کربلا معرکہء حق و باطل نہیں بلکہ دھوکہ اور مظلومیت کی ایک روح فرسا داستان ہے

 شہیدِ مظلوم حضرت حسین رض سے کوفہ جانے میں چوک ہوئی، یزیدحسین رض کےقتل میں پورے طور پر ملوث نہیں تھا

کربلا معرکہء حق و باطل نہیں بلکہ دھوکہ اور مظلومیت کی ایک روح فرسا داستان ہے



✍️ قیام الدین

جب آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شہادت کی بات آتی ہے تو ہمارا جذباتی ہونا ایک فطری امر ہے لیکن ہمیشہ یہ ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ کہیں آپ جذبات کے بہاؤ میں آکر حقائق کو نظر انداز تو نہیں کررہے؟ آپ کو ہر ایک جانب کی کمیاں کوتاہیاں معلوم ہونی چاہئیں

ورنہ پھر اسی طرح کے بیانئے جنم لیتے رہیں گے کہ جن صحابہ نے یزید کے ہاتھ پر بیعت کی وہ سارے صحابہ غلط تھے باطل کا ساتھ دے رہے تھے یزید کے ظلم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے بس ایک حسین رض حق پر تھے جنہوں نے عزیمت کی راہ اپنائی اور یہ کہ حق کے لیے جان دینے کی رسم کے بانی ہی حسین ابن علی ہیں

جب آپ تاریخ کی مستند و غیر مستند روایات کا مطالعہ کیجئے گا تو کچھ چیزیں ہیں جو کھل کر سامنے آئیں گی 

1 اپنے ہوں یا بیگانے عوام ہو یا حکومت کے عمال ہر شخص اہل بیت سے محبت کرتا تھا توقیر و تعظیم کرتا تھا کیوں کہ وہ مسلمان ہی کیا جسے نبی کے خاندان سے محبت نہ ہو

2 عوام میں آل رسول سے بے حد جذباتی وابستگی تھی جس کی بنا پر کوئی بھی حاکم یا گورنر ان پر سختی کرنے یا ان کے قتل کا الزام اپنے سر لینے سے کتراتا تھا 


اب میں سانحۂ کربلا کے دو پہلوؤں کی جانب آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا

پہلا کیا یزید نے واقعی حضرت حسین کا قتل کروایا؟

سب سے پہلے تو بات یہ ہے کہ یزید نہ صحابی ہے کہ اس کا دفاع ہم پر واجب ہو بلکہ وہ ایک مختلف فیہ شخصیت ہے نہ ہی وہ صحابہ کی طرح بہت بڑا صالح شخص تھا اور نہ ہی اتنا بڑا فاسق جتنا یہ شیعیے اور شیعیت زدہ افراد باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں 

اس کے اعمال اس کے ساتھ ہمارے اعمال ہمارے ساتھ لانسبہ و لانحبہ لیکن اتنا تو ہے کہ شیعوں نے یزید کے ساتھ جو سلوک کرنا تھا کیا کیوں کہ شیعوں کے مذہب کی بنیاد ہی حبِ علی و بغض ِ معاویہ پر ہے مگر اہل سنت نے بھی حبِ اہل بیت کے نام پر یزید پر کم ظلم نہیں کیا ہے

 اس مسئلے کو اٹھاکر عقیدے کی کتاب میں بیان کرنا اور یزید کو انتہائی درجے کا فاسق و فاجر اور پھر حقیقی قاتلِ حسین ثابت کرکے لعنت بھیجنا وغیرہ وغیرہ میں نا انصافی اور لایعنی کام سمجھتا ہوں

جہاں تک اس کے قتل میں ملوث ہونے کی بات ہے میں اسے حضرت حسین رض کے قتل میں پوری طرح ملوث نہیں سمجھتا

 کیوں کہ

1  قاتل کے ساتھ رشتہ داریاں نہیں بڑھائی جاتیں اور تاریخ شاہد ہے کہ اس واقعے کے بعد ان میں رشتے داریاں مزید بڑھی ہیں

2 یزید خود بھی جانتا تھا کہ قتلِ حسین میری حکومت کے کمزور ہونے کا سب سے بڑا سبب بن سکتا ہے اور یزید کے بارے میں یہ تو بکثرت منقول ہے کہ وہ فاسق تھا نماز چھوڑتا تھا وغیرہ وغیرہ قطع نظر روایات کی صحت و سقم کے، لیکن یہ کسی روایت میں نہیں ملتا کہ وہ غبی تھا یا بزدل تھا یا حکمرانی کرنا نہیں جانتا تھا بلکہ اس کی شجاعت اور مدبرانہ صلاحیتوں کے بارے میں کئی ساری روایات ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے اب ایسا شخص اپنی حکومت گرانے والے اقدامات تو نہیں کرے گا جان بوجھ کر 

"طبری ہی کی ایک روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یزید کو اس نقصان کا اندازہ ہو گیا تھا اور وہ ابن زیاد سے سخت نفرت کرنے لگا تھا۔

قال أبو جعفر: وحدثني أبو عبيدة معمر بن المثنى أن يونس بن حبيب الجرمي حدثه، قال: تھوڑے ہی دن بعد وہ (یزید) پشیمان ہوا اور اکثر کہا کرتا تھا: "اگر میں ذرا تکلیف گوارا کرتا اور حسین کو اپنے ہی گھر میں رکھتا، جو وہ چاہتے، انہیں اس کا اختیار دے دیتا۔ اس لیے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی تھی اور ان کے حق اور قرابت کی رعایت تھی۔ اگر میری حکومت کی اس میں سبکی بھی ہو جاتی تو اس میں کیا حرج تھا۔ اللہ ابن مرجانہ (ابن زیاد) پر لعنت کرے کہ اس نے انہیں لڑنے پر مجبور کیا۔ وہ تو یہ کہتے تھے کہ مجھے واپس چلا جانے دو یا (مجھے یزید کے پاس بھیج دو) تاکہ میں اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں دے دوں یا مسلمانوں کی سرحدوں میں سے کسی سرحد کی طرف مجھے نکل جانے دو۔ وہاں اللہ عزوجل میری حفاظت کرے گا۔ یہ بات بھی اس نے نہ مانی اور اس سے بھی انکار کر دیا۔ ان کو کوفہ کی طرف واپس لایا اور قتل کر دیا۔ اس واقعہ سے اس نے مسلمانوں کے دلوں میں میرا بغض بھر دیا اور میری عداوت کا بیج بویا۔ اب نیک ہوں یا بد، سب مجھ سے اس بات پر بغض رکھتے ہیں کہ میں نے حسین کو قتل کیا۔ لوگ اسے بہت بڑا واقعہ سمجھتے ہیں۔ مجھے ابن مرجانہ سے کیا غرض ہے؟ اللہ اس پر لعنت کرے اور اس پر اپنا غضب نازل کرے۔ ( طبری۔ 4/1-270)"

در اصل ان کے قاتل تین قسم کے لوگ ہیں

1 وہ باغی جماعت جس نے حضرت حسین کو کوفہ آنے کی دعوت دی اور پھر ان کا ساتھ چھوڑدیا 

2 ابن زیاد جس نے حضرت حسین رض کے پیش کردہ تین آپشنز (1 میں جہاں سے آیا ہوں وہاں واپس چلا جاؤں 2 یزید کے پاس جانے دیا جائے 2 یا کسی سرحدی علاقے میں جانے دیا جائے) کو یزید تک پہنچانے اور جواب ملنے کا انتظار کئے بغیر ہی ٹھکرادیا جس کے نتیجے میں جنگ ہوئی 

3 وہ بدباطن لوگ جنہوں نے بنفس نفیس حضرت حسین اور ان کی جماعت کو شہید کیا 

ہاں لیکن یزید کو کلین چٹ دے کر بالکلیہ بری بھی نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ چاہے اس کی اجازت سے یہ قتل نہ ہوا ہو مگر حاکم تو اسی کا مقرر کیا ہوا تھا جس نے یہ ساری خباثتیں کیں اور روایات میں یہ بھی نہیں ملتا کہ بعد میں اس نے قاتلین حسین کو سزا دی ہو اگرچہ اس کی تاویل یہ کر کی جاتی ہے کہ حضرت حسین رض کے رشتے داروں میں سے کسی نے قصاص کا مطالبہ نہیں کیا 

اب واقعے کے دوسرے پہلو کی جانب آتے ہیں کیا حضرت حسین رض اپنے سارے اقدامات میں حق بجانب تھے؟

دیکھئے یہاں پر دو چیزیں ہیں ایک ہے نظریاتی مسئلہ کہ یزید کے خلاف خروج صحیح تھا یا نہیں اس سلسلے میں اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ حضرت حسین حق پر تھے اور ان کا خروج صحیح تھا 

لیکن میں اس معرکے کو معرکہء حق و باطل ہرگز نہیں گردان سکتا معرکہء حق و باطل کہلائے جانے کا صحیح مصداق تو بس غزوۂ بدر ہے 

کیوں کہ جب معرکہء حق و باطل کا لفظ عرف میں بولا جاتا ہے تو کفر و اسلام کا تصور سامنے آتا ہے اور یہ مسلمانوں کی آپس کی لڑائی تھی کفر و اسلام کی نہیں

نیز اگر حضرت حسین باطل کے خلاف نبرد آزما تھے تو اس کا صاف مطلب یہ نکلتا ہے حضرت حسین کے علاوہ سارے صحابہ باطل کا ساتھ دے رہے تھے یا باطل کے ڈر سے خاموش تھے یہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت پر سوالیہ نشان ہے معاذ اللہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صرف حضرت حسین رض کی صحیح تربیت کرپائے اور یزید کے زمانے میں موجود باقی تمام صحابہ کو حتی کہ اپنے چچا زاد بھائی ترجمان القرآن حضرت ابن عباس تک کو یہ نہیں سکھا پائے کہ باطل کے سامنے جھکنا نہیں ہے، یہ تو ایسے ہی ہوگیا جیسے فرّ من المطر و قام تحت المیزاب یعنی حضرت حسین رض کی محبت اور دفاع میں سارے صحابہ کو باطل کا ساتھی یا باطل کے ظلم پر خاموش تماشائی قرار دے دیا 

یہ بس نظریاتی اختلاف تھا اور شریعت میں دونوں نظریوں کی گنجائش موجود ہے اور اس قسم کے نظریاتی اختلاف میں حق اور باطل کا مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ مناسب اور غیر مناسب کا مسئلہ ہوتا ہے 

لیکن ایک مسئلہ ہے عملی کہ خروج کو صحیح مان کر حضرت حسین رض نے جو اقدامات کئے ہیں آیا وہ بھی مناسب تھے یا نہیں؟

اب آپ تھوڑی دیر کے لیے خود کو تمام تصورات سے خالی کیجئے پھر سوچئے اور کڑیوں سے کڑیاں ملائیے

1 یزید کے ہاتھ پر اطراف و اکنافِ عالمِ اسلام کے باشندوں نے بیعت کرلیا تھا یعنی  یزید کی حکومت اسٹیبلشڈ حکومت تھی قطع نظر اس سے کہ وہ ظالمانہ تھی یا غیر ظالمانہ 

2 یزید کی حکومت کسی کافر کی حکومت نہیں تھی گویا یہ مسلمانوں کی آپس کی لڑائی تھی

3 یزید کے ہاتھ پر اکثر صحابہ نے بیعت کرلی تھی چند صحابہ نے نہ بیعت کی نہ مخالفت بس خاموشی اختیار کرلی

4 حضرت حسین نے اول دن سے بیعت سے انکار کیا اور مدینہ سے مکہ اور مکہ سے مدینہ جاتے رہے بیعت سے بچنے کےلئے مگر آپ غور کریں کہ اس انکار کے پورے عرصے میں مدینہ اور مکہ کے گورنروں نے صرف اصرار تک خود کو محدود رکھا نہ تو گرفتار کیا نہ جنگ کی اور نہ قتل کیا حالانکہ قوت حاکمہ ان کے پاس اس وقت بھی موجود تھی 

5 باغیوں کا ایک گروہ تھا جو کوفہ میں پنپ رہا تھا اب ظاہر ہے ہر حکومت کی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے باغیوں کی سرکوبی جس کے لیے یزید نے ابن زیاد جیسے سخت آدمی کو وہاں کا گورنر مقرر کیا


اب سوالات سنئے 

1 کیا حضرت حسین کے پاس اتنی طاقت تھی جو ایک مسلم حکمران کے ظلم کو جنگی طور پر روکنے کے لیے کافی ہوتی؟

2 جن خبیث باغیوں نے حضرت حسین رض کے والد خلیفہ راشد حضرت علی رض کو قتل کروایا تھا ایسے دھوکہ باز لوگوں پر بھروسہ کرنا اور ان کی دعوت پر جانا مناسب تھا؟

3 آپ کو سارے صحابہ اور اس وقت کے سارے عمائدین نے کوفہ جانے سے منع کیا تھا پھر بھی جانے کی کیا ضرورت تھی؟ 

آپ حضرت حسین کو کوفہ جانے سے منع کرنے والوں کی حضرت حسین کے ساتھ ہوئے مکالمے کو پڑھئے آنکھوں میں آنسو آجائیں گے

جب حضرت ابن عباس رض کو یہ خبر ملی کہ حسین رض کوفہ کے لیے جارہے ہیں تو انہوں نے حسین رض سے پوچھا

"مجھے یہ تو بتائیے کہ کیا آپ ان لوگوں میں جا رہے ہیں جنہوں نے اپنے حاکم کو قتل کر کے اپنے شہروں کی ایڈمنسٹریشن سنبھال لی ہے اور اپنے دشمن کو نکال باہر کیا ہے؟ اگر وہ ایسا کر چکے ہیں تو پھر چلے جائیے ۔ اگر ان پر حاکم مسلط ہیں اور اسی کے عہدہ دار شہروں سے خراج وصول کر رہے ہیں اور پھر بھی یہ آپ کو بلا رہے ہیں تو یہ محض آپ کو جنگ چھیڑنے کے لیے بلا رہے ہیں۔ مجھے خوف ہے کہ یہ لوگ آپ کو دھوکہ دیں گے، آپ کو جھٹلائیں گے، آپ کی مخالفت کریں گے، آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے اور اگر آپ سے پیچھے ہٹ گئے تو پھر یہی لوگ آپ کے خلاف انتہائی سخت حملہ کر دیں گے۔" حسین نے جواب دیا: "میں اللہ سے خیر کا طالب ہوں اور دیکھتا ہوں کہ کیا ہوتا ہے؟" 

ایک اور روایت میں حضرت ابن عباس کہتے ہیں

"بھائی! میں برداشت کرنا چاہتا ہوں مگر مجھے صبر نہیں آتا۔ مجھے اس راستے میں آپ کی ہلاکت اور تباہی کا اندیشہ ہے۔ اہل عراق (کی باغی تحریک) دراصل دغا باز لوگ ہیں۔ ان کے پاس ہرگز نہ جائیے۔ اسی شہر میں ٹھہرے رہیے کہ آپ اہل حجاز کے سردار ہیں۔ اگر اہل عراق آپ کو بلاتے ہیں تو انہیں لکھیے کہ اپنے دشمن سے پہلے اپنا پیچھا چھڑائیں۔ اس کے بعد آپ ان کے پاس چلے آئیں گے۔ اگر آپ کو یہ بات منظور نہیں ہے تو یمن کی طرف چلے جائیے۔ وہاں قلعے ہیں، پہاڑ ہیں اور ایک وسیع ملک ہے۔ آپ کے والد کے ساتھی وہاں موجود ہیں۔ آپ سب سے الگ تھلگ رہ کر ان سے خط و کتاب کیجیے اور قاصد بھیجیے۔ اس طریقہ سے مجھے امید ہے کہ جو بات آپ چاہتے ہیں، امن و عافیت کے ساتھ آپ کو حاصل ہو جائے گی۔ " حضرت حسین نے جواب دیا: "بھائی! واللہ میں جانتا ہوں کہ آپ خیر خواہ اور شفیق ہیں۔ لیکن میں تو اب روانگی کا مصمم ارادہ کر چکا ہوں۔" اب یہ ضد ہمیں حضرت حسین کی مسامحت معلوم ہوتی ہے نہ کہ عزیمت کہ جن کے بھروسے آپ کوفہ جارہے ہیں وہی آپ کو دھوکہ دینے والے ہیں جب اس کی خبر بار بار دی جارہی ہو پھر بھی آپ کوفہ کوچ کئے جارہے ہیں

آپ کے کزن عبد اللہ بن جعفر نے حضرت حسین کو لکھا "میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ میرا خط دیکھتے ہی واپس چلے آئیے۔ مجھے ڈر ہے کہ آپ جہاں جا رہے ہیں، وہاں آپ ہلاک نہ ہو جائیں اور اہل بیت کو تباہ نہ کر دیا جائے۔ اگر آپ کو قتل کر دیا گیا تو دنیا میں اندھیرا ہو جائے گا۔ اہل ہدایت کے راہنما اور اہل ایمان کا سہارا آپ ہی کی ذات ہے۔ روانگی میں جلدی نہ کیجیے، اس خط کے پیچھے میں بھی آ رہا ہوں۔ والسلام۔" طبری 1/4-179

آپ کے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل جن کو حضرت حسین نے حالات کا جائزہ لینے کے لیے کوفہ بھیجا تھا حضرت حسن رض کے برادر نسبتی محمد بن اشعث کے ذریعے یہ پیغام بھجوایا "آپ اہل بیت کو لے کر پلٹ جائیے، کوفیوں کے دھوکے میں نہ آئیے۔ یہ وہی لوگ ہیں، جن سے چھٹکارا پانے کے لیے آپ کے والد فوت ہو جانے اور قتل ہو جانے کی تمنا رکھتے تھے۔ اہل کوفہ نے آپ سے بھی جھوٹ بولے اور مجھ سے بھی جھوٹ بولے۔ میری رائے کو جھٹلائیے گا نہیں۔( ایضاً ۔ 4/1-168)"

اتنے سارے صحابہ بلکہ اپنے رشتہ داروں کے منع کرنے باوجود کوفہ کوچ کرنا کیا حضرت حسین کے لیے مناسب تھا؟

4 اب اگر جانا بھی تھا اتنی پر خطر جگہ پر جہاں آپ کو دھوکے کی پوری امید ہے ایسی جگہ پر اہل بیت کے بچوں اور عورتوں کو لے کر جانے کا کیا مطلب بنتا ہے؟ اس پر بھی حضرت ابن عباس نے تنبیہ کی تھی ابن عباس رض بولے: "اگر جانا ہی ٹھہرا تو خواتین اور بچوں کو ساتھ نہ لے جائیے۔ واللہ! مجھے ڈر ہے کہ کہیں حضرت عثمان کی طرح آپ بھی اپنی خواتین اور بچوں کے سامنے قتل نہ کر دیے جائیں۔"😥 ( ایضاً ۔ 4/1-176)۔

5 اور پھر جب وہ ابھی کوفہ سے نوے میل دور تھے تبھی ان کو مسلم بن عقیل کے قتل کی خبر پہنچ چکی تھی یہیں سے واپس چلے جاتے؟

6 اگر حضرت علی یا حضرت حسن میں سے اس وقت کوئی باحیات ہوتے تو حضرت حسین رض کو اس طرح کے اقدام کی اجازت دیتے؟ مجھے تو نہیں لگتا

اور پھر ایک روح فرسا منظر وجود میں آنا مقدر تھا اور وہ ہوکر رہا 😥 رحم اللہ اہل بیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم

ان تمام وجوہات کی بنا پر میں حضرت حسین رض کے مقابلے ان صحابہ کو زیادہ صائب الرائے سمجھتا ہوں جنہوں نے کوفہ کی جانب کوچ کرنے سے منع کیا جس میں خود ان کے چچا حضرت ابن عباس رض بھی شامل تھے 

میں چچا حضرت ابن عباس رض کو اس معاملے میں حضرت حسین سے زیادہ صائب الرائے سمجھتا ہوں

1  کیوں کہ حضرت حسین سے زیادہ عرصہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزارا ہے 

2 وہ عمر میں ان سے بڑے تھے اور چچا بھی تھے

3 وہ علم میں بھی حضرت حسین سے بڑھے ہوئے تھے حتی کہ انہیں ترجمان القرآن کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے یہ وہ شخصیت تھی جن پر عبد اللہ بن مسعود جیسی فقیہ شخصیت بھی رشک کرتی تھی

 4 کیوں کہ حضرت علی کے زمانے میں حضرت ابن عباس بصرہ کے گورنر رہ چکے تھے وہ باغی گروہ کی فتنہ پردازیوں سے بخوبی واقف تھے 

 کوفیوں پر اعتماد کرنا اور پھر ساتھ میں تمام آل رسول بشمول صغار و نساء کوفہ کی جانب کوچ کرنا یہ حضرت حسین رض کی اجتہادی خطا تھی اور پھر ظلم کی داستان وہاں سے شروع ہوتی ہے جب حضرت حسین نے تین آپشن پیش کئے جسے عمر بن سعد نے قبول کرلیا اور ابن زیاد کو لکھا تو ظالم ابن زیاد نے کہا "وہ جب تک اپنا ہاتھ ہمارے ہاتھ میں نہ پکڑادیں ایسا نہیں ہوسکتا"  اور پھر ان کوفیوں کے دھوکے کے نتیجے میں میرے نبی کے خاندان کے اکثر افراد شہادت کی نذر ہوگئے، اخیر میں یہ مقولہ ضرور سنئے گا جو حضرت حسین نے دوران جنگ کہے تھے "یا اللہ ہمارا اور ان لوگوں کا تو انصاف فرما انہوں نے ہمیں اس لیے بلایا کہ ہماری مدد کریں گے اور اب ہم لوگوں کو قتل کررہے ہیں" اسی سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ شہادت کے اصل ذمہ دار کون ہیں اور حضرت حسین کس سے نالاں تھے

یہ وہ حقائق ہیں جن کا جاننا آپ کے لیے بے حد ضروری ہے ورنہ آپ شیعوں اور رافضیوں کے پھیلائے ہوئے بیانیوں میں پھنس سکتے ہیں

 سانحۂ کربلا کوفیوں کے دھوکے، ابن زیاد کے تکبر، خباثت و منمانی اور نتیجۃً شہادتِ اہلِ بیت کی روح فرسا داستان ہے



Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی