#دل_کے_قریب_رہنے_والا_انسان_جس #کے_لائق_میں_نہیں_ہوں۔ 💐💐تعریف اور ستائش💐💐

 ❈❈❈❈﷽❈❈❈❈

#دل_کے_قریب_رہنے_والا_انسان_جس #کے_لائق_میں_نہیں_ہوں۔


💐💐تعریف اور ستائش💐💐


یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر نامہ نگاروں نے ذرا کم ہی قلم اٹھایا ہے۔لیکن یہ موضوع اپنی ذات میں بہت اہم ہے اور آج کے دور میں اس کی اہمیت اور افادیت اس لئے بھی بڑھ گئی ہے کہ معاشرے میں آپا دھاپی کا رجحان بڑھ رہاہے۔ تعریف و ستائش کے چھ پہلو ہو سکتے ہیں۔


❶ ۔اللہ کی تعریف

❷ ۔اپنی تعریف خود کرنا جیسے خود ستائی

❸ ۔اپنی تعریف کروانا اورپسند کرنا

❹ ۔کسی انسان کی سچی تعریف کرنا

❺ ۔کسی انسان کی وہ تعریف کرنا جو اس کے اندر نہ ہو۔

❻ ۔کسی کو محبوب بنانے کے لئے اس کی پسندیدہ چیز کی تعریف کرنا جیسے باپ کے سامنے اس کے بیٹے کی تعریف۔

جہاں تک نمبر❶ یعنی اپنے خالق حقیقی اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کلام کا آغاز بھی الحمدللہ رب العالمین یعنی تعریف سے کیا ہے اور ایک مومن کو ترغیب دلائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید اورثناء کیا کرے۔ سورۃ فاتحہ جو دن کی فرض نمازوں میں سنت مؤکدہ ملا کر 32 دفعہ پڑھی جاتی ہے میں پہلی ❹ آیات جو حمدو ثناء پر مشتمل ہے۔ پانچویں آیت اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کی دعا سکھلا کر انسان کو خود ستائی کرنے اور کروانے کی نفی کردی اور فرمایا کہ اے انسان! تمہارا پہلااور اصل کام حمدو ثناء کے مالک سےہر میدان میںہدایت طلب کرنا ہے۔ ایسےرستہ کی جو انعام یافتہ کا رستہ ہے۔ گویا اپنے آپ کو حقیر، منکسر المزاج رکھنا ہے۔ انسان کی اپنی تو یہ حالت ہے کہ نماز میں بھول جائے تو سبحان اللہ کہہ کر خدا کی تعریف کی جاتی ہے کہ اے اللہ! تو بھولن ہار سے پاک ہے۔


تعریف گو صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے تاہم انسان بھی تعریف کو پسند کرتا ہے۔ اس کی جبلت کا یہ خاصہ ہے کہ اس کو سراہا جائے۔


اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان اپنی ہی تعریف کے پُل باندھتا پھرے یا اپنی تعریف کرنے پر اپنے منہ ہی نہ سوکھے جیسے کہتے ہیں اپنے منہ میاں مٹھو بننا۔ اردو محاورہ ہے خودی اور خدائی میں بَیر ہے۔ یہ تو انسان کو ہلاکت کے کنارے تک پہنچا دیتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔


وَ لَا تَفۡرَحُوۡا بِمَاۤ اٰتٰٮکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرِ ۣ﴿ۙ۲۴﴾ اور اُس پر اِتراؤ نہیں جو اُس نے تمہیں دیا اور اللہ کسی تکبر کرنے والے، بڑھ بڑھ کر فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔


(الحدید:24)


اور انکساری و عاجزی اختیار کرنے کی تلقین وَ اقۡصِدۡ فِیۡ مَشۡیِکَ اور اپنی چال میں میانہ رَوی اختیار کر (لقمان:20) کے الفاظ میں ملتی ہے نیز ہدایت فرمائی وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا اور زمین میں اکڑ کر نہ چل۔ (بنی اسرائیل:38)


الغرض انسان کو خود اپنی تعریف اورخود فروشی زیب نہیں دیتی۔ خوشبو نے کب کسی سے تعریف مانگی ہے وہ تو خود اپنا وجود ظاہر کرتی ہے اور لوگ اس کی تعریف کرتےہیں۔ انسان بھی ایک پھول نما ہے جو اپنی خوشبو خود چھوڑتا ہے اور ماحول کو معطر کرتا ہے پھر لوگ خود اس کی تعریف کرتے ہیں۔


اس کے مقابل پر کسی کی اس کے اچھے کام کی تعریف اس کے لئے Tonic کا کام کرتی ہے۔ حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ یہ تعریف بجا طور پر ہونی چاہئے۔


اگر اس کام کو اپنے گھر سے شروع کریں تو سب سے پہلے میاں بیوی کو ایک دوسرے کے اچھے کاموں کو ستائش کی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ گھر کی مالکہ جب کھانا تیار کرتی ہے تو اس کھانے کی تعریف لازماً گھر میں سکون کا باعث بنے گی۔ ورنہ زندگی تلخ ہو جاتی ہے۔ اپنے بچوں میں نیکی اور اچھے کاموں کی ترغیب دلانے کے لئے ان کے اچھے کاموں کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا اور اس کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ اسلام نے حوصلہ افزائی کے لئے جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْراً یا مَاشَاءَا للّٰہ کے الفاظ کہنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو شاباش Weldone کہہ کران کا حوصلہ بڑھاتے ہیں کیونکہ میٹھے بول حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ خاندان کا یونٹ قائم رکھنے میں تعریفی کلمات بہت اہم کردارادا کرتے ہیں۔ ساس بہو،نند بھابھی اگر ایک دوسرے کی تعریف شروع کردیں تو خاندانی معاملات سُدھر جائیں۔


تعریف اور ستائش میں میانہ روی مدنظر رہنی چاہئے۔ حد یا ضرورت سے زیادہ تعریف ہر دو اطراف میں نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ تعریف کرنے والے میں بھی جھوٹ کی آمیزش شامل ہوجاتی ہے۔ جو ایک گناہ ہے اوردوسری طرف جس کی تعریف کی جارہی ہو اس میں تکبر آجاتا ہے۔ جو ہلاکت کی طرف لے جاسکتا ہے۔ تعریف میں کنجوسی سےکام بھی نہیں لینا چاہئے۔


ہمارے معاشرے میں ایک ماتحت کی اپنے افسر کی تعریف بہت پائی جاتی ہے۔ ایک حد تک تو یہ بھی جائز ہے لیکن جب ایسی باتوں کی تعریف شروع کردی جائے تو افسر میں پائی نہ جاتی ہوں تو یہ بھی گناہ ہے۔ پھر تعریف، حسد کابھی موجب بنتی ہے۔ آپ اگر کسی کے بچے کی تعریف کئے جائیں اور سامنے موجود کے شخص کے بچوں کے بارے کچھ نہ کہیں تو اس کے دل میں حسد پیدا ہوگا۔ بعض اوقات لوگ کسی کی تعریف پر ناراض ہو جاتے ہیں جو درست نہیں۔ صرف اپنے بچوں کی خوبیوں کے گُن نہیں گانے چاہئیں۔ ہمارے معاشرے میں بالخصوص جماعت کے بچے ہمارے بچے ہیں۔ ان کی کارگزاری کو بھی سراہناضروری ہے۔


جماعت کاذکر ہوا ہے تو جماعت میں ایک دوسرے کے لئے تعریفی کلمات لازماً جماعت کی تقویت اور بڑھوتی کا موجب ہوں گے۔ دراصل تعریف یا تعریف کرنے والے کی طبیعت کی عکاسی کرتی ہے۔ انسان کی اچھی سوچ اجاگر ہوتی ہے۔


مندج بالا امور کی تائید میں درود شریف کی مثال دی جا سکتی ہے۔ جس قدر اپنے سب سے پیارے رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر درود بھیجیں گےاسی قدر ہم اپنے خالق حقیقی کے پیارے ہو جائیں گے۔ہم روزانہ اپنی زندگیوں میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ فقیر ہمارا دل جیتنے کے لئے بالخصوص خواتین کے دل نرم کرنے کے لئے ان کے بچوں کے حق میں دعاؤں کی صدا بلند کرتاہے۔جیسے بی بی! تیرےبچے جیون،بی بی! تیری بچیاں نوں بھاگ لگن تو ماں کا دل پسیج جاتا ہے اور وہ فوراً فقیر کو حسب استطاعت دے کر روانہ کرتی ہے۔ یہ بھی ایک انداز ہے تعریف اور ستائش کا۔


ڈیل کارنگی کا شمار دنیا کے چند بڑے لکھاریوں میں کیا جاتا ہے۔ زند گی، انسانی رویوں، کامیابی، ناکامی اور موٹیویشن جیسے بڑے موضوعات پر ڈیل کارنگی نے طبع آزمائی کر رکھی ہے۔ مجھے ہمیشہ سے ان کی تحریریں بہت متاثر کرتی آئی ہیں اور میں اکثر اپنی زندگی کی بہت ساری گتھیاں ان کی تحریروں کی مدد سے سلجھانے کی کوشش کرتارہتاہوں۔ ڈیل کارنگی کی کتاب" How to win friends and influence people "انسانی رویوں کے حوالے سے دنیا کی بہترین کتابوں میں سے ایک کتاب ہے۔ یہ کتاب 1936 میں پہلی بار شائع ہوئی، آج اتناوقت گزرنے کے باوجود لوگ اس کتاب کو شوق سے خریدتے اور پڑھتے ہیں۔ اس کتاب کے ایک۔ حصہ میں انہوں نے اپنی زندگی کا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ میں اپنی بات کا آغاز کرنے سے پہلے وہ واقعہ بیان کرنا چاہتاہوں۔ وہ کہتے ہیں۔ میں ایک جگہ قطار میں کھڑ اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ اردگرد کا ماحول کچھ بوجھل ساتھا۔ قطار بہت لمبی تھی اور کاونٹر پر بیٹھا ہوا آدمی بہت بیزار نظرآرہا تھا۔ اس کی بیزاری کی وجہ شائد یہ تھی کہ قطار میں کھڑا ہر آدمی چاہتا تھا کہ جلدی اس کی باری آجائے۔ بہت دیر بعد جب میری باری آئی تو میں نے اس آدمی سے کہا۔ "سر ! آپکے بال بہت پیارے ہیں"۔ میری اس بات پر اس کے چہرے کے تاثرات فوراًً بد ل گئے ساتھ ہی اسکے رویے میں بھی واضع تبدیلی آگئی جس کی وجہ سے اسکی بیزاری بھی ختم ہو گئی۔ وہ دلچپسی کے انداز میں کہنے لگا۔ " اب کہاں اچھے ہیں۔ ایک وقت تھا جب میرے بالوں کی ہر کوئی تعریف کیا کرتا تھا۔ کالج کے دنوں میں میرے بال اتنے لمبے تھے کہ کندھوں کو چھوا کرتے تھے، میری بیوی میرے بالوں سے بہت متاثر تھی"۔ وہ آدمی اسی خوشی کے انداز میں بہت دیر تک اپنے بالوں کے بارے میں بات کرتا رہا۔ اس نے مجھے ضرورت سے زیادہ وقت دیا۔ اسکا انداز اور رویہ بھی میرے ساتھ بہت اچھاہو گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے ایک جملے نے اس کی ساری بیزاری دور کر دی تھی۔ اس کا سارا روکھا پن دور ہو گیا تھا اور مجھے یقین ہے کہ اسکا وہ دن بہت خوشی میں گزرا ہوگا۔ 

میں نے جب یہ قصہ پڑھا تو مجھے بہت شدت سے تعریفی کلمات کی اہمیت کا اندازہ ہوا اور میں دیر تک سوچتا رہا کہ میرے پاس بھی زندگی میں بہت سارے مواقع ایسے آئے، جب میں بھی کسی کا دن اچھے دن میں بدل سکتا تھا، میں بھی کسی کی بیزاری کودور کر سکتا تھا، میں بھی کسی کی اداسی کو خوشی میں بدل سکتا تھا، میں بھی کسی کے چہرے پر کچھ دیر کے لئے حقیقی مسکراہٹ لا سکتا تھا۔ لیکن میں نے اور ہم میں سے بہت سارے لوگوں نے کبھی اس چھوٹی سی بات کے بارے میں نہ تو سوچا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کو اہمیت دی ہوتی ہے۔ تعریفی کلمات کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر کے باری باری ان کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔ ایک صورت یہ ہوتی ہے جب ہمیں "کوئی" واقعی مختلف اور اچھا دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ اس صورت حال میں وہ "کوئی" ہم سے اس بات کی امید اور توقع ضرور رکھتا ہے کہ ہم اس کی تعریف کریں۔ اگر ہم تھورا غور کریں تو ایک دن میں ہمارے پاس بہت سارے ایسے مواقع آتے ہیں جب اچھا اور خوبصورت دیکھنے کے باوجود ہم اس "کوئی " کی تعریف نہیں کرتے۔ اس کوئی میں ہمارے والدین شامل ہوتے ہیں، اس کوئی میں ہمارے بہن بھائی شامل ہوتے ہیں، اس کوئی میں ہماری شریک حیات شامل ہوتی ہے، اس کوئی میں ہمارے کولیگ شامل ہوتے ہیں، اس کوئی میں ہمارے دوست شامل ہوتے ہیں، اس کوئی میں وہ ہر کوئی شامل ہوتا ہے جس سے ہم ملتے رہتے ہیں۔ جبکہ اس کے بر عکس دوسری صورت میں ہمیں سب کچھ معمول کے مطابق لگ رہا ہے، اور "کوئی" ہم سے کسی قسم کی تعریف کی امید بھی نہیں کر رہا ہوتا۔ ایسی صورت حال میں تعریفی کلمات جادو کی طرح اپنا اثر دکھاتے ہیں۔ ایک بہت اہم بات جو بیان کرنا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ دوسروں کے لئےتعریفی کلمات کا کسی طور سے ہمارے ساتھ تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے بظاہرہمیں کچھ مل رہا ہوتا ہے۔ چونکہ مادہ پرستی کا دور ہے اور ہم اس دورمیں ہر چیز کو نفع اور نقصا ن کے ترازو میں تولنے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح جب کسی کے حق میں تعریفی کلمات کو بھی ہم نفع نقصان کے ترازومیں تولتے ہیں تو ہمیں کسی بھی طرح سے اس شیشہ میں اپنا فائدہ نہیں دکھائی دے رہا ہوتا اس لئے ہم بہت آسانی سے اس کی اہمیت کو نظرا نداز کر دیتے ہیں۔ 

آج سے ہی ایک چھوٹا سا ارادہ کریں کہ جب بھی کوئی آپ کے سامنے نئے کپڑے پہن کر آئے، کوئی اچھی خوشبو لگا کر آئے، کوئی کسی امتحان میں کامیاب ہو کرآئے، یا کوئی بھی ایسی صورت ہو جس میں سامنے والا آدمی آپ سے تعریفی کلمات کی امید رکھے تو اس کی امید کو پورا کریں بلکہ اس کی توقعات سے زیادہ اس کی امیدوں پر پورا اتریں۔ اسی طرح اگر آپ کو سامنے والے شخص میں کسی طرح کی اداسی یا بیزاری کے اثار نظر آئیں تو اس کی کسی بھی حوالے سے تعریف کردیں۔ اگر آپ کو تعریف کی کوئی خاص وجہ نہ بھی ملے تو کوئی وجہ خود بنا لیں، اس طرح اس کی بیزاری یا اس کی اداسی کچھ دیر کے لئے دور ہو جائے گی اور وہ دل سے خوشی کو محسوس کرے گا۔ یاد رکھیں دوسروں کو خوشی دینے والا خود بھی خوش اور مطمئن زندگی گزارتا ہے۔ 

••••••••••••••••••••••••••••••••••••

خلاصہ کلام یہ ہیکہ آج کچھ اپنوں نے میرے زندگی کا وہ پہلو سدھارا جس پر میری نظر یا سونچ نہیں پہونچی ۔ اللہ ان لوگوں کو سدا خوش رکھے ہرمصیبت وپریشانی سے  بچائے ۔آمین ثم آمین


بس میں ان لوگوں کے تعریف میں اتناہی لکھ سکتا ہوں مہمان کی عزت اور کسی ایسے انسان کواپنا بنا لینا جس کو جانتے نہ ہوں کمال کی سمجھ اور فہم اللہ نے عطاکی ہے ۔ عقل مندوں کیلئے اتنا ہی اشارہ کافی ہے۔ کیونکہ قلم لکھ نہیں سکتا جوبھی لکھوں کم ہے ان لوگوں کے لئے۔ جس ماں باپ نے ان لوگوں کی پرورش کی ہمے بھی ویسے والدین اللہ عطا کرے۔آمین


آج بھی اترے ہیں ہونٹوں پر دعاؤں کے ہجوم

دل کی تختی پر حروف معتبر بھی دے مجھے


جو خوشی تمھارے قریب ہو ، وہ صدا تمھارے نصیب ہو

تجھے وہ خلوص ملے کہ جو، تیری زندگی پہ محیط ہو


جو معیار تجھ کو پسند ہو ، جو تمھارے دل کی امنگ ہو

تیری زندگی جو طلب کرے، تیرے ہمسفر کا وہ رنگ ہو


جو خیال دل میں اسیر ہو ، ہر دعا میں ایسی تاثیر ہو

تیرے ہاتھ اٹھتے ہی یک بیک، تیرے آگے اسکی تعبیر ہو


تجھے وہ جہاں ملے جدھر ، کسی غم کا کوئی گذر نہ ہو

جہاں روشنی ہو خلوص کی ، اور نفرتوں کی خبر نہ ہو ​


خدا ان تمام لوگوں کو سلامت رکھے اور ان لوگوں کے تمام جائزمقاصد حسنہ میں باعزت کامیابی عطاکر ۔


دعاؤں کا طالب آپ کا اپنا

✍انظرالاسلام راہی

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی