کیا صرف راجہ مہیندر پرتاپ سنگھ ہی بُھلائے گئے

 کیا صرف راجہ مہیندر پرتاپ سنگھ ہی بُھلائے گئے

                        ــــــــــــــــــ

    از ـ محمود احمد خاں دریابادی 

    راجہ مہیندر پرتاپ سنگھ یاد آگئے، سوال یہ ہے کہ اب تک کیوں نہیں یاد آئے تھے ؟............. کیا اس لئے کہ انھوں نے اپنی ساری زندگی ہندو مسلم اتحاد کی کوششوں میں گزاری؟ کیا اس لئے کہ 1957 میں اُنھوں نے متھرا سے اُس وقت کےجن سنگھ امیدوار پنڈت اٹل بہاری باچپئی کو بری طرح ہرایا تھا؟ .............. دوسرا سوال یہ ہے کہ اب کیوں اُن کو یاد کیا جارہا ہے؟ ........... کیا اس لئے کہ کسانوں کے موجودہ احتجاج کے بعد مغربی یوپی میں جاٹوں کا ووٹ بی جے پی سے کھسک گیا ہے؟ کیا جاٹوں کو یونیورسٹی کے شیلانیاس کا جھنجھنا دے بہلانا مقصود ہے؟ کیا اب بھی کسی برادری کو جو دس مہینوں سے سردی، گرمی، برسات کی سختیاں برداشت کرکے اپنے حقوق کے لئے سڑک پر بیٹھی ہوئی ہےاُس کو اس طرح کے کھلونوں سے بہلایا جا سکتا ہے ؟


    ویسے ہمیں بہت اچھا لگا کہ کم از کم مہیندر پرپ سنگھ کو یاد تو کیا گیا !  مہنیدر پرتاپ ہندوستان کی آزاد حکومت کے پہلے صدر جمہوریہ تھے، کیا اچھا ہوتا کہ اُن کے ساتھ پہلے وزیر اعظم مولانا برکت اللہ بھوپالی کو بھی یاد کیا جاتا ! کیا اچھا ہوتا ہندوستان کے پہلے وزیر خارجہ مولانا عبیداللہ سندھی کو بھی یاد کیا جاتا ! .......... اور اس قافلہ حریت کے عظیم قائد شیخ الھند مولانا محمود حسن دیوبندی جن کے حکم پر اور جن کی رہنمائی میں  اُن کے شاگردوں اور مریدوں نے اس وقت افغانستان کے سربراہ امیر حبیب اللہ خاں کے ساتھ مل کر یہ جلاوطن آزاد اور سیکولر حکومت بنائی تھی، ......... اسی کے نتیجے میں ہندوستان کی مکمل آزادی کے لئےریشمی رومال تحریک چلی تھی، اسی جلاوطن حکومت نے بین اقوامی برادری کی ذہن سازی اور اعتماد حاصل کرنے کے لئے روس، امریکہ اور ترکی وغیرہ کا سفر کیا تھا، ......  کچھ اندرونی بیرونی سازشوں کی وجہ سے جب ریشمی رومال تحریک کا راز فاش ہوگیا،  تو انگریزوں نے شیخ الھند کو اُن کے شاگردوں سمیت عرب سے گرفتار کرکے مالٹا پہونچادیا، ......... تقریبس ستر سالہ یہ بزرگ رہنما ساڑھے تین سال تک مالٹا میں قیدو بند صعوبتیں برداشت کرتا رہا،  کاش جنگ آزادی کے اُس عظیم جرنیل کو بھی یاد کیا جاتا ! ............ خود راجہ مہیندر پرتاپ سنگھ نے اپنی خود نوشت میں ساری تفصیلات لکھی ہیں ـ  ہماری حکومتوں سے تو اتنا بھی نہ ہوا کہ دہلی کی کسی سڑک کا نام شیخ الھندکے نام پر کردیتے؟

   

   یہ جو باربار کہا جارہا ہے کہ مہنیدر پرتاپ سنگھ کو بھلا دیا گیا، بھلا دیا گیا تو ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صرف مہیندر پرتاپ ہی نہیں دوسرے اور بھی کئی ازادی کے سورما بھلا دیئے گئے ہیں ذرا انھیں بھی یاد کرلیجئے ـ


        کیا عجب ہے کہ اب اُن کو

        یاد کرنا بھی بے وفائی ہے

  

      محمود احمد خاں دریابادی 

       14 ستمبر 2021 ء

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی