لمحۂ رواں محمد فہیم الدین بجنوری قاسمی خادم تدریس دار العلوم دیوبند

 *لمحہء رواں*

 

 *محمد فہیم الدین بجنوری قاسمی* 

 *خادم تدریس دارالعلوم دیوبند* 

 *14 صفر 1443 ھ -22 ستمبر 2021 ء* 


 بسم اللہ الرحمن الرحیم، حامدًا ومصلیًا أما بعد: 


آگ  ہے  اولاد   ابراہیم   ہے   نمرود  ہے

کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے



 غزوۂ احد سے متعلق احادیث کی شرح سے فارغ ہونے کے بعد، وساوس کا سخت ہجوم ہے، خوش فہمی کے نوع بہ نوع شیش محل معرض خطر میں آگئے ہیں، جن مصروفیات سے بڑی بڑی امیدیں وابستہ تھیں، ان کی مصداقیت پر سیاہ بادل منڈلارہے ہیں۔

  احد کے دامن میں، ”وجہِ کون ومکاں“ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے، ”بارگاہِ صمدی“ (عز وجل) میں، خون کا نذرانہ پیش کیا اور خدمت دین کا دم بھرنے والوں کے لیے، اس راہ کے خط و خال طے کردیے، رخسار وں کے زخم ایسے نہ تھے کہ عرش خاموش رہتا، یا آسمان وزمین لخت لخت نہ ہوتے؛ مگر یہ سب ہوا اور ”عشقِ ازل“ نے، اس تاریک باب کو رقم ہونے کی اجازت بھی دی۔


 مفکر اسلام، حضرت مولانا علی میاں ندوی علیہ الرحمہ کی ژرف نگاہی کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انھوں خدام کی تاریخ کے لیے نام کا انتخاب کیا، تو ”دعوت“ کے ساتھ”عزیمت“ کا لاحقہ بھی شامل کیا؛ کیوں کہ دعوت کی تاریخ، اپنے تابانی کے لیے، ہمیشہ عزیمت کی احسان مند رہی ہے، بندگانِ اولوا العزم نے، اس سنہرے سلسلے کی آب یاری، اپنے خون سے کی ہے، یہاں قدم قدم بلائیں ہیں، زندگی کو عزیز رکھنے والے، یہ سودا کیوں کر اپنا سکتے ہیں؟

 ہماری جماعت کا آغاز، حجۃ الاسلام حضرت نانوتوی علیہ الرحمہ نے علم اسلام اٹھا کر کیا تھا، حضرت شیخ الہند علیہ الرحمہ نے، اپنے استاذ سے ”رزم وبزم“ کے آداب، بہ یک وقت سیکھے تھے، شیخ الاسلام حضرت مدنی علیہ الرحمہ بھی، ہر دو میدان کے وارث ہوئے اور انھوں نے، اپنے دمِ گرم سے ثابت کیا کہ اس چہار دیواری سے وابستہ شاخیں، شمشیر براں بھی ہیں۔

 پھر "رزم وبزم" کی جامعیت میں، رفتہ رفتہ ادبار آیا؛ تا آں کہ ہم ایک عافیت پسند گروہ میں تبدیل ہوگئے، خوابوں کی آسائشیں ہمیں حقیقی معلوم ہوئیں اور کمزور بنیادوں پر قائم آسودگی ہمہ تسکین بن گئی، ایک جانب تاریخ دعوت وعزیمت ہے، جو دارورسن سے گذر کر آئی ہے، دوسری جانب گوشہ ہائے عافیت ہیں، جن میں ہم زندگی گزار رہے ہیں، یا صحیح تعبیر میں: ”زندگی ہمارے اوپر سے گذر رہی رہے“۔

  میں، ہر دور کے اہل عزم کا خون بہا دیکھنے کے بعد، خدمت دین کے عنوان سے پھیلی ہوئی، موجودہ سرگرمیوں کے لیے تاویل کی جستجو میں ہوں، کلف سے مزین، چہکتے لباسوں میں، مسند تدریس کو زینت دینے والوں کی نظیریں، ہمارے ماضی نے محفوظ نہیں کی ہیں، عین ائیر کنڈیشن کے نیچے بیٹھ کر، جب میں اس مسودے کو آخری شکل دے رہا ہوں، تو میری اس تخلیق کاری کو، ضمیر کی شدید مزاحمت کا سامنا ہے، دور افتادہ اندرون، مجھے ”غازیِ گفتار“ کا طعنہ بھی دے رہا ہے۔

 بلا شبہ اکابر کی قربانیاں طاقتور تھیں؛ مگر تغیر پذیر دنیا میں ہر شے میعاد کی پابند ہے، یہی کیا کم ہے کہ ان کی برکتیں، نصف صدی، ہمارے لیے، سد سکندری بنی رہیں، ہم اپنے بزرگوں کی کاوشوں کے ثمرات سے لطف اندوز ہوچکے، اب پسِ دیوار ایک بار پھر آگ ہے، اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی