*{ماہ صفرکی حقیقت بدعات و خرافات}*

  •  *•┈━━━•❂❄︎•📚﷽📚•❄︎❂•━━━┈•*


  • *•┈┈•◈◉❒  اصلاحی مضامین  ❒◉◈•┈┈•*


  • *✍🏻 :- محمد آصف حسامی دیناجپوری* (بانی گروپ مطالعاتی انعامی مقابلہ) 
  • *{ماہ صفرکی حقیقت بدعات و خرافات}*

      ہجری و اسلامی کیلنڈر کے اعتبار سے ماہ محرم الحرام کے بعد ماہ صفر کا آغاز ہوتا ہے، اور یہ تمام مہینے اللہ رب العزت کی طرف سے مقرر کردہ ہیں، چنانچہ اللہ رب العزت نے اپنی مقدس کتاب میں ارشاد فرمایا : ”بیشک اللہ تعالی کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے، اللہ تعالی کی کتاب میں جس دن سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا فرمایا“. *(سورہ توبہ :- آیت نمبر : 36)* اس آیت سے یہ بات اظہر من الشمش ہو جاتی ہے  کہ مہینوں کی تعداد اللہ کے علاوہ دیگر کسی مخلوق کا بنایا ہوا نہیں۔

*ماہ صفر کی وجہ تسمیہ :-* صفر عربی زبان کا لفظ ہے، اس کے کئی معانی آتے ہیں، جن میں چند یہ ہیں۔

*(1)* پیٹ کے کیڑے یا سانپ. *(لمعات التنقیح شرح مشکات المصابیح : 7/527)*

*(2)* یرقان کی بیماری. *(المعجم الوسیط : 638)*

*(3)* خالی ہونا. 

یہی تیسرا معنی زیادہ معروف ہے، نیز علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز کتاب تفسیر ابن کثیر میں ماہ صفر کی وجہ تسمیہ کو بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ اہل عرب جنگجو قوم تھی، اور حرمت والے ماہ میں وہ جنگ و جدال سے باز رہتے تھے، جب ماہ محرم ختم ہوتا تو وہ جنگ کے لئے نکل پڑتے تھے، اس وقت ان کے مکان خالی ہوتے تھے، اسی مناسبت سے اس ماہ کو *”صفر“* کہا جانے لگا۔ *(تفسیر ابن کثیر اردو سورہ توبہ آیت نمبر : 36)* اور شریعت اسلامیہ میں اس ماہ کو صفر اس لئے کہاں جاتا ہے کہ یہ ماہ گناہوں اور دیگر رسومات سے خالی رہے۔

*انسانی فطرت :-* انسان کی فطرت و عادت ہے کہ انسان دوسروں کو دیکھ کر بہت جلد متاثر ہوتا ہے، اور یہ تاثر تو کبھی اپنے آباد و اجداد کے رسم و رواج سے سیکھتا ہے، اور کبھی سماج و معاشرے میں پھیلے ہوئے طور و طریق سے سبق حاصل کرتا ہے، اور کبھی اپنی جہالت و ناواقفیت کی سے اپنی ذہن میں دین سمجھ کر بے جا رسم و رواج کو سمیٹ لیتا ہے، اور اس پر اتنا گامزن ہوتا ہے کہ اس کے برخلاف کرنے کو گناہ عظیم کا مرتکب گردانتے ہیں، اور جو لوگ ان رسم رواج پر عمل نہیں کرتے ان پر لعن طعن سے بھی گریز نہیں کرتے، اور پھر اپنی زندگی کو ان ہی بیجا خیالات اور رسم ورواج کے محو کر دیتے ہیں، بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل اہل عرب کے یہاں بدشگونی، بدفالی و توہم پرستی کا دور دورہ تھا، وہ لوگ دوکان مکان شب و روز اور دیگر چیزوں میں نحوست سمجھتے تھے، اور ماہ صفر کو منحوس تصور کرتے تھے، اس ماہ کے اندر مصائب و پریشانی آفات و بلیات کے اترنے کے معتقد تھے، ان کے یہاں تیر کے ذریعہ فال نکالنا بہت ہی ضروری و اہم سمجھاجاتا ہے، لوگ اسی پر اعتماد کر کے سفر وغیرہ کرتے تھے، اور کبھی احتراز کرتے تھے، ان کی یہ قبیح رسم و رواج اتنا معتدی ہوا کہ اس زمانے کے لوگ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے، چونکہ جوں جوں لوگ اسلام سے نا واقف ہوتے گئے اسلامی تعلیمات کو فراموش کرنے لگے، غیروں کے تقربیات میں خوشی خوشی  شرکت  کرنے لگے، تو پھر یہ ہوا کہ مسلمان اپنی شناخت کو بھول گئے، اور مذہبی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا، عقیدگی کی پختگی کم ہوتی گئی، جس بناء پر رسم و رواج  ان کے ذہنوں میں پیوست ہو گئے، مشرکانہ عقائد و جاہلانہ رسم ورواج ان کو اچھے لگنے لگے، پھر نوبت یہاں تک آ گئی کہ اہل عرب کا جو ماہ صفر کے متعلق منحوس ہونے، آفات وبلیات کے نازل ہونے، بیماریوں کے متعدی ہونے کا عقائد و نظریات تھے وہی عقائد و نظریات مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی پیوست ہو گئے، اور اسی کو حقیقت سمجھ کر عمل کرتے ہیں جو کہ قابلِ افسوس بات ہے۔

*نحوست اسلام  کی نظر میں :-* نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل عرب کے ان مشرکانہ عقائد اور رسم و رواج کی بیخ کنی کی، اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں واضح کر دیا کہ ماہ صفر کے معتلق جو عقائد اور باتیں گھڑ لی گئی ہیں اسکی کوئی حقیقت نہیں ھے، اسلام میں اس قسم کی واہیات اور فاسد خیالات کے لئے کوئی جگہ نہیں، بلکہ ماہ صفر بھی دیگر ماہ کی طرح بابرکت ہے، اور ماہ صفر کے متعلق ایسا عقیدہ رکھنا کہ یہ منحوس ہے اس میں بلاؤں اور آفتوں کا نزول ہوتا ہے توحید کے منافی ہے، بلکہ آفت وغیرہ کا نزول بحکم خداوندی ہے، اس میں کسی چیز کا کوئی دخل نہیں ہوتا، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ  علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بیماری میں تعدیہ (ایک کی بیماری دوسرے کو لگ جانا) بدشگونی، ہامہ اور صفر اسکی کوئی حقیقت نہیں۔ اور دوسری روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ *(1)* بیماری کا متعدی ہونا. *(2)* مردہ کی کھوپڑی سے الو کا نکلنا. *(3)* چاند کی منازل کا بارش میں علت ہونا. *(4)* صفر کا منحوس ہونا اسکی کوئی حقیقت نہیں، اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ *(1)* مرض کا متعدی ہونا. *(2)* صفر کا نحوست والا ہونا. *(3)* بھوت پریت کا ہونا ان باتوں کی کوئی حقیقت نہیں۔ *(مشکات المصابیح کتاب الطب و الرقی الفصل الاول)* ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ماہ صفر کو منحوس سمجھنا بالکل ہی لغو خیالات ہیں اور ماہ صفر کے منحوس ہونے کا عقیدہ رکھنا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف اس عیب کی نسبت کرنا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی نامناسب بات کی نسبت کرنا بڑا گناہ ہے، کیوں کہ اللہ ہی مہینوں کا خالق ہے، اسی لئے احادیث مبارکہ میں زمانہ کو برا بھلا کہنے سے منع کیا گیا، چنانجہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کہا بنی آدم زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہی ہوں، رات اور دن میرے ہی قبضہ میں ہے. *(صحیح بخاری باب لاتسبواالدھر)*

*تیرہ تیزی عوام کی نظر میں :-* عوام الناس کا یہ عقیدہ ہے کہ ماہ صفر کے ابتدائی تیرہ دن بہت ہی منحوس ہے، اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ کے ابتدائی دنوں میں بیمار ہوئے، اور لوگوں نے غالباً اسکو تیرہ تیزی کا نام اس لئے دیا کہ تیز کے معنی سختی اور پریشانی کے ہیں. 

لوگوں کے عقیدے کے مطابق آپ ﷺ بیمار ہوئے، آپ بیمار ہوئے یا نہیں اس کا پتہ تاریخ سے چلے گا، جب تاریخ کے اوراق کو گردانتے ہیں تو اس بارے میں کوئی صراحت نہیں ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ صفر کے ابتدائی ایام میں بیمار ہوئے، البتہ دو قول ایسے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ کی بیماری کا پتہ چلتا ہے، ایک قول کے مطابق ماہ صفر کے آخری ایام اور ماہ ربیع الاول کے ابتداء میں بیمار رہے، اور اسی مرض میں آپ اس دنیا سے رحلت کر گئے، اور دوسرے قول کے مطابق ماہ ربیع الاول کے ابتدائے ایام میں بیمار رہے، اور اسی بیماری میں آپ اس دنیا کو چھوڑ کر مولائے حقیقی سے جا ملے۔

ماہ صفر کے ابتدائی ایام کے منحوس ہونے کے لئے جو دلیل بیان کی جاتی ہے اس کی ذرہ برابر بھی حقیقت نہیں، جب دلیل ہی بے بنیاد ہو تو پھر اس پر جو عمارت کھڑی کی گئی وہ کیسے قائم رہ سکتی ہے؟ لہٰذا معلوم ہوا کہ تیرہ تیزی ایسی بدعت ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔

*ماہ صفر کا آخری چہارشنبہ :-* ماہ صفر کے آخری چہارشنبہ کے متعلق لوگوں میں مشہور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں غسل صحت فرمایا، اور سبزے (گھومنے) کے لئے تشریف لے گئے، اور عوام الناس اسے صحیح سمجھ کر اس دن مختلف قسم کی بدعتوں میں مبتلا ہیں، لوگ اس دن گھومنے جاتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں، مخصوص طریقہ پر نماز پڑھتے ہیں، اور بھی بہت سے کام کو دین سمجھ کر انجام دیتے ہیں، حالانکہ یہ تمام چیزیں بدعت ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہرگمراہی جہنم میں لے جانے والی ہیں. *(رواہ مسلم )* لوگوں میں جو آپ صلی اللہ وسلم کے متعلق غسل صحت کی بات مشہور ہے وہ غلط ہے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن بیماری میں مبتلا ہوئے، جیسا کہ اوپر کی بات سے واضح ہے، بلکہ دشمنان اسلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پروپیگنڈہ کر کے لوگوں میں غلط بات مشہور کر دیں، اور ہم مسلمان اسی کو صحیح سمجھ کر خوشی مناتے ہوئے دشمنوں کی خوشی کو دو بالا کرتے ہیں، یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم لوگ تحقیق کے بجائے خود کے ذہن و خیالات پر بھروسہ کر کے عمل کر رہے ہیں۔

*ماہ صفر کے متعلق ایک روایت کی تحقیق :-* ماہ صفر کے متعلق ایک روایت بہت ہی زیادہ گردش کر رہی ہے کہ : *«من بشرنی بخروج صفر بشرتہ بالجنہ»* (جو شخص مجھے ماہ صفر کے ختم ہونے کی خوشبخری دے گا میں اسکو جنت کی بشارت دونگا) یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے، اسکی کوئی حقیقت نہیں ہے، لہٰذا اسکو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے  بیان کرنا جائز نہیں، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی باتوں کو منسوب کرنا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا، اس کے لئے احادیث مبارکہ میں وعید آئی ہے،  بخاری شریف کی روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  ”میرے اوپر جھوٹ بولنا کسی عام شخص پر جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے، جو شخص جان بوجھ کر میری جانب جھوٹی بات منسوب کرے تو اس کو چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے“۔  *(بخاری شریف: ۱۲۰۹)*

*ماہ صفر میں شادی کرنا :-* شریعت میں جس طرح دیگر ماہ و شہور، دن و شب میں شادی کرنا درست ہے اسی طرح ماہ صفر میں بھی شادی کرنا درست ہے، عوام الناس میں جو یہ مشہور ہے کہ ماہ صفر میں شادی کرنے یا کسی اچھے کام کو انجام دینے سے وہ پورا نہیں ہوتا، ناقص رہتا ہے، صحیح نہیں ہوتا، یہ سب غلط باتیں ہیں، اسکی کوئی حقیقت نہیں، بہت سارے کام صحابہ تابعین و تبع تابعین نے اسی ماہ صفر میں انجام دیا ہے۔

*عجیب فلسفہ :-* انسان تو ماہ صفر میں حیوانات وغیرہ میں منحوسیت کا تصور کرتا ہے، لیکن کبھی خود اپنے گریباں میں جھانک کر نہیں دیکھتا، اپنے اعمال کی طرف نظر نہیں کرتا، حالانکہ معاشرے میں برائی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، رشتے پامال ہو رہے ہیں، حسد و کینہ عروج پر ہے، اخوت و مودت بالکل فرسودہ ہو چکا ہے، اخلاق کا جنازہ نکل چکا ہے،  جب کہ نحوست ہمارے بداعمالی و بدکرداری کی ہے جیساکہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : ”تری اور خشکی میں جو فساد ظاہر ہوتا وہ لوگوں کے ہاتھوں کی وجہ ہے“. *(سورہ روم آیت : 41)* لہٰذا یہ معلوم ہوا کہ اصل نحوست بد اعمالی اور بداخلاقی کی وجہ سے ہے، اب ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عبادات و معاملات کو درست کریں، معاصی و منکرات کو ترک کریں، بے حیائی کا سدباب کریں، اخلاق کا جائزہ لیں، اور اپنے آپ کو شریعت کے مطابق سنوار کر زندگی گزاریں۔

*خلاصہ کلام :-* خلاصہ یہ ہے نحوست کسی چیز میں نہیں ھے بلکہ انسان جو وقت اللہ کی نافرمانی میں گزارتا ہے وہ وقت اسکے لئے نحوست بن جاتا ہے، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم معاشرے و سماج سے رسم رواج کو ختم کریں، اور شریعت مطہرہ کی روشنی میں اپنی تعمیر حیات کو سنواریں۔

اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے. (آمین)

*≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈≈*

*(نوٹ) اس قسم کی عمدہ تحریر اور بہترین مضامین کے لئے واٹس ایپ پر رابطہ کریں :*


*https://wa.me/+918790203776*

*🥏_______________________________🥏*


                    🥀 *منجانب* 💫


♣️   *منتظمین مطالعاتی انعامی مقابلہ*   ♣️

*•┈┈•◈◉❒   📚✍🏻📝📚   ❒◉◈•┈┈•*

مقالات و مضامین 

کاروان علم_ karwaneilm

mdalij802@gmail.com


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی