامی تعلیمات کو فراموش کر کے جو ہم بیجا مطالبات (جہیز وغیرہ) اور رسم رواج پر عمل کر کے نکاح جیسی مقدس عبادت کو انجام دیتے ہیں، اسکی وجہ سے معاشرے میں جو سماجی تباہی و  نقصانات پیدا ہو رہے ہیں وہ درج ذیل سمجھ میں آ رہے ہیں۔


*(1)* زنا و خود کشی کے واقعات کثرت سے پیش آ رہے ہیں۔


*(2)* شادیوں میں تاخیر ہو رہی ہیں اور یہی چیز بعد میں ارتدار تک پہنچانے میں معاون بن رہی ہے۔


*(3)* عورت کے جہیز نہ لانے پر کثرت طلاق کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔


*(4)* جہیز زیادہ ہونے کی صورت میں مہر کی زیادتی ہو رہی ہے اور بعد میں مہر کو ادا نہیں کیا جا رہا ہے۔


*(5)* عورتوں کو وراثت سے محروم کیا جا رہا ہے محض اس وجہ سے کہ ان کو جہیز دیا گیا تھا جبکہ وراثت شرعی حق ہے۔


*(6)* مفلسی و غریبی عام ہو رہی ہیں اور یہی خود کشی کا بھی سبب ہو رہا ہے۔


*(7)* مادر رحم ہی میں بچیوں کو زندہ در گور کر دیا جاتا ہے. 


*(8)* غیروں کی مشابہت معاشرے میں کثرت سے پھیل رہی ہے۔


*(9)* سنتوں کا جنازہ نکل رہا ہے۔


*(10)* جنسی بے راہ روی میں اضافہ ہو رہا ہے. 


یہ سب خرایباں سماج میں محض بے جا مطالبات اور رسم رواج پر عمل کرنے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔



*نقصان کا تدارک کیسے کیا جائے؟*


        شادی کے موقع پر شریعت کو بالائے طاق رکھ کر مروجہ مطالبات و رسم رواج پر اگر روک تھام نہ کیا جائے تو پھر وہ دن دور نہیں جب ہمارے معاشرے میں اغیار کے تمام ہی روسم ورواج جڑ پکڑ لیں گے اور پھر امت ذلت و پستی کے عمیق غار میں چلی جائے، اسی لئے ضرورت ہے کہ ان سب کا خاتمہ کیا جائے، اور سنت کے مطابق سادگی کے ساتھ نکاح کیا جائے، اور ان رسوم کے خاتمہ کے لئے درج ذیل تدابیر کا کارگر ہونا سمجھ میں آ رہا ہے۔


*(1)* ائمہ و خطباء اپنے تقاریر میں بیجا مطالبات اور رسم رواج کی قباحت اور اس بارے میں اسلامی نقطہ نظر کو بیان کریں۔


*(2)* دولت مند و صاحب اقدار اپنی شادیوں میں کم خرچ کریں اور بے جا رسومات کو ترک کریں۔


*(3)* کم آمدنی والے افراد اپنی شادیوں میں یہ طے کریں کہ ہم لوگ استطاعت کے مطابق ہی خرچ کریں گے، حد سے تجاوز نہیں کریں گے اگرچہ مالدار آدمی زیادہ خرچ کریں۔


*(3)* بااثر اور صاحب اقدار لوگ ان لوگوں کے یہاں جائے جن کے گھر شادی ہونے والی ہیں، اور ان کو شادی کا اسلامی طریقہ بتائیں اور رسم و رواج کو ختم کرنے کی تلقین کریں۔


*(4)* مالدار احباب کمزور اور بے بس کی مدد کریں تاکہ وہ بھی اپنے بچیوں کی شادی کر سکیں۔


*(5)* نکاح کے متعلق  مہم کا آغاز کیا جائے اور ہر محلہ میں تربیتی کیمپ قائم کیا جائے۔


*(6)* خواتین کے لئے دینی اجتماعات قائم کئے جائیں جس میں رسم و رواج کی قباحت بیان کئے جائیں اور سادہ نکاح کرنے پر ان کی ذہن سازی کی جائے۔


*(7)* قریبی مدت میں جن جن کا نکاح ہو ان کو نکاح اور اسلامی نظام سے واقف کرایا جائے۔


*(8)* سمجھانے پر بھی جو لوگ سادگی سے نکاح نہ کریں ان کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے۔


*(9)* گھروں  میں اصلاحی مجلسیں قائم کئے جائیں۔


*(10)* ہر شخص علم دین سے واقف ہو ایسا نظام بنایا جائے۔



*ایک آخری گزارش*


       یہ دنیا چند روزہ ہے یہاں کی شان و شوکت، ضرویات، تقاضے اور حسرتیں یہیں رہ جائیں گی، لہٰذا ہم دین و ملت کا پاس و لحاظ رکھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونہ بنائیں، رسم وراج کو ترک کریں، اسلامی طریقہ پر نکاح کریں، سنت پر عمل کریں، ہر ایک کے حقوق کو ادا کرنے کی فکر کریں۔


اللہ تعالی ہم سب کو شریعت کے مطابق نکاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے. (آمین)

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی