ملت سے کچھ باتیں ان کی ترجیحات کے حوالے سے

ملت سے کچھ باتیں ان کی ترجیحات کے حوالے سے

فتح محمد ندوی


مسلم اقلیت کو تحریکی مزاج بنانا ہوگا

یہ بات بہت تکلیف دہ بھی ہے اور حساسیت سے بھری ہوئی بھی کہ دنیا بھر میں اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ خصوصا ً مسلم اقلیت ظلم و ستم کی داستانوں کے ایسے عنوان بنے ہوئے ہیں جن کو سن کر اور جان کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔سری لنکا میں تمل ،چائنا،برما اور ہندوستان میں مسلمان امریکہ میں حبشی نسل سے تعلق رکھنے والے کالے لوگ سرکاری ظلم و جبر کی ایک غمناک داستان عبرت ہے۔کو نسا ظلم ایسا ہے جو ان اقلیتوں پر روا نہ رکھا گیا ہو۔ آگ اور خون کے تمام دریاؤں سے یہ اقلیتیں گزریں اور ابھی تک گز رہی ہیں۔ آخر کیا وجوہات ہیں اس بربریت کی ،اس اندھے پن کی اس ظلم نا حق کی ۔ اس سوال پر بھی کیا کبھی غور ہواہے، کبھی سوچا گیا ہے کہ آخر ان اقلیتوں کا قصور کیا ہے؟ تو شاید جواب ہو گا نہیں! ویسے یہ سوال خو د بھی یقیناًحساس اور بے حد سنگین ہے،اس کا جواب اس مختصر سے مضمون میں دینابہت مشکل ہے۔لیکن پھر بھی ان وجوہات کو جاننے کی کوشش کریں گے جن وجوہات کی بنیاد پر اقلیتیں صدیوں سے دنیا بھر میںمشق ستم بنی ہوئی ہیں ۔

دنیا کی تاریخ میں جس اہم اور معنی خیز چیزکوہم نے چھوڑا ہے وہ انسانیت نوازی اور انسانی ہمدردی کا وہ عنصر ہے جس کے تصور کے بغیر اس دنیا اور سماج کا وجود ہی بے معنی اور حرف غلط ہے۔سماج میں اگر انسانیت مرجا ئے اور انسانی اقدار کا خون ہو جا ئے ۔ تو پھرجینے کے لیے بہت کچھ باقی نہیں رہ جاتا بلکہ زندگی کا تصور ہی بے معنی سا ہوجا تاہے ۔

بات ہم اس وقت مسلم اقلیت کی کرتے ہیں ۔ خصوصاً ہندوستا ن کی مسلم اقلیت کے حالات اور احوال کے حوالے سے اس وقت گفتگو بڑی اہمیت کی حا مل ہوگی ۔ وہ بھی اس پس منظر میں کہ مسلم اقلیت اپنے وجود اور مذہبی تشخص کو بچاکر یہاں کے حالات اور ماحول کا مقا بلہ کیسے اور کس طر ح کر سکتی ہے۔ اور کیسے یہاں کی مسلم اقلیت اپنے ایمان اور تہذیب و ثقافت کی بقاء اور تحفظ کے ساتھ اسلام کی سربلندی کے امکانات پیدا کر سکتی ہے ۔ہم مسلمانوں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ بہترین نمونہ اور بہترین اسوہ ہے۔ اور ہر صورت اور ہر حال آئیڈیل ذات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور قیامت تک رہے گی۔ تاہم خاص طور سے آپ کی تیئس سالہ مکی اور مدنی زندگی میں آنے والے ہمارے تمام مسائل اور چیلنج کا خو بصورت اور پا ئیدار حل ہے۔ اقلیت میں ہوں یا اکثریت میں ، حاکم ہوں یا عام آدمی ۔غرض حیات طیبہ کی کوئی بھی جہت اور صورت ہو ہمارے اس میں بڑی رہنمائی اور ہدایات ہیں ۔

اس وقت ا قلیت میں ہونے سے ہندوستانی مسلمانوں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی خوبصورت آئیڈیل ثا بت ہوسکتی ہے ۔ مکی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنہا سخت مخالف ماحول میں فریضہ نبوت اور منصب نبوت کی ادائیگی کا آغاز کیا ۔پھر انہی مخالفتوں کے سخت ہجوم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحیح موقف پر ثابت قدم رہتے ہوئے ۔ خا موشی ، صبر ، ہمت اور استقامت کا پیکر بن کر تبلیغ ، تعلیم او ر تزکیہ کا عمل مسلسل جاری و ساری رکھا ۔بلکہ اپنے مشن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی صورت اور کسی بھی حال میں غافل نہیں ہوئے ۔دعوت دین کا کوئی موقع اور لمحہ ضایع نہیں ہونے دیا ۔ ابتداء میں تین سال خفیہ دعوت کا کام ۔ پھر علی الاعلان کوہ صفا ء کی پہاڑی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار و مشرکین کو دین اسلام اور توحید کی دعوت دی ۔تین سال شعب ابی طالب میں بھی دعوت کا عمل جاری رہا بلکہ حضرت ابو ذر غفاری ؓ اسی سوشل بائیکاٹ کے زمانے میں مسلمان ہو ئے ۔ غرض عرب کے گلی کوچوں ، محلوں اور میلو ں میں ، حج کے موقع پر بہار سے آنے والوں کی رہائش پر جا کر ان کو توحید کی دعوت اور دین اسلام پر مدد طلب کرتے ۔ حتی کہ جب قریش کا جو ش عد ا وت اور اور عناد حد سے بڑھ گیا ادھر ابو طالب کا انتقال ہو گیا تو پھر آپ نے دعوت دین اور اسلام کی حمایت اور تعاون کے لئے طائف کا سفر کیا ۔ وہاں کے لوگوں نے آپ کی مدد اور تعاون کے بجائے آپ کوشدید طور پر زخمی کر دیا ۔ ان لوگوں کے برے سلوک سے آپ کو بڑی تکلیف پہنچی ۔ پھر وہاں سے مایوس اور غم گین مکہ واپس آئے۔ آخر کچھ وقت کے بعد ان کے ظلم و ستم سے مجبور ہوکر آپ کو ہجرت کرنی پڑی۔

تیرہ سالہ مکی زندگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دین کے حوالے سے جہد مسلسل اور صبر و استقامت کا عنوان ہے ۔ اس تیرہ سالہ زندگی میںجو مصائب اور مشکلات آپ کو برداشت کرنے پڑے ۔در اصل وہی آنے والی مدنی زندگی کی فتوحات کا دیباچہ تھے ۔ انہیں پریشانیوں میں آنے والی زندگی کی تمام فتوحات نشو نما پا رہی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مکی زندگی میںتمام تر قریش مکہ کی ستم رانیوں کو صبر اور خاموشی سے برداشت کیا ۔ کوئی دفاعی پوزیشن آپ نے اختیار نہیں کی ۔ تاہم ایسا بھی نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کمزور اور اقلیت میں ہونے کے باوجود مقابلہ اور دفاع نہیں کر سکتے تھے انسان کمزور ہونے کی حالت میں بھی دفاع کر سکتا ہے ۔مفتی اعظم پا کستان حضرت مفتی شفیع صا حب عثمانی نور اللہ مرقدہ نبوت کے مکی دور پر لکھتے ہیں ۔ ’’مکی اور مدنی دور کا تجزیہ کرنے والے بعض حضرات اس کو ضعف و قوت کی دو حا لتوں میں تقسیم کر کے مکی دور کو ضعف کا اور مدنی کو قوت کا دور قرار دیتے ہیں اور احکام و واقعات کو اس ُکے تابع کر تے ہیں ۔ لیکن غور کیا جائے تو صرف ضعف قوت ہی تفاوت احکام کا سبب نہیں بلکہ دوسری حکمتیں بھی ان میں مستور ہیں ورنہ مشرکین مکہ کی زیا دتیوں کا کچھ مقابلہ ضعف کے باجود بھی کیا جا سکتا تھا۔ بظاہر حکمت یہ تھی کہ مکی دور میں افراد سازی ہی کا کام پیش نظرتھا کوئی اجتماعی کام خواہ دفاع کا ہویا اقدام کا اس تکمیل سے پہلے صحیح نہ تھا ۔ آگے لکھتے ہیں جب تک کسی مشین کے پرزے درست نہ ہو ں تو ان سے کوئی اور فیکٹری کیسے تیار کی جا سکتی ہے ۔ ‘‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر امن وسلامتی : ۳۲/

صبر و شکر ، جہد مسلسل اور استقامت سے کام کرنے والی قوموں کی گزشتہ تاریخ فتوحات سے بھری پڑی ہے ۔ آئندہ بھی قوموں کی فتوحات اور کامیابی کا راز اور راستہ انہیں خطوط سے ہو کر گزرے گا ۔ جو قومیں صبر ، خاموشی اور استقامت سے اپنے نصب العین کو سامنے رکھ کر محنت کر تی ہیں ان قوموں کا مقدر اور مستقبل روشن اور تابناک ہوجاتا ہے ۔ بلکہ وہی قومیں دنیا کی قیادت کا فریضہ بھی ا نجام دیتی ہیں ۔ البتہ اس مشن میں اپنے نصب العین کو پانے میں کچھ وقت ضرور لگتاہے۔ لیکن بہر حال منزل ایک نہ ایک دن ان کے قدم چوم کر استقبال کر تی ہے ۔

بہر حال اقلیتوں کو خصو صاً مسلم اقلیت کو اپنے تحفظات کے لیے خودکچھ اقدامات کی ضرورت ہے۔انہیں اول مرحلے میں اپنے مزاج کو تحریکی بنانا ہوگا ،پھر اس تحریکی مزاج کے ساتھ سماجی ،سیاسی اور فلاحی کاموں میں اپنے عمل سے زیادہ اپنے کردار اوراخلاقیات سے لوگوں کو

اپنی شخصیت کا تعارف کرانا ہوگا۔اقلیتوں میں جو صاحب حیثیت ہیں انہیں اپنے مال سے اقلیتوں کا تعاون ان کی ضروریات کے مطابق خصوصا تعلیم وغیرہ میں خود مختار ہوکر کام کرنا ہوگا۔بات مختصر یہ ہے کہ تحریکی مزاج اور جہد مسلسل آپ کو ایک نہ ایک دن معاصر قوموں کے شانہ بشانہ کھڑا گردیگا۔دنیا میں بہت ساری اقلیتیں ہیں جو ملکوں کو چلارہی ہیں۔شرط مضبوط ارادہ اور مضبوط اعصاب ہیں۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی