حضرت الاستاذ امینی رح سے وابستہ پر خلوص و پر لطف یادوں کا حسیں تسلسل

 *ایک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے!*

*تیسری قسط*‌

از:اعجاز الحق خلیل شمس پوری سہارنپوری

*حضرت الاستاذ امینی رح سے وابستہ پرخلوص و پرلطف یادوں کا حسیں تسلسل* 

ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ جو کچھ بھی تحریر کررہا ہوں در اصل حضرت ہی کا تذکرہ ہے؛ اگر خواہی نہ خواہی احقر کا تذکرہ آئے تو یہ بھی حضرت ہی کا تذکرہ ہوگا، بقول حضرت الاستاذ مولانا امینی رح: کہ کسی بڑے انسان کے تذکرے میں خواہی نہ خواہی اپنا تذکرہ بھی شامل ہوہی جاتا ہے، خدا بہتر جانتا ہے کہ بر بنائے خود ستائی نہیں ؛بل کہ یہ کسی بڑے انسان کے تذکرے ہی کا ایک ناگزیر حصہ ہوتا ہے، اس لیے میری ملاقاتوں اور ان سے وابستہ یادوں کا تذکرہ بھی در حقیقت حضرت ہی کا تذکرہ ہے ۔ 

آپ کے حکم اور کرم نوازی سے آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوگیا، آپ ہفتہ یا پندرہ دن میں ایک بار ملاقات کا موقع ضرور فراہم کرتے، اکثر و بیشتر یہ موقع جمعرات کے دن عصر کے بعد میسر آتا تھا، جوں جوں تعلقات مستحکم ہوتے گئے تکلفات کا پردہ چاک ہوتا چلاگیا،ایک دن وہ بھی آیا کہ آپ بلا جھجھک ہر طرح کے تبصرے اور تجزیے اور اپنے اندر چھپے درد کا اظہار، گھریلو حالات و واقعات کو راقم الحروف کے سامنے ایسے ظاہر کرتے تھے جیسے کوئی اپنے بہت ہی خاص ہم راز، ہم نوالہ ہم پیالہ ہم حوالہ کے سامنے ظاہر کرتا ہے، اور آپ کو تعجب ہوگا یہ سن کر کے اور یہ حضرت الاستاذ کی ہی عنایت بے نہایت تھی کہ آپ نے بہت مرتبہ احقر سے  تقریباًآدھے آدھے گھنٹے تک فون پر گفتگو فرمائی، حالانکہ اوپر ذکر کردہ دونوں چیزیں آپ کے مزاج اور غیرت کے بالکلیہ منافی تھی ؛لیکن آپ کی مجھ پر شفقت و محبت اس درجہ بڑھی ہوئی تھی کہ آپ بسا اوقات فرماتے تھے کہ : تم اور دار العلوم دیوبند میری دعائے نیم شبی کا حصہ بنتے ہو، میں تمہارے لئے تہجد میں دعا کرتا ہوں، ظاہر ہے یہ  چیز میرے لیے کس قدر  فرحت بخش لذت انگیز اور مسرت آمیز   تھی  اور مجھے جس چیز کا سب سے زیادہ قلق ہے، وہ یہی ہے کہ میں نے ایک محض مخدوم کو نہیں کھویا ؛ بل کہ اپنی زیست کا انمول غمگسار کھویا ہے ،جو آداب سحرگاہی میں بھی مجھ جیسے بے بضاعت، حقیر پر تقصیر کو نہیں بھولتے تھے, آج علامہ اقبال کا یہ شعر رہ رہ کر ان کی یاد دلارہا ہے.... 

     *خاک مرقد پر تیری لے کر یہ فریاد آؤں گا* 

 *اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آؤں گا* 

راقم الحروف کو بہت سے اکابر کی خدمت کا  بھر پور موقع میسر آیا؛ لیکن جو اصلاحی پہلو اور تعلق نبھانے والی بات حضرت الاستاذ مولانا امینی رح کے یہاں پائی ہے وہ کسی اور جگہ اس درجہ نہیں پائی؛اب تو بس ان کے تذکروں سے دل ہی بہلاسکتے ہیں ،آپ کا وہ شعر مجھے اس وقت یاد آرہا ہے جو آپ نے بارہا مجھے سنایا ہے...

  *جسم تو جسم ہے یہ خاک میں مل جاتا ہے* 

 *تم بہ ہر حال کتابوں میں پڑھوگے ہم کو* 

ایک شعر اور ہے جسے آپ نے کئی مرتبہ گوش گزار فرمایا، جو ذہن میں ہے وہ رقم کیے دیتا ہوں... 

   *منزل پہ پاکے مجھ کو حیراں تو سب ہویے*

 *لیکن ہمارے پاؤں کے چھالے نہیں دیکھے* 

آپ کا ذوق انتخاب واقعی بڑا لاجواب تھا، جو شعر یا غزل آپ کو پسند آتی آپ اس کو اپنی ڈائری میں نہ صرف محفوظ رکھتے تھے ؛ بل کہ یاد کرکے بر محل ان کا استعمال بھی فرماتے تھے،آپ کا ذوق انتخاب اشعار تک محدود نہ تھا ؛ بل کہ کتابوں کے نام وضع کرنے یا کسی شخصیت پر مختصر تبصرہ یا کسی چیز کا تجزیہ فرماتے تو عموماً ایسے الفاظ کا جامہ پہناتے تھے جو ذومعنین ہوتے تھے، اور ایسا اسلوب جمیل اختیار فرماتے کہ سننے والا سر دھنتا نظر آتا تھا، ایک مرتبہ مفتی عبد اللہ ص معروفی استاذ حدیث دار العلوم دیوبند  دار الحدیث قدیم کے سامنے ملاقات کے لیے آگے بڑھے، احقر رکشا میں حضرت الاستاذ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، سردی کے تعلق سے بات نکلی تو آپ نے مولانا معروفی ص کی ہیئت کذائیہ کو دیکھتے ہوئے کہ وہ خوب گرم کپڑوں میں لپٹے ہوئے تھے گویا ہویے کہ : آپ نے تو سردی کے خلاف مسلح بغاوت کر رکھی ہے، مولانا معروفی ص ہنس پڑے، 

اسی طرح ایک مرتبہ معمول کے مطابق راقم الحروف آپ کو لینے کے لیے آپ کے آستانے پر حاضر ہوا، میرے بال ٹوپی سے کافی باہر نکلے ہوئے تھے، آپ نے دیکھ کر ساجد اعتبار کی غزل کا ایک شعر پڑھا... 

   *رخ پہ لہراتی ہے شانوں سے الجھ پڑتی ہے*

   *تم نے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے* 

اس کے بعد آپ نے مکمل غزل سماعت کے حوالے فرمائی  جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے ۔ 

تو آپ کی اکثر تعبیرات یا کتابوں کے نام رکھنے میں جو ذوق انتخاب آپ عمل میں لاتے تھے، وہ اکثر ذومعنین ہی ہوتا تھا، یا پھر اس میں پوشیدہ کسی تاریخی داستان یا واقعات کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہوتا تھا، جیسے *وہ کون کن کی بات گئی کون کن کے ساتھ* 

اس کا یہی مصرعہ حد شہرت کو پہنچا ہوا ہے اور دوسرا بالکل معدوم ہے۔ 

 *یادش بخیر* ٢ صفر المظفر ٣٨ ھ  ٣ نومبر ۲۰١٦ ء جمعرات کا دن تھا، احقر معمول کے مطابق حضرت کی خدمت میں حاضر تھا، اس مجلس میں چند باتیں سامنے آئیں، جن میں سے کچھ ذکر کیے دیتا ہوں۔ 

بات کی ابتداء یہاں سے ہوئی تھی کہ آپ کی آنکھوں سے اکثر اوقات پانی بہتا رہتا تھا، آپ نے اسی سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا :کہ میری آنکھوں کا آپریشن دوسال  قبل عمل میں آیا تھا؛لیکن مرض جوں کا توں ہے، اسی کے ضمن میں  مزاحی انداز میں بیان فرمایا :کہ فلاں صوبے کی عوام سے جھوٹا کوئی نہیں ہوگا،میں نے بہت تتبع کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے، اور اس میں عوام تو عوام !خواص بھی داخل ہیں،بڑے بڑے تہجد گزار اور شب بیدار شامل ہیں؛ اگرچہ شیطنت "یوپی"، بہار"میں بھی ہے لیکن وہ دوسرے طریقے کی ہے اور فرمایا :کہ ان کی گردن کے نفی اور اثبات میں بہت باریک فرق ہے، جس کو ہم اور آپ محسوس نہیں کرپائیں گے، لیکن وہ کرلیں گے۔ 

اس کے بعد چائے کا دور چلا، جو آپ کے یہاں کا معمول تھا، خواہ طالب علم ہو یا استاد ہو ، چائے ضرور پلاتے تھے، اور چائے کے ساتھ وائے کا تکلف ضروری تھا، چنانچہ بسکٹ وغیرہ بھی لائے گیے،اتفاق اس روز ایک اور طالب علم اس بزم کے شریک تھے، وہ بسکٹ چائے میں ڈبو کر اور بھگو کر کھارہے تھے، حضرت الاستاذ جو اس طرح کی چیزوں پر عقابی نظر رکھتے تھے اس کو توجہ دلاتے ہوئے فرمانے لگے :کہ ایسے نہیں کھاتے، بل کہ ہمیں مولانا وحید الزماں صاحب رح نے اس طرح سکھایا :کہ پہلے آدھا بسکٹ منھ میں رکھ لو! پھر اس کے اوپر ایک گھونٹ چائے کی پیو! اور چائے پیتے وقت کسی بھی طرح کے سر  یا آواز سے آپ کو نفرت تھی، کہتے :کہ یہ بھی خلاف ادب اور عدم سلیقہ کی بات ہے ، پھر فرمایا: کہ مولانا وحید الزماں رح فرماتے تھے :کہ خالی چائے بھی کوئی چائے ہے، اس کے ساتھ کچھ کھانے کا بھی ہونا چاہیے، ان ذکر کردہ تینوں امور میں  میں نے کبھی تخلف نہیں دیکھا ۔ 

یہ بات تو اس مجلس کا ابتدائیہ تھی، اصل جو بات ذکر کرنی ہے ، وہ یہ ہے کہ اسی مجلس میں میں نے حضرت سے سوال کیا کہ :وہ کوہ کن کی بات گئی........ اس کے دوسرے مصرعہ میں کامیابی ملی یا نہیں،آپ نے فرمایا : کہ بہت ورق گردانی کی اور بلند قامت اساتذہ سخن سے رابطہ کیا لیکن راہ یاب نہ ہوسکا، پھر زیر لب تبسم کے ساتھ فرمایا : کہ بہت سے ایسے اشعار ہیں جن کا ایک مصرعہ زباں زد ہوجاتا ہے، اور دوسرا مصرعہ گمنامی کی وادی میں متاع گم شدہ بن جاتا ہے،کہ سماعت و بصارت اس سے گویا ہمیشہ کے لیے محروم ہوجاتی ہے،پھر اپنا ایک واقعہ سنایا......

مقالات و مضامین

mdalij802@gmail.com

*جاری*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی