میرا محمد ﷺ عظیم تر ہے


میرا محمد ﷺ عظیم تر ہے
از قلم: عتیق الرحمن ثاقب


ہم اور ہماری زندگی سب کچھ یہاں تک کہ ہمارا ایمان بھی حبیب ﷺ کے رہین منت ہے، محمد عربی ﷺ کے سر پر تاج نبوت لگنے سے خود نبوت بھی مزید مزین ہوگئی، ہم حضور اکرم ﷺ کو جس بھی حیثیت سے دیکھیں وہ کامل و اکمل نظر آتے ہیں مسلمان تو مسلمان غیر بھی حضور اکرم ﷺ کی زندگی کو پڑھ کر متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے، مائیکل ہارٹ نامی ایک عیسائی محرر نے کائنات انسانی کے سو افراد چنے جن پر اس نے اپنے قلم کی عرق ریزی کو نکالا، کتاب کا نام ""سو عظیم آدمی"" رکھا قربان جائیے اپنے محبوب ﷺ پر، ایک عیسائی نے نہ صرف حبیب ﷺ کو اس کتاب میں شامل کیا بلکہ ان سو عظیم آدمیوں میں بھی سر فہرست محمد (ﷺ) کو رکھا، جبکہ اپنے پیشوا اور مقتدا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تیسرے نمبر پر لکھا !
اور ایسا ہونا بھی تھا کیونکہ ہر وجہ اور ہر اعتبار سے آپ ﷺ پہلے مقام پر ہی ہیں!

خواہ وہ صف انبیاء کی ہی کیوں نہ ہو!
اسی سبب سرورِ کونین ﷺ پر مکمل لکھنا نا صرف مشکل بلکہ نا ممکن ہے!

آپ ﷺ کی زندگی کو تین مرحلوں میں منقسم کیا جا سکتا ہے

۱۔ نبوت سے قبل ابتدائی چالیس سالہ زندگی!
۲۔ نبوت کے بعد مکی زندگی
۳۔ ہجرت کے بعد مدنی زندگی
لیکن ہر تقسیم شدہ حصہ مزید منقسم ہوتا ہے اگر انہیں منقسم کر دیا جائے تو کسی انسان کے بس میں نہیں کہ وہ حضور اکرم ﷺ کے حالات و واقعات کو قرطاس کے موتیوں کی لڑی میں پرو سکے!

البتہ ہم یہاں زندگی کے تینوں مراحل کو بتدریج پڑھیں گے اور اپنے لیے موتی اٹھاتے جائیں گے!
بچپن
وہ عہد جو کبھی کسی کا مکلف نہیں ہوتا، جس میں آزادی ہی آزادی ہوتی ہے، نہ کسی کا رعب نا خوف !
سرورِ کائنات ﷺ نے بچپن کو بے مثال بنایا سایۂ پدری نہ ہونے کے باوجود آپ ﷺ خود کو محتاط رکھتے، سر سے پاؤں تک آپ مثال بنتے جاتے، جوں جوں نوجوانی کی طرف بڑھتے خود کو دوسروں کی مدد و حمایت کے لئے تیار کرتے جاتے کائنات کے سب سے خونریز اور جنگجو لوگوں کے درمیان بھی خود کو ہر قسم کی برائیوں سے پاک رکھنے کی کوشش کرتے!

حلیمہ سعدیہ کے گھر سے واپس آکر آپ ﷺ اپنی والدہ حضرت آمنہ بنت وہب کے ساتھ رہنے لگے، اپنی ماں کے لاڈلے بنتے جاتے۔

📩 مدینے کا سفر

آپ ﷺ کی والدہ نے آپ کو ساتھ لیا اور مدینے کا سفر کیا، دراصل حضرت آمنہ آپ ﷺ کے والد حضرت عبد اللہ کی جدائی سے نڈھال تھیں، سفر کا مقصد اپنے شوہر عبد اللہ کی قبر دیکھنا تھا یہ آپ ﷺ کا پہلا سفر تھا جس کی منزل آپ کی ننہال مدینہ تھی، آپ نے مدینہ منورہ میں تیراکی سیکھی، نیز یہاں کی آب و ہوا کو دیکھا، ہائے ہائے یثرب کی سرزمین پر قدم رکھنے کی دیر تھی کہ اشجار و احجار آپ کے قدموں میں جھک گئے، اہل مدینہ نہیں جانتے تھے کہ جو آج مہمان بن کر آیا ہے دراصل وہ یوسف مصر کا بھی آقا ہے، جو یہاں تاقیامت رہنے والا ہے
ایک صبح کو آپ ﷺ کی والدہ نے رخت سفر باندھا اور مکہ واپسی کا قصد کیا لیکن اب وہ عبد اللہ کی قبر سے دور جانے کے صدمے سے دوچار ہوچکی تھیں مقام ابوا پر پہنچے تو حضرت آمنہ کو رب ذوالجلال نے اپنے پاس بلا لیا، چھ سال کا بچہ ماں کی قبر سے لپٹ کر دہائی لگا رہا تھا: میری پیاری امی! اٹھیے نا گھر چلتے ہیں!
پڑھنے والے یہ کائنات کا سردار ہے جس کے قدموں تلے فرشتے اپنے پر ادب سے بچھاتے تھے اپنی ماں کی جدائی پر نڈھال ہو کر قبر سے لپٹ کر رو رہا تھا
نا ماں نا باپ نا کوئی پرسان حال اور ابوا کا سنسان!
حبیب ﷺ کے چہرے پر آنسوؤں کی جھڑیاں بہ رہی تھی زمین و آسماں لرزہ براندام تھے کہ یہ کیا ہوگیا جو سارے جہان کا سہارا تھا اسی کا سہارا ٹوٹ گیا یہ تو اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو اتنی طاقت دی تھی کہ وہ یہ منظر دیکھ کر بھی چپ چاپ سہ گئی ورنہ کرہ ارض نے پھٹ جانا تھا کہ آج اس پر امام الانبیاء کے آنسوں نکل رہے ہیں!
ابو لہب کی باندی حضرت ثوبیہ رضـ (جنہیں آپ کی رضاعی والدہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے) نے سہارا دیا ساتھ لیا اور مکہ آگئیں!
آج پہلی شام تھی، سب کھانا کھا کر سو چکے تھے، لیکن کہیں ہچکیوں کی آواز تھی، کسی کا سینہ درد و الم سہ رہا تھا، کسی کی آنکھوں سے بہتے موتی روداد کرب سنا رہے تھے، آج کائنات کا سردار خود کو اکیلا محسوس کررہا تھا!
کیسے آپ ﷺ اس شب کو سوئے کیسے یہ صدمہ برداشت کیا یہ تو اللہ تعالیٰ ہی جانے کیوں کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ حبیب ﷺ سے کون محبت کر سکتا ہے!

📩 پھر سے تنہائی

چھ سال کی عمر میں آپ بظاہر تنہا ہو چکے تھے، واپسی پر آپ کے دادا عبدالمطلب نے آپ کو اپنی تربیت میں لیا، دادا عبدالمطلب ہمیشہ آپ ﷺ کو اپنے پاس رکھتے تھے، پل بھر کے لئے بھی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتے تھے، آٹھ سال کی عمر تھی گتے دادا بھی داغ مفارقت دے گئے، آپ چھوٹے سے تھے، دادا عبدالمطلب کے جنازے کے پیچھے چلے چلے جاتے تھے، اشک آنکھوں سے بہتے جاتے تھے، ننھی سی جان اب خود کو تنہا سمجھ رہی تھی، عبد المطلب کی وفات کے بعد آپ کے چچا ابو طالب نے آپ کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی، ابو طالب بقیہ چچاؤں سے کسی قدر غریب تھے، حبیب ﷺ کا ذہن اس بات پر فکر مند تھا کہ غریب چچا پر کیوں کر اپنا بوجھ ڈالا جائے!

📩 ذمہ داریوں کا بوجھ!

ابو طالب کثیر العیال تھے، اسی لیے آپ ﷺ چھوٹے موٹے کاموں میں ہاتھ بٹانے لگے، اجرت پر بکریاں بھی چراتے تھے، یہ شاید امت کو سبق تھا کہ اجرت پر کام کرنے کے سے کوئی چھوٹا نہیں ہوتا بلکہ حرام طریقے سے رزق کھانے والا چھوٹا ہوتا ہے، مزدوری اور اجرت پر کام کر کے کھانے والے کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند مقام ہے!
ابو طالب سالہا سال لوگوں کا مال لے کر بغرض تجارت ملک شام جایا کرتے تھے، چونکہ ملک شام تجارت کا بڑا مرکز تھا اسی لیے آپ بھی جانا چاہتے تھے!

ابو طالب کو نجومیوں کے ذریعے یہ خبر لگ چکی تھی کہ محمد {ﷺ} کوئی عام انسان نہیں ہیں، بلکہ یہ خدا کے برگزیدہ نبی اور رسول ہیں!
اسی لیے آپ کو ساتھ نہیں لے جاتے تھے!
آپ ﷺ بارہ سال کے ہو چکے تھے، زمانے کی تلخیوں سے بخوبی واقف تھے، اسی لیے اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ پہلا سفر بغرض تجارت ملک شام کا کیا!

📩 جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے!

شہر بصری پہنچے تو ایک (نصرانی یا یہودی) راہب (جس کا نام جرجیس تھا اور بحیرا راہب کے نام سے مشہور تھا) سے ملاقات ہوئی، اس نے چہرے پر علامات نبوت دیکھی، اشجار و احجار کو آپ ﷺ کے سامنے جھکتے دیکھا تو ابو طالب کے پاس دوڑا چلا آیا، ابو طالب سے استفسار کیا اور پھر کہنے لگا:
یہ نوجوان آنے والے وقت کا عظیم الشان نبی ہے، اگر آپ انہیں اپنے ساتھ شام لے گئے تو یہودی انہیں پہچان لیں گے، پھر انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے!
ابو طالب پہلے ہی ان معاملات سے ڈرے سہمے تھے اسی لیے آپ کو وہیں سے واپس مکہ بھیج دیا !

آپ ﷺ کا طرز عمل دیکھ کر ہر شخص آپ سے عزت و احترام سے پیش آتا، آپ ﷺ کو اذیت دینے سے گریز کرتا، آپ اہل مکہ میں سچائی اور ایمانداری کی تصویر بن گئے تھے!
عبد اللہ بن ابی الحمساء تجارتی ساتھی تھے، کسی معاملے میں انہوں نے آپ کو ٹھہرایا، گھر جا کر وہ بھول گئے، تین دن بعد وہاں سے گزرے تو آپ کو وہیں کھڑے پایا، وہ آکر معذرت کرنے لگے، آپ ﷺ نے نا ہی غصہ کیا نا ہی ڈانٹا فقط اتنا جملہ (”یَا فَتٰی! لَقَدْ شَقَقْتَ عَلَيَّ أَنَا ہٰہُنَا مُنْذُ ثَلَاثٍ أَنْتَظِرُکَ“) {نوجوان تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا میں یہاں آپ کا تین دن سے انتظار کررہا ہوں} کہ کر خاموش ہوگئے!
دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ
میں سب کو مانتا ہوں مگر مصطفٰی کے بعد



Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی