تاریخ خود کو دوہرا رہی ہے ( ٢٠٢٢ء کے آغاز پر کچھ دلچسپ)

تاریخ خود کو دوہرا رہی ہے

( ٢٠٢٢ء کے آغاز پر کچھ دلچسپ)

صادق مظاہری


یاد کرئیے ٥/ فروری ۶١٩٢ء کو جب تحریک ترک مولات کو گاندھی نے ختم کا اعلان کردیا تھا کیونکہ اس کی بنیاد عدم تشدد پرتھی لیکن کچھ افراد نے اس تحریک کی حمایت میں اشتعال انگیزی سے کام لیا تھا اور ایک پولیس تھانے کو آگ لگادی تھی جس میں ٢٢ سپاہی مارے گئے تھےگاندھی نے کہا تھا اس تحریک کا مقصد فوت ہوگیا ہے اس لیے اس کا خاتمہ کیا جاتا ہے اس کے بعد سے ہندومسلم اتحاد پارہ پارہ ہوگیا تھا پھر بعض ہندو تنظیموں نے ہندؤں میں اتحادکا نعرہ لگایا تھا جس کی وجہ سے کئی فرقہ وارانہ فساد کا مظاہرہ ہوا تھا اورجس کے نتیجے میں مسلمانوں میں دوقومی نظریوں کی بنیاد بھی پڑی تھی،جن دومختلف نظریوں کے تحت مسلم قوم دو ملکوں میں تقسیم ہوگئی تھی اس وقت جو کمزوری لاحق ہوئی تھی اس کی آج تک بھر پائی نہ ہوسکی ہم اس طرف توجانا نہیں چاہتے کہ الگ ملک کی مانگ کرنے والوں کے دلائل کیا تھے اور یہاں رہنے والوں کے دلائل کتنے مضبوط تھے، وہ یہاں ہمارا موضوع نہیں ہے لیکن تقسیم ہند کے بعد اتنا ضرور ہوا تھا کہ بھارت کے مسلمانوں کی حیثیت سیاسی اعتبار سے ایسی ہوگئی تھی جیسے کسی جسم کے ہاتھ پیر اور زبان کاٹ دئیے گئے ہوں وہ چلنا چاہے تو گرجا ئے۔ وہ کھانا چاہے تو مشکلوں کا سامنا کرنا پڑے۔وہ بولنے کی کوشش کرے تو اس قوت کے ساتھ نہ بول سکے جس سے اس کے مسائل حل ہوسکتے ہوں۔چناں چہ کئی بڑے لوگ جن میں مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ، حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒوغیرہ ایسے تھے جن کی آواز میں دم تھا لوگ ان کے دیوانے تھے لیکن جب قوم تقسیم ہوگئی تو یہ لوگ زندہ تو رہے لیکن اس امنگ وحوصلے کے ساتھ نہیں جو آزادی سے پہلے ان کے پاس تھا۔کیونکہ دوسری بڑی اکثریت کی نظر میں ان کا تعلق ایک ایسی قوم سے تھا جو بھارت کو تقسیم کرنے کا نظریہ رکھتی ہے اب اس میں کن لوگوں کی پشت پناہی تھی اور کون ہمیں تقسیم کرانا چاہتا تھا اور کون ہماری طاقت کو کمزور کرنا چاہتا تھا اس پر اب کیا تبصرہ کیا جائے ورنہ سچی بات یہ ہے کہ اُسی وقت کون ہمیں برداشت کررہا تھا۔مختصر یہ کہ اپنے ہی ملک کے کچھ غدار ایسے بھی تھے جو انگریز کی غلامی سے بھارتیوں کو نہیں نکلنے دینا چاہتے تھے ان کا کام تھا ملک سے وفاداری کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھانا ، پبلک کو ان کے خلاف بھڑکانا،نفرت انگیز نعرے لگانا ۔جس میں وہ ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے۔جس کا نتیجہ بعد میں گاندھی کے قتل کی شکل میں ظاہر ہوا۔ لیکن اس ملک کا مسلمان یا تو بہت سیدھا ہے جو سیاسی اعتبار سے کل بھی کنفیوز تھا اور آج بھی ہے۔اگر یہ بات ہے تو اس کو غلامی کی عادت پڑچکی ہے اس کا ذہن غلام ہوچکا ہے۔اس کے اندر سیاسی بیداری نام کی چیز باقی نہیں ہے۔جب کہ اس وقت مسلمانوں کے اندر سیاسی بیداری کی ضرورت ہے یہ وقت اختلاف کا نہیں اتحاد کا ہے۔یہ اپنی دو اینٹ کی مسجد بنانے کا نہیں بلکہ ایک چھتری کے نیچے نماز پڑھنے کا ہے کیونکہ ١٩٢٢ ء کے بعد جیسے کچھ ہندو تنظیموں نے ہندؤوں کو متحد کرنے کی کوشش کی تھی ذرا سوچئے انھوں نے کیا کچھ نہ کیا ہوگیا ۔جب کہ بھارتیوں کے لئے انگریز دشمن سامنے تھا لیکن اس کے باوجود ایسا اکسایا کہ وہ لوگ جو صدیوں سے ساتھ رہتے آئے تھے دشمن بن گئے اور جھگڑے ہوئے۔اس وقت جب کہ وہ لوگ طاقت میں ہے ان کے پاس دولت ہے،قوت ہے،غرور ہے،ساتھ میں ہر چیز کا نشہ ہے تو ایسے میں اگر کسی اسٹیج سے یہ بیان جاری کیا جائے کہ وطن عزیز کی دوسری بڑی آبادی کو قبول نہ کیا جائے گا ان کو مارنے تک کی دھمکیاں دی جارہی ہوں تو کیا بعید ہے ؟ کہ ایسے منحوس ایام بھی دیکھنے کو ملیں کہ دوبارہ فرقہ وارانہ فسادات ہوں ۔ اس لئے اہل اسلام اس پر غور کریں کہ وطن عزیز کی سیاست جو رخ اختیار کر رہی ہے ایسے میں ہمیں اپنے تشخص کو بھی برقرار رکھنا ہے اور ملک کے قانون کو بھی بچانا ہے ۔اورنفرت انگیز نعروں وبیانوں پر توجہ دیئے بغیر اپنی قیادت کو مضبوط کرنا ہے اب رہا قیادت کا مسئلہ اس کو تو سب لوگوں کو حل کرنا ہوگا ورنہ اگر اسی طرح کسی کے گرگے اور کسی کے مرغے اور کسی کے دلال بنے رہے تو سارا کچھ چوپٹ ہوجائے گا لوگ لیک پیس کی طرح چباکر نگل جائیں گے۔پھر ڈکار لے کر ہضم کرجائیں گے ۔ بعد میں یہ بھی طعنہ دینگے کہ مزہ نہیں آیا کیونکہ مرغہ بے جان تھا اس وقت ہمارے پاس کوئی جواب نہ ہوگا۔ اس لیے اس نئے سال کے آغاز پر سب مسلم تنظیموں وجماعتوں کو یہ طے کرنا چاہیے ۔کہ آئندہ اس ملک وقوم کے لئے کیا کرنا ہے اس وقت جو صورت حال ہے وہ تشویشناک ضرور ہے لیکن کسی نے کہا تھا ” کہ ہر آنے والے طوفان سے پہلے ایک جان لیوا خاموشی چھا جاتی ہے “ اس وقت مسلمان خاموش ہیں،صبر کررہے ہیں،یہ اچھا ہے۔ان شا اللہ تبدیلی آئے گی انقلاب آئے گا ضرورت ہے سنبھلنے کی ، آگے بڑھنے کی ،عقل مندی سے کام لینے کی

2 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی