کیا ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں کے ذریعہ آیا ؟

 کیا ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں کے ذریعہ آیا ؟ 


( ہندوستان میں اسلام کی آمد اور اس کی اشاعت کیسے ہوٸ  ) 


✏صادق مظاہری 

مکہ کی حسین وادیوں سے جب حق وصدق کا نعرہ بلند ہوا، تو اس کی صدا دنیا کے خطوں وملکوں تک سناٸ دی ، اس لۓ کہ یہ آوازہ ایک ایسے منصفانہ وعادلانہ نظام کا تھا جس میں اخلاق کی بلندی تھی پاکیزہ کردار کی دعوت تھی پیام انسانیت کی تبلیغ تھی وہ عرب جہاں پر انسان حیوان بن چکا تھا اس کی روح میں گندگیوں وناپاکیوں کی وجہ سے تعفن اٹھ رہا تھا اس کے غلیظ کردار سے دور دور تک انسانیت بدنام ہورہی تھی تاریخ کا ادنیٰ طالب علم اس سے واقف ہے کہ وہاں جہالت تھی ضلالت تھی نا انصافی تھی زیادتی تھی بے حیاٸ تھی بے شرمی تھی نفرت تھی  پھر ظلم تھا جبر تھا تشدد تھا  کیا کچھ نہ تھا سب ہی کچھ تھا اسلام کے بہترین نظام سے انسان متاثر ہوۓ اور دامن اسلام پکڑتے گۓ چنانچہ ہجرت سے قبل جتنے لوگ بھی ایمان لاۓ انہوں نے اسلامی تعلیمات کی رعناٸ وزیباٸ کا مظاہرہ کیا ، تو وہ دامن اسلام میں آتے گۓ کیونکہ ان کو اس میں حقانیت وصداقت نظر آرہی تھی پھر جیسے جیسے لوگ دامن اسلام میں آتے گۓ ان کی براٸیاں اچھاٸیوں میں تبدیل ہوتی گٸیں اور عرب میں ایک صالح معاشرہ وجود میں آتا گیا  صحابہؓ کے بارے میں پھر یہ کہا گیا 


جو نہ تھے خود راہ پر اوروں کے ہادی بن گۓ 


کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا 


جب وہاں پر اسلام کہ جہاں سے اس کی تعلیمات وہدایات کا پرچم لہرا کسی حملہ آور کے ذریعہ نہیں پھیلا تو بھارت میں یہ کیسے ممکن ہے ویسے بھی مذاہب کی تاریخ رہی ہے کہ کسی بھی مذہب کو قتل وغارت گری کرکے یا پھر کسی ملک وقوم پر حملہ آور ہوکر نہیں پھیلا یا جاسکتا ، بلکہ پیار ومحبت سے اس کی اشاعت کی جاتی ہے اس لۓ کہ مذہب کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور دل پر محبت کے بغیر راج نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔۔۔۔تاریخ کے مطالعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام کی صدا ۓ حق  نبی پاک علیہ السلام کے زمانے میں ہی ہندوستان پہنچ چکی تھی لیکن اس کے نتاٸج بعد میں ظاہر ہوۓ ۔ صاحب عجاٸب الہند کا بیان ہے 

سرندیب اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو جب رسول اکرم علیہ السلام کے مبعوث ہونے کی خبر ملی تو انھوں نے ایک سمجھدار آدمی کو مدینہ بھیجا اور اس کو حکم دیا گیا کہ وہ جاکر حضور علیہ السلام کے احوال معلوم کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دینی دعوت کی تحقیق کرلے مگر اس کو کچھ مشکلوں نے گھیر لیا اور یہ اس وقت مدینہ طیبہ میں حاضر ہوا ، جب کہ رسول اکرم علیہ السلام وصال فرماچکے تھے بلکہ حضرت ابوبکرؓ بھی وفات پاچکے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ تھے اس لۓ آپؓ سے ہی معلومات حا صل کیں  اس کے بعد لکھا ہے کہ یہ شخص سرندیب کے لۓ بحری راستے سے واپس روانہ ہوا ، مگر مکران کے قریب اس کی موت واقع ہوگٸ اس کے ساتھ ایک نوکر تھا وہ سرندیپ پہنچا اس نے لوگوں سے ساری معلومات بیان کیں کہ نبی اکرم علیہ السلام کا بھی انتقال ہوچکا تھا اور پہلے خلیفہ کا بھی اب دوسرے خلیفہ کو صاحب حکم وامر پایا ، اس نے اہل سرندیپ سے حضرت عمرؓ کی تواضع و خاکساری کا حال بیان کیا یہ بھی بیان کیا کہ وہ پیوند لگے ہوۓ کپڑے پہنتے ہیں اور مسجد میں بلا تکلف سوجاتے ہیں اہل سرندیپ پر اس کا بہت اچھا اثر پڑا اس وقعہ کے آخر میں بزرگ بن شہر یار عجاٸب الہند میں لکھتا ہے 

وھم یحبون المسلمین ویمیلون الیہم میلاً شدیداً 

( عجاٸب الہند ص ١٥٧ ۔۔۔۔ماخوذ از عرب وہند عہد رسالت میں ص ۔۔٥٦۔۔١٥٧ ) 

اسی طرح بھارت کے بہت سے راجہ اپنے پڑوسیوں کے پاس ہدیہ بھیج کر ان سے تعلقات قاٸم کرتے تھے چنانچہ ایک راجہ نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں تحفہ بھیج کر محبت کا اظہار کیا تھا جیساکہ مشہور محدث امام ابو عبد اللہ نیشاپوریؒ نے مستدرک میں حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت نقل کی ہے 


اھدیٰ ملک الہند الیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جرة فیہا زنجبیل فاطعم اصحابہ قطعة واطعمنی منہا قطعة ۔۔ 



بھارت کے راجہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زنجبیل کا ایک گھڑا بھیجا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو اس کا ایک ٹکڑا کھلایا ۔۔۔۔


البتہ اس کی تصریح نہیں کہ کونسے علاقے کے راجہ نے یہ تحفہ بھیجا تھا اس کا نام کیا تھا 

( عرب وہند عہد رسالت میں ص ١٠٩ ) 


ان واقعات  سے واضح ہوگیا کہ عہد رسالت ہی میں سرزمین بھارت پر توحید ورسالت کی صدا پہنچ چکی تھی اور یہاں کے لوگ اس سے متاثر ہوچکے تھے چنا ں چہ امام ابن کثیرؒ نے محمد ابن قاسم کی سندھ اور ہندوستان کی فتوحات سے قبل یہاں صحابہؓ کے آنے کی تصریح کی ہے ۔۔( البدایہ والنھایہ ج ٩ ص ٨٨ ۔۔)  

اس لۓ بعض تاریخ کی کتب میں ملتا ہے کہ ہندوستان کی بعض قومیں سولہ ھجری میں اسلام قبول کرچکی تھیں جب اسلامی قافلے ہندوستان آتے ، اور ان کی زندگی کا وہ مطالعہ کرتے ، جس کا اچھا اثر پڑتا تو وہ خود ہی اسلام کو اپنا لیتے ۔۔۔۔۔۔بھارت کے بہت سے راجہ ہیں جنھوں نے اسلام کے بیان کردہ اخلاق وکردار سے متاثر ہوکر بخوشی اسلام قبول کیا ہے ۔۔۔۔جس کی شہادت یہ واقعہ دیتا ہے ایک عسیفان نامی علاقے کا حاکم تھا یہ پہلے ہندو راجہ تھا پھر حیرت انگیز طور پر خود مسلمان ہوگیا ۔۔۔۔بلاذری بیان کرتا ہے یہ راجہ بڑا دانشمند وعقلمند تھا یہاں کی عوام بت پرست تھی اس نے پجاریوں کو دربار میں بلاکر کہا کہ تم اپنے بت سے التجا کرو کہ وہ اس کے لڑکے کو اچھا کردے انھوں نے کچھ دیر کے بعد کہا کہ ہم نے درخواست کردی اور ہماری یہ درخواست منظور کرلی گٸ ہے اتفاق سے کچھ ہی دیر کے بعد وہ لڑکا مرگیا جس سے متنفر ہوکر راجہ نے سارے بت خانے کو منہدم کرایا پھر اس نے عسیفان میں مقیم مسلمان تاجروں کو بلایا انھوں نے اس کے سامنے دعوت اسلام پیش کی اور وہ مسلمان ہوگیا ۔۔( فتوح البلدان ص ٤٣٣ ۔۔ہندوستان میں عربوں کی حکومت ص ٥١ )  ۔۔۔ اسی طرح خلیفہ مامون رشید کا زمانہ تھا ٢٠١ ھجری میں تبت اور سندھ کے ایک راجہ نے اسلام قبول کیا اور کعبة اللہ کے لۓ ایک نذرانہ پیش کیا مامون کی مرضی کے مطابق اس کو کعبہ میں امتیازی شان سے رکھا گیا ۔ ( اس کی تفصیل فاسی نے شفا ٕ الغرام میں بیان کی ہے )

اسی طرح معبری ملیباری نے سامری راجہ کا قبول اسلام  بیان کیا ہے اور جنوب ہند میں اسلام کی اشاعت کی تفصیل بیان کی ہے ایک مقام پر معبری کا بیان ہے ۔۔۔۔

مسلمانوں کی ایک جماعت قدم آدم کی زیارت کے لۓ آٸ ، اور ہند کے ساحل شہر کرنکلور ( کرن گنور ) سے گزری ، راجہ سامری کو اس کی خبر ہوٸ ، اس نے اس کو اپنے  دربار میں بلایا ، اس جماعت میں ایک بزرگ بھی تھے ، انھوں نے راجہ کے سوال پر رسول اکرم علیہ السلام کے معجزہ شق القمر اور اسلام کے بارے میں تفصیل بیان کی ، جن کو سن کر راجہ خفیہ طور پر مسلمان ہوگیا اور پھر وہ ہند سے اس جماعت کے ساتھ واپسی پر عرب چلا گیا ، اور کسی کو خبر نہ ہونے دی ، اور یہ عمان کے مقام شحر میں پہنچا ، یہاں کچھ وقت ٹھیر کر ایک جماعت تیار کی جو ملیبار میں جاکر اسلام کی تبلیغ کرے مگر چلنے سے پہلے یہ راجہ بیمار ہوگیا اور پھر سامری راجہ شحر میں فوت ہوگیا جو جماعت تیار کی تھی وہ ملیبار آۓ اور پھر اس جماعت نے ساحل ملیبار میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کی ، ہر جگہ مسجد بناٸ ، انھیں کے ہاتھوں یہاں اسلام کی بنیاد پڑی ۔۔( مزید تفصیل کے لۓ دیکھیۓ  ۔۔تحفة المجاھدین فی اخبار البرتغالیین۔۔لمعبری ملیباری )۔۔

بزرگ بن شہریار کا بیان ہے کہ کشمیر کے اطراف میں الور کا راجہ مہروق بن راٸق ہندوستان کے نامی بادشاہوں میں تھا اس نے ٢٧٠ ھجری میں حاکم منصورہ ( عبد اللہ بن عمر بن عبد العزیز ) کو لکھا کہ وہ راجہ کے لۓ اسلامی شریعت کو ہندی زبان میں شرح وبسط کے ساتھ بیان کرنے والا عالم بھیجے ، عبد اللہ بن عمر نے ایک عالم کو بلایا جو منصورہ میں رہتا تھا ، یہ ذہین تھا ، معاملہ فہم تھا ، عربی کا اچھا شاعر تھا ، ہند میں اس کی نشو ونما ہوٸ تھی اس لۓ وہ یہاں کی مختلف زبانوں سے واقف تھا عبداللہ بن عمر نے الورکے راجہ مہروق بن راٸق کی بات اس کے سامنے رکھی ، اس نے قبول کیا اور وہ راجہ کے یہاں پہنچا ، دو تین سال تک اس کے پاس رہا ، جب یہ عالم واپس منصورہ آیا تو عبد اللہ بن عمر نے راجہ کے بارے میں دریافت کیا ، تو اس نے تفصیل بیان کرتے ہوۓ کہا کہ میں نے راجہ کو اس حال میں چھوڑا ہے کہ وہ قلب وزبان سے تو مسلمان ہوچکا ہے مگر حالات کی وجہ سے وہ اسلام کا اظہار نہ کرسکا ، وہ اس عالم سے ہندی زبان میں تفسیر قرآن بھی بیان کراتا تھا۔ جب اس نے قرآن پاک کی اس آیت قُل من یحی العظام وھی رمیم  قل یحییھا الذی انشاَھا اوَّل مرة  وھوبکل خلق علیم   

 کی تفسیر راجہ کے سامنے بیان کی تو وہ تخت سے اتر کر زمین پر چلنے لگا پھر زمین پر اپنا رخسار رگڑا ، اور اس کا چہرہ مٹی سے ملوث ہوگیا ، اس کے بعد کہنے لگا کہ یہی رب معبود ہے، اول وقدیم ہے ، نہ اس کا کوٸ شریک ہے نہ مثیل ۔۔۔اس نے ایک کمرہ بنالیا تھا جس میں وہ تن تنہا نماز پڑھتا تھا ( تفصیل کے لۓ دیکھیۓ   عجاٸب الہند )اسی طرح قوموں نے بھی اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا ، جس طرح سے اسلام میں اخوت ومساوات کا سبق دیا گیا ہے اس نے ان کے قلوب پر دستک دی ، جو ان کو اسلام کی طرف کھینچ لاٸ۔۔۔۔۔ 

معصوم بھکری نے تاریخ سندھ میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم سندھ جاتے ہوۓ سیرستان کے علاقے سے گزرا ، تو چنہ قوم نے اپنے ایک مخبر کو بھیجا ، تاکہ وہ خفیہ طور پر مسلمانوں کے حالات معلوم کرے وہ شخص اسلامی لشکر کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ محمد بن قاسم نماز کے لۓ صف درست کر رہا ہے پھر سارے لشکر نے محمد بن قاسم کی امامت میں نماز ادا کی ، اس نے یہ سب دیکھا اور واپس جاکر ساری تفصیل بیان کی ، اہل اسلام کے حالات سن کر یہ قوم مسلمان ہونے کے ارادے سے محمد بن قاسم کی خدمت میں حاضری ہوٸ ، اس وقت محمد بن قاسم اور ان کا لشکر دستر خوان پر کھانا تناول فرمارہا تھا ، انھوں نے اس قوم کو دیکھکر مرزوق کہا ، پھر ان کا لقب بعد میں مرزوق پڑا یہ سب لوگ اپنی خوشی سے اسلام واہل اسلام کےکردار سے متاثر ہوکر محمد بن قاسم کے ہاتھ پر مسلمان ہوۓ ، یہ واقعہ فتح ملتان سے پہلے ٩٥ ھجری کا ہے 

( فتوح البلدان ص ١٦ ۔ ١٧ ۔۔۔۔۔۔۔خلافت امویہ اور ہندوستان  ص ٣٣٠ )  ایسے بہت سے واقعات تاریخ میں مل جاٸیں گے جن میں لوگ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر مسلمان ہوۓ ۔۔۔

 جیساکہ معلوم ہوچکا کہ ہند کے باشندوں کی رغبت شروع سے ہی اسلام کی طرف ہوچکی تھی اس لۓ حضرت عمر بن عبد العزیز ؒنے ٩٨ھجری میں مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوکر ہندوستان کی طرف توجہ کی ، اور بھارت کے راجاٶں کو دعوت اسلام دی ، جس کا انداز یہ تھا کہ دعوتی خطوط ارسال کیۓ ، جس کے نتیجے میں بہت سے راجاٶں نے اسلام قبول کیا ۔۔۔بلاذری کا بیان ہے فکتب عمر بن عبد العزیز الی الملوک یدعوھم الی الاسلام والطاعة علی ان یملکھم ولھم ما للمسلمین وعلیھم ما علی المسلمین وقد کانت بلغتھم سیرتہ ومذھبہ فاسلم جیسیة والملوک وتسموا باسما ٕ العرب ۔ ( فتوح البلدان ٤٢٩ ) 

 اس کے بعد ہند کے نو مسلم راجاٶں نے دربار خلافت میں خطوط روانہ کیۓ کہ اسلامی تعلیمات سکھانے کے لۓ معلم روانہ کیۓ جاٸیں چناں چہ ابن عبد ربہ نے لکھا ہے کہ بعث ملک الھند الی عمر بن عبد العزیز کتاباً فیہ الخ ( العقد الفرید ج ٢ ص ٢٠٢ ) 


ظاہر بات ہے جب راجاٶں نے اسلام قبول کیا تھا تو پھر رعایا پر بھی اس کا اثر ہوا ہوگا اور اسلام خوب تیزی کے ساتھ پھیلا ہوگا ۔۔۔۔

اس لۓ اگر کوٸ یہ کہتا ہے کہ ہند میں اسلام حملہ آوروں کے ذریعے آیا ، وہ تاریخ سے ناواقف ہے بلکہ وہ تاریخ کا قاتل ہے اور اس پر ایسا ظلم کر رہا ہے جس سے آنے والی نسلوں کو نفرت کی آگ میں جھونگ رہا ہے در اصل یہ ایک پروپیگنڈے کے تحت اسلام کو بدنام کرنے کی ایک سازش ہے اس لۓ جو لوگ ایسی بات کہتے ہیں ان کا تاریخ سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے بس سنی سناٸ باتوں کو آگے نقل کرتے ہیں ورنہ سچی بات یہ ہے کہ اسلام واہل اسلام سے دنیا کو جتنا فاٸدہ ہوا ہے وہ کسی مذہب یا قوم سے نہیں ہوا ، اسلام نے ہی لوگوں کی صحیح مذہب کی طرف رہنماٸ کی ، اور مسلم قو نے دنیا کو حکومت کا صحیح طریقہ سکھایا ہے ۔ حسن انتظام ، عادلانہ نظام ، رواداری ومساوات  ، اونچ نیچ کا خاتمہ ، اپنے پراٸیوں کے ساتھ اچھا رویہ یہ سب اہل اسلام سے دنیا نے لیا ہے۔۔ ورنہ عرب ہو یا یوروپ ، ایشیا ہو یا دنیا کے دوسرے علاقے تقریباً سب جگہوں پر انسانی دنیا پر حاکموں کا ظلم تھا ، جبر تھا تشدد تھا ، لوگ ان کے دربار میں آکر سجدہ ریز ہوتے تھے رعایا کی حیثیت غلام کی تھی بادشاہ کو لوگ خدا سمجھتے تھے لیکن اسلام نے تعلیم دی ” امیر القوم خادمھم “ اسی مشن کے تحت ساری دنیا میں اہل اسلام نے کام کیا ہے جس سے عالم انسانی کو بادشاہت کرنے کا طریقہ آیا اور پھر اسلا م کا  منصفانہ نظام دیکھ کر عالم انسانی کو عدل وانصاف کا پتا چلا ، اسی سے متاثر ہوکر لوگ اسلام میں داخل ہوتے تھے اسی طرح ہند میں بھی ہوا ۔۔۔۔۔۔۔ورنہ ہند میں کٸ قومیں ایسی تھیں جو نہ کسی سے دبتی تھی نہ ڈرتی تھی وہ کسی پر حملہ آور ہونے میں  مشہور تھی ان میں سے ایک قوم ہماری راجپوت قوم بھی ہے اب ان پر کون حملہ کرتا یہ وہ قوم ہے جو ہند کے بہت سے علاقوں پر راج کرچکی ہے اسی طرح جاٹ ہے ، گوجر ہے ، برہمن ہے ، لیکن یہ مسلمان ہوۓ اور اپنی مرضی سے ہوۓ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہوۓ اسی طرح تاتاریوں کی تاریخ کو دنیا جانتی ہے یہ اسلام واہل اسلام کے بہت بڑے دشمن تھے بڑی تعداد میں اہل اسلام کو انھوں نے قتل کیا تھا لیکن پھر خود ہی مسلمان ہوۓ ۔۔۔۔۔اس لۓ یہ کہنا کہ ہند میں اسلام حملہ آوروں کے ذریعے پہنچا یہ کسی ذمہ دار پڑھے لکھے انسان کی زبان سے اچھا نہیں لگتا ۔۔۔

ہند میں باہر سے جو مسلمان آۓ اور اس کواپنا وطن بنایا اور محب وطن کی طرح خدمات انجام دیں ، اپنے ذاتی مفاد کو مد نظر نہ رکھ کر ملک کی تعمیر وترقی کے لۓ کام کیا ، ورنہ بعض دیگر قوموں نے سب کچھ اپنے مفاد کے لۓ کیا ہے ۔۔۔۔۔بھارت میں اسلام کی آمد سے بہت فاٸدے ہوۓ تھے مشہور مٶرخ ایچ ، پانیکر ، ہندو مذہب وتہذیب پر اسلام کے اثرات کا تذکرہ کرتے ہوۓ تحریر کرتا ہے 

۔۔۔۔کہ اس عہد میں ہندو مذہب پر اسلام کا گہرا اثر پڑا ، بندوں میں خدا پرستی کا تصور اسلام ہی کی بدولت پیدا ہوا ، اور اس زمانے میں ہندو پیشواٶں نے خدا پرستی کی ہی تعلیم دی خواہ اپنے دیوتا کا نام کچھ بھی رکھا ہو۔۔۔۔۔۔۔

اسی طرح قدیم ہند میں چھوت چھات اور عدم مساوات یہاں کے باشندے بڑی شدت کے ساتھ اپنا ۓ ہوۓ تھے جب اسلام آیا تو چھوت چھات ، اونچ نیچ کی تفریق کو مٹایا ۔۔۔۔۔پنڈت نہرو نے اس کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے ۔۔۔۔۔اسلام کی آمد ہند کی تاریخ میں کافی اہمیت رکھتی ہے اس نے ان خرابیوں کو سماج میں پیدا ہوگٸ تھیں ذاتوں کی تفریق ، چھوت چھات وغیرہ اسلامی اخوت کے نظریۓ اور اہل اسلام کے عملی مساوات نے ہندوٶں کے ذہن پر گہرا اثر ڈالا ، خاص طور پر وہ لوگ جو ہندو سماج میں برابری کے حق سے محروم تھے ( تفصیل کے لۓ دیکھیۓ ۔۔۔The  Discovery of india  پنڈت نہرو کی ) 

اسی طرح ہند کے  تمدن وثقافت پر اسلام واہل اسلام کے گہرے اثرات پڑے ۔۔۔جنگ آزادی کے ایک رہنما ڈاکٹر ٹیبالی ستاریہ نے اپنے خطبہ صدارت میں ایک جلسے میں کہا تھا کہ مسلمانوں نے ہمارے کلچر کو مالا مال کیا ہے اور ہمارے نظم ونسق کو مستحکم کیا ہے اس ملک کے ادب اور اجتماعی زندگی میں ان کی چھاپ بہت گہری دکھاٸ دی ( تاریخ اسلامی ہند ص ٣٤ مولانا اسلام الحق اسعدی کی ) 

حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے بہت سے تاریخی شواہد پیش کیۓ پھر لکھا کہ مسلمانوں نے اس عظیم ملک کو جس قدر فاٸدہ پہنچایا ہے وہ اس فاٸدے سے بہت زیادہ ہے جو ہندوستان نے انھیں پہنچایا ہے مسلمانوں کی آمد اس ملک کی تاریخ میں ایک نۓ دور ترقی وخوش حالی کا آغاز تھا ، جسے ہندوستان کبھی فراموش نہیں کرسکتا ۔۔۔( ہندوستانی مسلمان ص ٣٤ ) 

اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ اسلام کی تبلیغ واشاعت اس ملک میں کیسے ہوٸ اور اسلام نے یہاں کے باشندوں کے قلوب میں کیسے جگہ بناٸ ، پھر یہاں اسلام کیسے پھیلا ۔۔۔۔۔۔۔


١٠ صفر ١٤٤٣ ھ 

١٩ ستمبر ٢٠٢١ ٕٕٕٕٕٕٕٕ


مقالات و مضامین

mdalij802@gmail.com

کاروان علم _ karwaneilm 


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی