تواضع اور عاجزی کا زندہ پیکر

 تواضع اور عاجزی کا زندہ پیکر

حضرت مولانا محمد ہاشم صاحب قاسمی خلیفہ مجاز حضرت اقدس الحاج حافظ عبد الستار صاحب نانکوی نوراللہ مرقدہ

کاروان علم_ karwaneilm 

فتح محمد ندوی

      وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عا شقانہ

     جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ


حضرت مولانا محمد ہاشم صا حب قا سمی مہتمم جا معہ اسلامیہ کا شف ا لعلوم چھٹمل پور سے تعا رف اور شناسائی کا وسیلہ یہ ہوا کہ ایک روز اچا نک ان کے روحانی دربار میں نیاز مندانہ حا ضری کی سعادت نصیب ہوئی ، یہ آپ سے پہلی با ضابطہ ملاقات تھی، اس پہلی حا ضری میں آپ کی بے پناہ شفقت اور خرد نوازی نے تکلفات کے تمام حائل دبیز پردوں کو درمیان سے ہٹا دیا ۔ میں نے آپ کی اس سادگی، خا کساری ،مکمل انہماک اور توجہ سے فا ئدہ اٹھا تے ہوئے بلکہ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اسی مجلس میں آپ سے کچھ سوالات پوچھنے شروع کر دئے ۔ حضرت نے بغیر کسی نا گواری کے اظہار کے میرے ہر سوال کا خندہ پیشانی سے جواب دینا شروع کردیا ۔ اس مجلس میں میرا آپ سے پہلا سوال یہ تھا کہ آپ کے اندر اس قدر تواضع ، بلکہ جذب و فنائیت ، احترام اور احترا م آدمیت ، اخلاقی بلندی ، فکر و خیال میں وسعت اور طبیعت میں نیکی اور ذہن و دماغ میں اس بلا کی پا کیز گی اور صحت کے اسباب کیا ہیں ۔ میرے اس بے ہنگم اور بے ہودہ سوال سے حضرت کی آنکھیں چھلک بڑی ، بڑے غمگین بلکہ لفظوں کو آنسوؤ ں میں جذب کر کے فرمایا کہ یہ سب میرے شیخ اور مر شد قطب ا لارشاد حضرت حا فظ عبد الستار نا نکوی نور اللہ مر قدہ کی دعاؤں اور شرف صحبت کا ثمرہ اور بر کت ہے ۔

آپ کا مختصر سراپا یہ ہے پیشانی کشادہ اس پر سعادت ، نیک بختی ، صلح ، اور معرفت کا نور اور جمال۔ آنکھوں سے ذہانت اور فراست کا مکمل اظہار بلکہ مستقبل کی ادا شناس ۔چہرہ کا رنگ سرخ اور سفید انڈے کی طر ح تاہم چہرہ سر خ زیتونی مائل جو مشرقی خوبصور تی کا استعارہ اور تمثال جسم نرم و نازک قدرے معتدل لیکن چست ، قوی اور متحرک غرض پورا حلیہ اور سراپا ، مردانہ حسن و تند رستی، رعنائی ، شادابی اور جمال پسندی کا عنوان اور ضرب المثل ہے ۔ اس ظا ہری حسن و جمال کو مزید صحت مند اور سرا پا مجسم آپ کی بے نفسی، توا ضع اور خا کسا ری بنا دیتی ہے ۔ بلکہ آپ کی زندگی کا ہیو لیٰ اور خا ص جمالی پیکر اور وصف یہی ہے اور اسی شان امتیاز میں آپ کی عظمت ،اعتبار اور محبوبیت کا راز پنہا ہے اور یہی آپ کی خوبصورت زندگی کا راز حیات ہے۔

مزید مولانا کی اس شان بے نیازی کا اعتراف خود ان کے معاصر ،بڑے، دوست و احباب اور مخالف فراخ دلی سے کرتے ہیں، خود مولانا کی یہ ادا ئے دلبری اور دلنوازی بلکہ شان قلندری اور عا لی ظرفی ہے کہ آپ بھی اپنے معا صرین چھوٹے اور بڑو ں کے کمالات کا اعتراف جس عا لی ظرفی اور وسیع القلبی سے کرتے اور سرا ہتے ہیں بلکہ کبھی ان کے اعتراف میں بخل سے کام نہیں لیتے ۔ شاید اب اس کی مثال اس زمانے میں نادر ہی دیکھ نے کو ملے گی ۔

۔ آپ کی طبیعت میں بلاکی صلا ح پسندی اور تحمل ہے نفرت کی ہوا کا جھو کا آپ کے پاس سے ہو کر بھی نہیں گز ر تا جبکہ آپ دوست اور دشمن کے فر ق کو اچھی طرح جا نتے اور محسو س کرتے ہیں لیکن پھر بھی آپ اپنی ذات سے اختلاف اور انتشار کو بڑھنے اورپھیلنے کا موقع نہیں دیتے ۔ آپ ہمیشہ اس صلح پسند اصول کے دا عی رہے ہیں کہ اپنے اور بے گانوں میں کام کرنے کے لئے صبر اور تحمل سے اچھی کوئی راہ اور راستہ نہیں ۔

حضرت مولانا محمد ہا شم صا حب نے ۱۳۸۸؁ ھ میں دا ر العلوم دیوبند سے فرا غت کے بعد خطہ دو آبہ کی علمی، روحانی اور قدر تی سر سبز و شادابی اور حسن و رعنائی میں اپنی شان انفرادیت میں مشہور سرزمین سہارن پور سے شمال کی جانب کو ہ شوالک کی ہم آ غوش قصبہ چھٹمل پور میں واقع جامعہ اسلامیہ کا شف العلوم میں آپ تدریس کے مقدس پیسے سے وا بستہ ہو گئے ۔تاہم آپ نے ظاہری علوم سے سیرابی اور سیر چشمی حا صل کر نے کے بعد اپنے باطن کے تزکیہ اور اصلاح کے لئے در س طریقت اور حصول معرفت کا سبق اپنے عہد کی عظیم روحانی اور عرفانی شخصیت بلکہ عارفوں کے چاند قطب لارشاد حضرت شاہ عبد القادر رائپوریؒ کے اجل خلیفہ حضرت الحاج حافظ عبد الستا ر صا حب نانکوی ؒ سے لیا ۔ تزکیہ نفس اور روحانی اسرار و رموز اور ذہن و روح کی اخلاقی صحت کے بعد آپ کو حضرت نانکوی ؒ نے اپنا مجاز بیعت ہونے کی سند عطاء فرمادی۔ اس روحانی انقلاب کے ساتھ علم و عمل کی تمام وا دیا ں سر کرنے کے بعد اصلاح و تر بیت کے میدان میں اپنے فیض اور تجربوں کو متعدی کرنے کے لئے آپ تشنہ کامان معرفت کواپنے بادہ خانے سے عقل و شعو ر اور ہدایت کی شراب معرفت سے بھرے ہوئے جام پلائے۔ خدا کا شکر و احسان ہے کہ بندہ نے بھی اس میکدۂ معرفت سے جہاں نہ خم کی کمی ہے اور نہ جام و ساغر کی اس لئے خوب فراوانی سے مے کشی کا موقع ملا بلکہ آپ کے رو حانی سلسلے سے میری نسبت وا بستہ ہوگئی ۔

حضرت نا نکوی ؒ کی چھوکھٹ سے فیض حا صل کرنے کے بعد آپ نے تعلیم و تر بیت، ا صلاح و ارشاد کی بزم و علم و عرفان انہیں خطوط اور تجربوں کی روشنی اور رہنمائی میںسجائی۔ آپ کے اس روحانی دربار میں سالکین کو جو روحانی تر بیت عطاء کی جاتی ہے اس میں حضرت کا کردار اور طریقہ کار اتنا اہم اور غیر معمولی ہے کہ اس کی نظیر قر ن اول کے ہیروں کے سوا کہیں دکھائی نہیں دیتی ۔ ایسے لوگ بھی آپ کی تربیت کے نتیجے میں مصلح ہو گئے جن کے سینے اور دل زنگ آلو د اور اور ذہن جادہ منزل کی تلاش میں سر گرداں تھے ۔ میں نے آپ کی تربیت کے انداز اور اس باب میں آپ کی فکر و نظر کی وسعت اور بلندی کا معیار اور مرتبہ جا نچنے کی بارہا کوشش کی لیکن اس صا حب کمال اور گرد و پیش کے ما حول اور حالات کے ادا شناس کی فکر و نظر کی گہرائی کے حوالے سے کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا بلکہ کچھ معاملات میں جہاں تک آپ کی نظر کام کرتی ہے اس کے تصور اور خیال سے بھی ہم عا جز ہیں ۔ایک صا حب بڑے عالم دین ہیں ان پر کچھ سخت حالات آگئے بلکہ گھیرا تنگ ہو گیا تھا ۔

ا ن نازک حالات میں حضرت نے ان کو اپنا مجاز بیعت بنا لیا، اب کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ ان کو بری نظر سے دیکھ لیں ۔حضرت فرماتے ہیں کہ ہم نے کچھ ایسے لوگوں کو بھی اپنا مجاز بنا یا ہے (یہ میری طرف اشارہ ہے) جن کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ وہ ایک فیصد بھی اس کے اہل نہیں لیکن ہم نے ان کو یہ ذ مہ داری دیکر ان کی اصلاح کی طرف قدم بڑھا یا ہے کہ انہیں اس ذمہ داری کا احساس ہو گا اور وہ بہت سے غلط اور ناجائز کاموں سے بچ جائیں گے۔

حضرت مولانا محمد ہاشم صا حب نے کبھی اپنے آپ کو غیر معمولی نہیں سمجھا بلکہ آسمان کی بلندیوں پر رہتے ہوئے زمین سے اپنے رشتہ ہمیشہ قائم رکھا ،ان کو معلوم تھا کہ وہ لوگ جو خود اپنے آپ کو ا پنی انا کا قتیل سمجھتے ہیں عام طور سے ان کی شخصیت کی شناخت ان کے سائے تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے ۔ اس لئے مولانا کا ذہن اپنے آپ کو بڑا بناکر پیش کرنے کے ہر قسم کے گمان اور خیال سے یکسر پاک اور آزاد ہے، اسی طرح انہوں کبھی کسی کے قد کو گھٹا نے اور بڑھا نے کے لئے کوئی ایسا پرو پیگنڈہ بھی نہیں کیا جو ان کی اپنی شنا خت اور پہنچان کے اضافہ کا ذریعہ ثا بت ہو۔ کئی مرتبہ حضرت کے ساتھ سفر ہوا کبھی آپ نے یہ خیال تک نہیںکیا کہ لوگ میرے استقبال کے لئے آئیں۔ کوئی آ ئے یا نہ کبھی آپ نے اپنی زبان سے نا گواری کا اظہار نہیں کیا ۔ وا قعہ یہ ہے کہ ہمیشہ اپنے کو کچھ سمجھنے کے احساس اور خیال کی اپنے حسن عمل سے نفی کی ہے۔ بلکہ اپنی فطری بے نفسی جس کو تمام عمر اپنی زندگی کا شعار بناکر رکھا اس پر کہیں اور کسی موقع پر حرف نہیں آنے دیا یہی وہ آپ کی زندگی کا خو بصورت نشان ہے جس پر آپ کے مرشد اعظم قطب الارشاد حضرت الحاج حا فظ عبد الستار صا حب ؒ نے کہا تھا کہ مولانا ہا شم صا حب کی اس دیا نت نفس اور دیانت مال کو دیکھ کر ہم نے ان کو اپنا مجاز بیعت بنایا ہے۔

حضرت مولانا محمد ہا شم صا حب تقریبا ً پچا س سال سے ہندوستان کی عظیم دینی ، علمی، اور روحا نی دا نشگا ہ جا معہ اسلامیہ کا شف العلوم چھٹمل پور کی با غبانی اور آبیاری میں مصروف عمل ہیں ۔ اس طویل مدت میں آپ ایک باکمال اور با فیض استاد کی حیثیت سے خدمت انجام دیتے رہیں ہیںوہیں یہ سعا دت بھی آپ کے حصہ میں آئی کہ اس عظیم ادارے کی مسند اہتمام پر تقریبا دس سال سے نہا یت ہی خو ش اسلوبی سے اس منصب کی ذمہ داریوں کو ادا کر رہے ہیں ۔ایک فعال اور زیرک منتظم کی حیثیت سے آپ کی ذہین اور زمانہ شناس نگا ہیں جریدہ عالم پر اس ادارے کی نیک نا می اور ترقی کا ذریعہ ثا بت ہو رہی ہیں۔آپ کا اس حیثیت سے کمال یہ ہے کہ آپ اکابر کی راو یت شکنی کے قا ئل نہیں بلکہ آپ ان کی عظمتو ں اور روایتوں کے ناقل ، محافظ اور امین ہیں، وہ کسی قسم کی روشن خیالی کو خا طرمیں نہیں لاتے بلکہ ہر صورت میں وہ اس تاریک کھر درے حال کے باطن کو اپنے اسلاف کے درخشاں ما ضی سے تا بناک اور روشن بنا نا چا ہتے ہیں ۔

انتظامی امور کے حوالے سے آپ کسی بھی مسئلے کو حسا س اور سنگین نہیں ہونے دیتے بلکہ ہر مسئلے کا حل اپنی تیز طبع ، ذہین آنکھوں، مسکراتے ہو ئے چہرے اور کمال شفقت سے حل کر دیتے ہیں ۔ غرض جلا ل اور جمال کا خو بصور ت پیکر ہی آپ کی انتظامی صلا حیتوں کا نشان اور عنوان ہے ۔ بہ قول اقبال مرحوم :

خرد نے مجھ کو عطاء کی ہے نظر حکیمانہ

سکھائے عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ

آپ کی جہاں بہت سی صفات اور خوبیاں وہیں آپ کو کتابوں سے عشق اور مطالعہ کے رسیا کے طور پر جانا اور پہنچا نا جاتا ہے ۔بلا مبا لغہ اس زمانے میں کتابوں سے اس درجہ عقید ت اور جنوں شعاری ، شوق اور جذبہ سر د بلکہ نیم جان ہو چکا ہے۔ اس قحط الرجا ل دور میں آپ کی علمیت اور وسعت مطا لعہ کے حوالے سے یہ منفرد شناخت اور پہنچان آنے والی نسلوں کے اشہب شوق کو مہمیز کرتا رہے گا ۔کسی کتاب کو دیکھ نے کے بعد ا س وقت تک آپ کو تسلی نہیں ہوتی جب تک وہ کتا ب آپ کی انکھوں کی دید نہ کر لے ۔نایا ب کتابوں کا جمع کرنا ان کو قرینہ سے رکھنا آپ کے ذوق علم و کتاب کا خوبصورت اعلان ہے ۔ ابھی حال ہی میں مولانا مفتی سید ریاض ندوی صا حب کھجناوری کی کتا ب ’’ اپنی دنیا آپ پیدا کر ‘‘ منصہ شہود پر آئی۔ میں حضرت مولا محمد نا ہا شم صا حب کے پاس بیٹھا ہوا تھامفتی صا حب کا اچا نک فون آیا سب سے پہلے اس کتاب کے بارے میں حضرت نے سوال فرمایا کہ مفتی صاحب آپ کی کتاب ابھی تک نہیں ملی ا تفاق سے کتاب ان کے سر ہانے رکھی ہوئی تھی۔ دیکھ کر بڑی خوشی کا اظہار فرمایا ۔

ہر شخص میں اپنے کردار اور حسن عمل کے حوالے سے مقنا طیسیت اور کشش ہوتی ہے ۔آپ کی کشش اور محبویت کا راز آپ کی شخصیت کی کشادہ ذ ہنی ، زندہ دلی، محبت ، شرافت ، تواضع سادگی اور خاکساری کے پیکر میں شامل ہے ۔ اپنے مزاج اور طبیعت میں اس درجہ شرافت ، نیکی ،صلاح اور صا لحیت کے لحاظ اور اعتبار سے آپ صوفی منش ضرور ہیں ۔ تاہم آپ ایسے صوفی صا فی نہیں ہیں جو گرد و پیش کے حالات سے بے خبر ہوں۔بلکہ آپ کی آنکھوں میں ذہانت کی چمک اور دور بیں نگا ہیں جہاں مستقبل کی ادا شناس ہیں وہیں وہ زمانہ شناسی اور حالا ت سے مکمل آگاہی کا ہر وقت ثبوت اور شہادت فراہم کرتی رہتی ہیں ۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی