بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ







*رمضان اور اس کے تقاضے*

     *فریضۂ رمضان کی حکمتیں*

قسط................5

(الف)

    ﴿یا ایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقوں﴾ [سورہ بقرہ : ١٨٣} ۔
”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں، جیسے تم سے پہلوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ شاید تم میں تقوی پیدا ہو۔ “
اسلام اپنے پیروؤں جس اعتدال، ضبط نفس، اطاعت اور روحانیت کے کمال تک پہنچانا چاہتا ہے، اس کے لیے اس نے دو راستے اختیار کیے ہیں:
   جو اشیاء اور اعمال انسان کی زندگی میں  خود فراموشی ، سخت بے اعتدالی ،معصیت اور ارتکاب جرم کی طرف  طبعی میلان  پستی اور بے عملی کی طرف رجحان اور سر کشی کی  رغبت، دنیا کی زندگی میں بڑھی ہوئی ہوس، تعیش و فشق و فجور کا بحران، بے حیائی اور بے غیرتی کی ترغیب پیدا کرتے ہیں، ان سب اس نے ابدی طور پر انسان کے لیے ممنوع قرار دے دیا ہے۔ جس میں عمر کےکسی مرحلے اور  زمانے کے کسی اختلاف اور ملک و مقام کے کسی امتیاز کو دخل نہیں ہے، ممنوعات کی اس فہرست میں وہ تمام معاصی داخل ہیں، جو کبھی انسان کے لیے حلال اور جائز نہیں، مثلاً شراب، لحم خنزیر، قمار، ربوا ، مال حرام اور دوسرے معاصی۔
جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا ہے، یا مسلمان سن بلوغ کو پہنچتا ہے تو ان تمام چیزوں سے روزہ رکھ لیتا ہے، اس روزے کی ابتدا یا اس زندگی کی صبح صادق، اسلام کے احکام کا مخاطب بن جانا ہے، اس روزے کا افطار عمر کے آفتاب کے غروب ہونے سے پہلے نہیں ہے، یہ ایک طویل روزہ ہے جو ہر مسلمان کو سفر و حضر میں رکھنا ہوتا ہے، اور حالت اضطرار (شرعی) کے سوا کوئی استثنا نہیں، شریعت کے مقاصد کے حصول کے لیے اور ان معاصی کو بند کرنے کے لیے، جن کا اوپر تذکرہ کیا گیاہے، یہ روزہ لازمی ہے ۔
ان منصوص چیزوں کے علاوہ لذت کی تمام چیزیں (بشرطیکہ وہ حرمت و کراہت  سے خالی ہو) مباح اور جائز ہیں،  ان سے  خواہ مخواہ کے لئے رکنا پسندیدہ نگاہ سے نہیں دیکھا گیا ہے، اور ان حلال چیزوں کو اپنے لیے حرام کر لینا شریعت میں ایک طرح کی تحریف ، دین میں تشدد اور کفر ان نعمت قرار دیا گیا ہے،۔
﴿قل من حرم زینۃ اللہ التی أخرج لعبادۃ والطیباب من الرزق؟ قل ھی للذین آمنوا فی ا الحیاۃ الدنیا خالصۃ یوم القیامہ﴾، {سورہ اعراف: ٣٢} 
(آپ کہہ دیجئے کہ کس نے حرام کیا ہے اللہ کی اس زینت اور پاک رزق کو جو اس نے اپنے  بندوں کے لیے نکلا ہے، آپ کہہ دیجئے کہ یہ سب چیزیں ایمان والوں کے لیے دنیا میں بھی ہیں اور آخرت میں تو مخصوص طور پر ‌ )
 دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے کھانا پینا جائز نہیں ، بلکہ اسراف ناجائز ہے ، ؛ 
﴿وکلوا واشربوا ولا تسرفوا ﴾ (سورہ اعراف : ٣١،) پس کھاؤ اور پیئو ، اور اسراف مت کرو،۔
لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مباحات و لذائذ کا بے قید اور دائمی  استعمال لذتوں میں انہماک ، اکل و شرب میں دائمی آزادی ، اس جادۂ اعتدال سے انسان کو ہٹا دیتی ہے  جس پر دین مسلمان کو دیکھنا چاہتا ہے ، اس کے رجحانات اور مقاصد زندگی کو بدل دیتی ہے ، اور بعض اوقات نفس پروری ، شکم پروری، ناؤ نوش ، اور بعیش کوش مقصود زندگی بن جاتا ہے، طبیعت میں ایک طرح کی بلادت اور بے حسی پیدا ہوجاتی ہے، ضبط نفس اور جفا کشی کی قوت باقی نہیں رہتی، تن آسانی ، تنعم کی خو پیدا ہوجاتی ہے، انسانی کی روح کچل جاتی ہے، اور روحانی جذبات مردہ ہوجاتے ہیں، سالہا سال اور بعض اوقات پوری عمر ، حقیقی روحانی مسرت ، سبک روحی، دماغ کی یکسوئی ، ذکر و عبادت میں لذت ، لذت مناجات کی حلاوت نصیت نہیں ہوتی، بعض لوگوں کو برسوں خالی پیٹ ہونے اور اعتدال کی  سعادت حاصل نہیں ہوتی ، اور وہ اس کا مزہ نہیں جانتے،۔
اس اعتدال، ضبطِ نفس اور روحانیات کی قوت کو بڑھانے کے لئے دو راستے تھے: ایک تقلیل طعام کا راستہ تھا، لیکن اس میں دو نقص ہے ؛ایک تو عمومی معیار ، سب کے لئے ایک مقدار مقرر کرنا نہایت مشکل ہے، اور ان کو  لوگوں کی رائے اور تمیز پر چھوڑنا بھی دشوار ؛ اول تو یہ اصول تشریع (آئین سازی) کے خلاف ہے ، دوسرے مذہب و اخلاق کی تاریخ میں اس کا تجربہ ہمیشہ ناکام رہا ہے، لوگوں نے اس آزادی اور اختیار کا ہمیشہ غلط استعمال کیا ہے، مبہم اور غیر معین احکام عملا بیکارو بی نتیجہ ہوکر رہ گئے (جیسے بہت سے اخلاقی نصائح اور ہدایت ) دوسرے اکثر محض تقلیل طعام بہت طبائع کے لئے بالکل غیر مؤثر اور بے نتیجہ تدبیر ہے،۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ کوئی ایسا طویل وقفہ کیا جائے جس میں کوئی چیز استعمال نہ ہو ۔ یہ طریقہ زیادہ حسی ، زیادہ مؤثر  اور قوت بہیمیہ کو زیادہ کمزور کرنے والا ہے، یہ وقفہ دین کی اصطلاح میں صوم ، یا روزہ ہے ، جس کے خاص احکام و شرائط ہیں ، جو بہت گہرے تشریعی اور نفسیاتی اسرار پر مشتمل حکم و مصالح پر مبنی ہے،‌۔

٨ /رمضان المبارک ؁١٤٤١

مطابق  2/ 5/ 2020

                 از✍ *محمد علی جوہر*

                                     *سوپولوی*

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی