ادیب العصر مخدوم مکرم مولانا نور عالم خلیل امینی رح قسط دوم

 *ایک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے!*

*ادیب العصر مخدوم مکرم مولانا نور عالم خلیل امینی رح*

قسط دوم 

از : *اعجاز الحق خلیل شمس پوری سہارنپوری*

*مولانا سے میری دید و شنید*

راقم الحروف کو دار العلوم دیوبند کے روحانی اور ربانی ماحول میں قدم رکھے ہوئے دوسال کے قریب ہونے کو تھے، رفتہ رفتہ چنیدہ عبقری شخصیات سے  وابستگی اور دل بستگی کا سلسلہ رواں دواں تھا اور احقر کو جب بھی اور جہاں کہیں بھی خدمت کا موقع یا استفادہ کی کوئی راہ مفتوح نظر آتی تو بہ خوشی اس کا استقبال کرتا، اسی سلسلہ کی ایک خوبصورت دائمی خوش گوار تعلقات اور حسیں یادوں اور ملاقاتوں کی سنہری کڑی حضرت الاستاذ مولانا نورعالم ص خلیل امینی رح سے وابستہ ہے ۔ 

غالباً ۲۰١٥ کی بات ہے، میرے مشفق و مکرم استاد محترم مفتی محمد ساجد صاحب کھجناوری جو ہمارے عزیز بھی ہیں، اور دل کے قریب بھی ہیں، اور جو میدان صحافت کے تکان ناآشنا ایک بہترین شہ سوار، اردو ادب کے ہنرمند اور ہوش مند قلم کار اور قلم کارگر ہیں، جن سے احقر کو بھی ایک سال اردو زبان کی نوک پلک اور اصلاح و درستگی کا موقع میسر آیا اور آج بھی قدم بہ قدم اصلاح فرماتے رہتے ہیں،مفتی ص کے اشہب قلم سے بہت سے نقوش و تحریرات منظر عام پر جلوہ گر ہوئیں اور قبولیت عامہ و تامہ حاصل کی، اس زمانے میں مفتی صاحب کے قلم سے کاروان رفتگاں اور عبقری شخصیات پر لکھے گیے مضامین کا ایک شان دار مجموعہ بہ نام "بزم رفتگاں "قارئین کے لیے اپنے اندر دل چسپی کا سامان لیے ہوئے جلوہ گری بکھیرتا ہوا دیگر سابقہ تحریروں کی طرح پرلطف و دل چسپ ثابت ہوا ۔ 

مفتی ص نے ایک عدد احقر کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا کہ : یہ حضرت مولانا نورعالم ص خلیل امینی رح کی خدمت اقدس میں پیش کردیں! احقر کی سماعت سے یہ بات بارہا ٹکرا چکی تھی کہ حضرت الاستاذ امینی رح وقت کے پابند ، صول پسند، نظام الاوقات کے حد درجہ پاس و لحاظ رکھنے والے، ایک ایک لحظہ کو ضبط اور وصول کرنے والے اور مزاج و منہاج میں اس عہد کے تھانوی ہیں، 

میں نے خوف و بیم کے عالم میں سہمے سہمے آپ کے اصول و ضوابط کو مد نظر رکھتے ہوئے فون کیا, اور مدعا سے آگاہ فرمایا ،آپ نے اجازت مرحمت فرمادی، احقر نے وقت متعین کا مکمل پاس و لحاظ رکھتے ہوئے حاضری دی، سلام اور مختصر کلام کے بعد کتابی ہدیہ آپ کی خدمت عالیہ میں پیش کردیا، آپ نے مفتی ساجد ص کھجناوری کے تعلق سے کچھ تعریفی کلمات کا ہدیہ پیش کیا جو اس وقت ذہن میں نہیں ہے اور شکریہ ادا کرکے مجھے رخصت کردیا، میں جیسے ہی دروازہ کے قریب پہنچا، آواز آئی، ادھر آو، میرا ذہن ان تمام اصول و ضوابط اور آپ کے وضع کردہ قوانین میں الجھا ہوا تھا، میں نے سمجھا، ضرور کسی اصول کی خلاف ورزی ہوئی ہے، میں نے واپسی کی راہ لی, اور آپ کے سامنے صوفیانہ طرز اختیار کرتے ہوئے کھڑا ہوگیا، آپ نے میرے تعلق سے بہ طور تعارف سوالات کا آغاز کردیا، تو مجھے قدرے سکون ملا کہ کوئی چوک وغیرہ نہیں ہوئی، اس کے بعد میرے سراپے کا بہ نظر غائر مطالعہ فرمایا، اور کہنے لگے : تم میرے پاس آیا کرو! احقر نے اثبات میں جواب دیا اور واپسی کی راہ لی، یوں میرا باقاعدہ آپ سے تعارف و وابستگی کا آغاز ہوا، پھر یہ تعلق ایک بیٹے کی شفقت اور تاحین حیات خدمت میں تبدیل ہوگیا اور احقر نے یہ خدمت کا تعلق بہ حمد اللہ اخیر حیات تک اس طور پر نبھایا کہ آپ کے دل سے میرے لیے دعائیں نکلتی تھیں ،جس کی تفصیل انشاء اللہ  آگے آرہی ہے ، آپ اپنی یادوں کا ایک دفتر چھوڑ گیے جس کا اختصار ایک مشکل کام ہے، لیکن ان میں سے کچھ مفید اور کارآمد باتیں ،ملاقاتیں اور تأثرات کو سلک سطور میں پرونے کی ادنی سی سعی ہے، تاکہ آئندہ نسل ان کی انہیں باتوں اور یادوں سے اجالے حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔

جاری۔۔۔۔

مقالات و مضامین 

mdalij802@gmail.com


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی