ایک پر اسرار حویلی اور مشہور عامل کا سچا واقعہ

 ایک پر اسرار حویلی اور مشہور عامل کا سچا واقعہ

*✍️بقلم: حسین*

وہ ایک حویلی تھی،بہت بڑی حویلی،مگر وہ حویلی انسان اور انسانی وجود سے خالی تھی، لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ اس میں جناتوں اور پراسرار طاقتوں کا ڈیرہ ہے،اس حویلی کا مالک بہت بڑا تاجر اور مالدار شخص تھا، مگر کبھی اسےحویلی میں داخل ہونے کی ہمت نہیں ہوتی تھی،اس لئے کہ آس پاس کے بہت سارے لوگوں نے رات کو اس حویلی سے عجیب و غریب قسم کی آوازیں سنیں تھیں، دروازوں کے کھلنے بند ہونے کی آوازیں مسلسل آتی تھی آس پاس کے لوگ بھی اس سے مسلسل پریشان رہا کرتے تھے، مالک بھی پریشان رہتا تھا، پریشانی یہ نہیں تھی کہ اسے کوئی عامل اور جن بھگانے والامیسرنہیں آتا تھا، بلکہ مسئلہ یہ تھا اور پریشان کن بات یہ تھی کہ اس نے بہت سے عاملوں کو بلایا تھا اور بے دریغ روپے پیسے خرچ کیے تھے، مگر کوئی بھی اس حویلی کو جناتوں سے اور پر اسرار قوتوں سے پاک کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکاتھا بلکہ تین عامل تو اس حویلی میں عمل کرتے کرتے لقمۂ اجل بن چکے تھے۔حویلی کا مالک ان سب باتوں سے پریشان رہتا تھا اور روز بروز اس کی تشویش برھتی ہی جا رہی تھی،اسے کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرے، بے شمار دولت اور مال و زر ہونے کے باوجود بھی وہ مغموم اور بے چین رہتا تھا۔

اس کے علاقے میں ایک مسجد تھی جہاں وہ نماز کے لیے کبھی کبھی جایا کرتا تھا اس مسجد کے امام کے بارے میں لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ اس نے بھی کچھ عمل کر رکھا ہے چنانچہ اس حویلی کا مالک انتہائی لاچار اور مایوس ہو کر نماز کے بعد مسجد کے امام کے حجرے کا رخ کیا اور جا کر سارے حالات بتائے اور اپنی لاچاری و بے چارگی کا ذکر کیا اور اپنی تمام پریشانیوں اور مشکلات سے امام صاحب کو آگاہ کیا اور بہت زور دے کر اصرار کے ساتھ کہا امام صاحب آپ ہی بتائیے میں کیا کروں؟، اس کے چہرےسے اس کی بیچارگی لاچاری مجبوری مترشح ہوتی تھی اور اس کی باتوں سے اس کےغم اور بے چینی کا اندازہ لگانا مشکل نہ تھا مسجد کا امام اس کا حوصلہ بندھاتا رہا، اسے ہمت دی اور کہا کہ اس سلسلے میں اپنے استاد سے رابطہ کرکے ضرور کوئی بندوبست کروں گا اس شخص نے ملتجی نگاہوں سے امام کی طرف دیکھا اور کہا کہ ضرور امام صاحب ضرور! آپ کی بڑی مہربانی ہوگی اور میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گا امام صاحب نے اس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر سہلاتے ہوئے کہا،بالکل نہ گھبرائیے میرے استاذ بہت بڑے عامل ہیں اور وہ ضرور کوئی نہ کوئی راستہ نکالیں گے، پھر وہ شخص شکریہ اور سلام کے ساتھ رخصت ہو گیا۔

چند دنوں کے بعد امام مسجد نے اپنے عامل استاذ کو رابطہ کرکے بلا لیا استاد نے تمام تفصیلات سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد مغرب کی نماز پڑھ کر حویلی میں داخل ہوا اس کے ساتھ مسجد کا امام اور دیگرشاگرد تھے،حویلی میں داخل ہوتے ہی مسجد کا امام اور دیگر شاگردوں کے جسم پر سنسنی دوڑ گئی مگر وہ عامل استاذ انتہائی چاق وچوبند ہشاش بشاش مسکراتا ہوا اندر داخل ہو رہا تھا جیسے اس کے لیے یہ معمول کی بات تھی حویلی کی زمین پر چند دبیز اور خوبصورت قالین بچھے تھے، حویلی کی چاروں طرف تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پھول کی خوبصورت گلدستے سجے ہوئے تھے دیواروں پر کہیں کہیں مختلف چیزوں کی پینٹنگ آویزاں تھیں، یہ بے شمار کمروں پر مشتمل مختلف خوبصورت اور بیش بہا اشیاء سے مزین ایک شاندار حویلی تھی، مگر ان سب کے باوجود ایک خوفناک سناٹا طاری تھا ہر طرف ہو کا عالم تھا ،حویلی کے جن دو بڑے کمروں کے بارے میں مشہور تھا کہ ان میں جن بھوت پریت اور چڑیلوں کا زیادہ ڈیرہ ہے ان میں سے ایک بڑا کمرہ تنہا اپنے لیے عامل نے منتخب کیا اور شاگردوں سے کہا جس میں امام مسجدبھی شامل تھا کہ تم سب دوسرے والے کمرہ میں چلے جانا۔ اور سب نے حامی بھر لی۔عشاء کی نماز کے بعد کھانے سے فارغ ہو کر اپنے شاگردوں کے ساتھ عامل اس حویلی میں داخل ہوا اور شاگردوں کو کچھ ہدایات دی اور یہ تاکید کی کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے چار بجے سے پہلے کسی بھی حال میں کمرہ سے باہر نہیں نکلنا ہے۔،ان کے کمرےکا حصار کر کے عامل اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔

 رات کا کچھ حصہ گزرا تھا کہ عجیب و غریب چیخوں کی آوازیں آنے لگیں برتن گرنے کی آواز،کبھی کسی کےرونے کی آواز،اور کبھی کسی اور طرح کی مختلف آوازیں آتی رہیں۔سارے شاگرد سہم گئے دلوں میں خوفناک دھڑکن محسوس ہونے لگے۔

 مگر استاد نے تاکید کی تھی کے کسی بھی حال میں چار بجے سے پہلے کمرہ سے باہر نہیں نکلنا ہے۔سب بے صبری سے چار بجنے کا انتظار کرنے لگے اور ایک ایک لمحہ گن گن کر گزارنے لگے بڑی مشکل سے رات کٹی ۔۔صبح کے چار بجنے کے بعد جب وہ اپنے کمرے سے نکل کر استاذ کے کمرے میں داخل ہوۓ تو کیا دیکھتے ہیں کہ عامل استاد کمرے کے بیچ میں کھڑے ہوئے ہیں اور ان کا سارا جبہ خون سے رنگین ہوچکا ہے مسجد کے امام نے آگے بڑھ کر استاذ سے دریافت کرنے کی جسارت کی، تو استاد نے مسکرا کر بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ میاں! کچھ نہیں۔ در اصل معاملہ یوں ہوا کہ رات بیت الخلاء سے ایک بوڑھا نمودار ہوا، پھر باتیں ہوگئیں، اور بالآخر ہماری کشتی ہو گئی تھوڑی دیر کے بعد وہ غائب ہو گیا اور چھت سےخون کی بارش ہونے لگی، اس کے بعد حویلی شیاطین و جنات، بھوتوں اور پرسرار قوتوں سے پاک ہو گئی اور آج بھی وہ حویلی آباد ہے اور اس کے مکین خوشحال و خوش خرم ہیں۔

محترم قارئین! کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ عامل کون تھا؟ اس عامل کا نام حسن احمد صدیقی تھا جو بعد میں دنیا بھر کے اندر حسن الہاشمی کے نام سے مشہور ہوا اور دنیا سے چلے جانے کے بعداب قاسمی قبرستان میں ابدی نیند کے مزے لوٹ رہا ہے۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی