تفسیر ہدایت القرآن مفسر مفتی سعید احمد پالن پوری نور اللہ مرقدہ سابق شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند

 #تفسیر_ہدایت_القرآن

● مفسر: حضرت مولانا #مفتی_سعید_احمد_صاحب_پالن_پوری نور اللہ مرقدہ سابق شیخ الحدیث و صدر المدرسین دار العلوم دیوبند


● تعارف نگار: ڈاکٹر مولانا اشتیاق احمد قاسمی، استاذ دار العلوم دیوبند 


    قرآن مجید اللہ رب العالمین کا آخری پیغام ہے، اس کا مخاطب ہرانسان ہے، اس کے مضامین کا ایک سِرا عرش سے ملا ہوا ہے تو دوسرا فرش سے، عرش والے مضامین کو فرش پر لانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، ہر مفسر اپنی حد تک قرآن پاک کو سمجھاتا ہے کسی کا انداز بیان قبولِ عام حاصل کرتا ہے تو کسی کا مضمون خواص تک محدود ہوکر رہ جاتا ہے، کامیاب مفسر وہ ہے جس کی بات سب کو سمجھ میں آ ئے، جو عرشی (مشکل) مضامین کو بھی فرشی (آسان) بناکر پیش کرے۔ #تفسیر_ہدایت_القرآن کے مفسر کو اللہ رب العالمین نے اپنی آیات اور اپنے محبوب کی سنتوں کی تشریح و تبیین کے لیے منتخب فرمایا ہے، مشکل مضامین کو آسان کرکے پیش کرنا آپ کا امتیازی وصف ہے، اس تفسیر میں بھی آپ کا انداز بیان نہایت ہی شستہ اور شگفتہ ہے، الفاظ و تعبیرات کا انتخاب پُرکشش ہے، پہلے مفردات کا کالم بناتے ہیں، ہر لفظ کے سامنے دوسرے کالم میں اس کا معنی لکھتے ہیں پھر ربط آیات لکھ کر، عنوان لگاکر، رواں دواں اور سُبک تعبیرات میں تفسیر سمجھاتے ہیں پھر آیات کا بامحاورہ ترجمہ کرتے ہیں، مغلق کی وضاحت؛ مشکل کو آسان اور غیر مربوط جملوں کو مربوط کرنے کے لیے جملوں کے درمیان قوسین میں اضافہ بھی کرتے ہیں اور بعض جگہوں پر اخیرمیں کوئی #قولِ_زریں لکھ دیتے ہیں، اس ایک جملہ میں آیات کے مضمون کی روح ہوتی ہے، قاری اس جملہ کو مکرر پڑھنے پر مجبور ہوتا ہے۔


کسی بھی سورہ کے شروع کرتے ہوئے پہلے سورہ کا نام، نمبر شمار، نزول کا نمبر، مکی اورمدنی کی صراحت، رکوع اور آیات کی تعداد لکھتے ہیں، پھر پوری سورت میں پھیلے ہوئے مضامین کا خلاصہ تحریر فرماتے ہیں؛ تاکہ قاری پہلے بہ یک نظر ان مضامین سے اجمالی طور پر واقف ہوجائے، پھر شانِ نزول لکھ کر ایک مضمون کی آیات لکھتے ہیں؛ تاکہ قاری تلاوت کرکے تفسیر سمجھنے کا موڈ بنائے، پھر مفردات کے ساتھ کچھ حواشی تحریر فرماتے ہیں جن میں لغات، اعراب اور ترکیب کی وضاحت ہوتی ہے، یہ حواشی طلبہ اور علماء کے لیے ہیں؛ جن میں ہر اس پیچیدگی کا حل ہوتا ہے جو طالب علم کے ذہن میں آتی ہے، تفسیریں تو بہت ہیں؛ مگراس انداز کا مختصرحاشیہ جس میں اس خاص پہلو کو ذہن میں رکھا گیا ہو تبصرہ نگار کی نگاہ میں نہیں ہے، حیدرآباد میں جلالین شریف پڑھاتے ہوے اور دارالعلوم دیوبند میں ترجمہٴ قرآن پڑھاتے ہوے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوا، مطالعہ کے بعد طبیعت پھڑک اٹھتی ہے اور بے اختیار زبان مفسر کو دعا دینے لگتی ہے اور لوحِ تفسیر پر لکھا ہوا جملہ برمحل صادق آنے لگتا ہے کہ: 

#ان_شاء_اللہ_یہ_تفسیر_آپ_کوقرآن_کریم_سے_بہت_قریب_کردے_گی 


 قاضی انوار الہی صاحب مد ظلہ صاحب کے اصرار پر حضرت الاستاذ مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمہ اللہ نے کام شروع فرمایا، یہ کام چلتا رہا؛ لیکن سورۃ المومنون (پانچویں جلد) پر جاکر رکھ گیا۔ یہ وقفہ طویلہ اتنا لمبا رہا کہ اس درمیان میں #حجة_اللہ_البالغہ  کی شرح پانچ جلدوں میں، #ترمذی_شریف کی شرح آٹھ جلدوں میں اور #بخاری_شریف کی شرح بارہ جلدوں میں پوری ہوئی اور چھوٹی چھوٹی چند کتابیں لکھی گئیں، پھر اللہ رب العالمین نے توفیق ارزاں فرمائی، چھٹی جلد کا کام شروع ہوا اور یہ بہت اچھا ہوا کہ اسرارِ شریعت اوراحادیثِ نبویہ پر تفصیلی اور گہری نظر ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کا کام شروع کروایا؛ چنانچہ چھٹی جلد کے نصف سے تفسیر کا نہج قدرے تبدیل ہوا، ہر مضمون کے لیے ”عنوان“ کا اضافہ فرمایا، ساوتیں جلد میں اور بھی نکھار پیدا ہوا؛ پہلے آیت کا مضمون پھر ترجمہ پھر عبارة النص کے مطابق تفسیر اور ”فائدہ“ کے عنوان سے اشارة النص اور دلالة النص کو ذکر کرنے لگے۔


اس تفسیر کی بہت بڑی خصوصیت ربطِ آیات ہے، اکثر جگہوں پرمفسر مدظلہ نے محض اپنی قوتِ تدبر سے ربط بیان فرمایاہے کہ کہیں بھی ترتیب ٹوٹتی ہوئی نظر نہیں آتی، اس کے علاوہ آپ نے بخاری شریف میں بھی ربط وترتیب پر بے مثال گفتگو فرمائی ہے۔ راقم الحروف کو اس تفسیر میں یہ بات بہت پسند آتی ہے کہ آپ دوٹوک انداز میں ایک بات بیان فرماتے ہیں، ”اگرمگر“ اور ”قیل قال“ کے جنگل میں قاری کو نہیں لے جاتے، ہزاروں صفحات لکھنے کے بعد زبان کا معیار بھی کافی بلند، شستہ اور شگفتہ ہے، متروک الفاظ وتراکیب سے بالکل پاک وصاف انداز،زوائد سے منزہ ومبرا جملے بڑا لطف دیتے ہیں۔ اگر مثالیں دی جائیں تو مضمون طویل ہوجائے گا، قارئین پڑھیں اور سردُھنیں، نور وبشر کی بحث اَوَّلُ ما خلق اللّٰہ نوري کی تحقیق، سایہٴ نبوی کا ثبوت (۵/۲۴۴-۲۴۶)، یاجوج وماجوج کے بارے میں بے سروپا روایات کی تحقیق (۵/۲۳۱-۲۳۷) قیامت کے دن اعمال کے تلنے والی بحث(۳۹۸) سورۂ نور کی بے نظیر تفسیر، اتنی عمدہ اور ایک مرکزی عنوان میں داخل کہ قاری عش عش کرنے لگے۔

الحمدللہ! آٹھ جلدوں میں تفسیر پوری ہوئی؛ لیکن حضرت نے غور فرماکر دوبارہ اسے ازسرنو لکھنا شروع فرمایا، چودہویں پارہ تک اسی نہج پر مکمل فرمایا جو آپ نے بعد میں اپنایا، اس میں عوام کے ساتھ اور علماء کی بھی رعایت ہے؛ چنانچہ نئی جلدیں طباعت سے آراستہ ہوگئی ہیں۔ نئی جلدوں میں آیات کی مقدار پچھلی جلدوں کی طرح برابر ہے؛ تاکہ جو قاری نئی لینا چاہے لے لے اور جو پرانی لینا چاہے لے لے، کمی بیشی نہ ہو۔ اس میں ربطِ آیات کو واضح فرماکر آپ نے عناوین لگائے ہیں، اس انداز کو پڑھ کر قرآنِ پاک نہایت ہی مرتب معلوم ہونے لگتا ہے، مثلاً حضرت نے جو عناوین لگائے ہیں وہ یہ ہیں، سورہ بقرہ میں ”ہدایت، توحید، رسالت، آخرت، بنواسرائیل، بنو اسماعیل، تحویلِ قبلہ، ردِشرک، اعمالِ اسلام، حج، نماز، پچیس احکام ”جو خاص مصالح پر مبنی ہیں، جہاد“ وغیرہ اس کے حواشی، مفردات کے معانی اور بھی عمدہ ہیں، ایک خاص بات یہ ہے کہ آپ اقوال اور عبارت آرائی میں قارئین کو نہیں اُلجھاتے، تفسیر کا جو احتمال اختیار کرتے ہیں اسے قطعیت کے ساتھ لکھتے ہیں، دل گواہی دینے لگتا ہے کہ اس کا صحیح ترین مفہوم یہی ہے.

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی