ایک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے ادیب العصر مخدوم مکرم مولانا نور عالم خلیل امینی رح

 *ایک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے!*

*ادیب العصر مخدوم مکرم مولانا نور عالم خلیل امینی رح*

*چوتھی قسط*

از: *اعجاز الحق خلیل شمس پوری سہارنپوری*

*گزشتہ سے پیوستہ*

وہ واقعہ کچھ یوں تھا کہ آپ نے فرمایا : کہ جس وقت میں امینیہ دہلی میں زیر تعلیم تھا، تو میں کشمیری گیٹ پر لب سڑک کھڑا تھا، سڑک کے اس پار دوسری جانب اردو کے اخبار کا ایک تراشا ہوا کے دوش پر سوار ادھر سے ادھر پاؤں کے تلے روندا جارہا تھا، میں بچپن ہی سے حضرت تھانوی رح کی کتابوں کا دلدادہ تھا،ان کی کتابوں میں ہم نے پڑھ رکھا تھا کہ قلم اور کاغذ کے آداب اور ادوات علم کا پاس و لحاظ اور محبت کس درجہ ہونا چاہیے ! ان سب چیزوں سے آگہی مجھے وہیں سے عطا ہوئی تھی، میں نے سڑک کو عبور کر کے جیسے ہی وہ اخبار کا تراشا اٹھایا تو اس پر ایک فارسی کا شعر موجود تھا، وہ اخبار انتہائی بوسیدہ اور پرانا اخبار معلوم ہورہا تھا، وہ شعر ایسا تھا کہ اس کا ایک ہی مصرعہ عام طور پر نقل ہوتا چلا آیا ہے، آپ نے غالباً مولانا عبد الماجد دریا بادی کا ذکر کیا کہ ان کی کتاب میں بھی وہی مصرعۂ مشہور ہی درج ہے؛ جو کہ شعر کا دوسرا مصرعہ ہے اور وہ یہ ہے : *شنیدہ کہ بود مانند دیدہ* 

اور اس کا پہلا مصرعہ ذہن و دماغ کی اسکرین پر زندہ پایندہ نہیں ہے  اور نہ ہی اس قدر شہرت کی بلندیوں کو چھوا ہے جس قدر پہلا مصرعہ زباں زد خواص و عام ہے ، 

اس اخبار کے تراشے میں وہ پورا شعر مذکور تھا اور وہ یوں ہے :

 *ترا دیدہ و یوسف را شنیدہ*

  *شنیدہ کہ بود مانند دیدہ* 

یعنی عاشق اپنی معشوقہ سے کہہ رہا ہے کہ یوسف علیہ السلام اور ان کے حسن و قطع انگشت کے حوالے سے لوگوں نے محض سن رکھا ہے، دیکھا نہیں ہے، تیرا معاملہ ان سے مختلف ہے؛ بل کہ بڑھا ہوا ہے ، کہ تجھے اور تیرے حسن کو دیکھا ہے سنا نہیں ہے، تو تو دیدہ ہے اور وہ شنیدہ ہیں، اور ضابطہ ہے کہ شنیدہ دیدہ کے مقابلہ میں وہ معنی نہیں رکھتا جو دیدہ رکھتا ہے، یعنی سنی ہوئی چیز دیکھی ہوئی چیز سے بڑھ نہیں سکتی ہے، تو حسن یوسف بھی تجھ سے بڑھا ہوا نہیں ہے، خیر یہ تو سب شعراء کی موشگافیاں ہیں، اور ہفوات کے قبیل سے ہے لیکن طرز استدلال قابل تعجب ہے، اور مجھے بے انتہا خوشی ہوئی کہ مجھے مکمل شعر سے آگہی ہوگئی _ تو دیکھیے! اس شعر کا مصرعہ ثانی حد شہرت کو پہنچا ہوا ہے لیکن پہلا مصرعہ ایسا گم ہوا کہ لوگوں کے ذہنوں سے محو ہوگیا ۔ 

احقر جس وقت ششم میں پہنچا تو اللہ کے فضل و کرم سے احقر کے نام کا قرعہ اسی ترتیب کی فہرست میں تھا، جس میں حضرت الاستاذ اپنی ذہانت اخاذ، بحر ذخار برجستہ عمدہ تعبیرات ادبی فن کاری و پرکاری، پر لطف تقریر کی سحرکاری، متنبی کے سوز و گداز، خود داری و خود شناسی، حوصلہ مندی و وفاداری، جوش جنوں و آبلہ پائی اور ہمت و جواں مردی پر مشتمل اشعار اس پر مستزاد دل چسپ و دل نشیں تشریح و توضیح سے ایک سماں باندھ دیتے تھے اور یہ ترتیب (ششم ثانیہ) آپ ہی کی بہ نسبت معروف تھی ، طلباء آپ کے ادبی ذوق اور ادبی دسترخوان سے خوشہ چینی کے لیے اور آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کے لیے اس ترتیب میں شمولیت کی خاطر بے حد تگ و دو کرتے نظر آتے تھے۔ 

بس اس ترتیب میں میرا نام آنے کی دیر تھی کہ مجھے مستقل آپ کی خدمت کی سعادت نصیب ہوئی اور میں تاحین حیات آپ کا عصا بن گیا، جس کے سہارے آپ درسگاہ اور دیگر اہم پروگرام اور میٹنگوں میں شرکت فرماتے تھے، اور احقر آپ کی ضرورت کو آپ کے بتائے ہوئے طریقے اور سلیقے سے بہ خوبی انجام دیتا رہا، احقر نے اخیر حیات تک آپ کا ایسا خیال رکھا کہ آپ خوش ہوتے تھے اور دعاؤں سے نوازتے تھے، اور جوں جوں احقر کی فراغت کا وقت قریب آتا گیا آپ کو اس بات کا قلق رہنے لگا جس کا آپ نے بارہا اظہار فرمایا:  کہ معلوم نہیں تمہارے بعد مجھے تم جیسا کوئی ملے گا یا نہیں ! یہ محض آپ کی محبت تھی،کبھی فرماتے کہ : تم کسی ایسے طالب علم کو تیار کردو جو تمہارے بعد کام آسکے، اور تمہاری جگہ لے لے ،اس لیے کہ حضرت الاستاذ کی ڈانٹ ڈپٹ کو برداشت کرنا بھی دل گردہ کا کام ہوتا تھا، اور آپ کے مزاج کو سمجھنا مولانا کے نزدیک بہت بڑی فتح تھی ؛ جس میں احقر کو ایک سال لگا ،خدمت کے پہلے سال آپ کی ڈانٹ ڈپٹ، تادیبی کارروائی اور مربیانہ رہنمائی اس قدر شدید ہوتی تھی کہ اس عرصہ میں کئی معاون خادم معاونت سے دست بردار ہوئے، اور یہ سب آپ اپنے سے منسوب شخص کو حیات کے جملہ گوشوں کے آداب سے آگاہ کرنے کے لیے ہر طرح کی تادیبی کاروائی عمل میں لاتے تھے ؛ لیکن احقر نے ہر طرح کی ترشی اور تلخی برداشت کی جس کے بعد حضرت کو بے پناہ محبت ہوگئی، اور میں آپ کے مزاج و منہاج سے خوب واقف ہوگیا؛حتی کہ آپ نے میرے اندر سے بد سلیقگی ،پھوہڑپن اور بے ڈھنگے پن کو بہت حد تک نکال باہر کیا، اور آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ؛ اگر میں کہوں کہ احقر نے حضرت الاستاذ سے دیوان متنبی اور دیوان حماسہ (باب الادب)  کے علاوہ کون سی ایسی کتاب پڑھی جس کے درس سے میرے رفقاء درس محروم رہے تو میں کہوں گا :کہ آپ نے مجھے آداب حیات پڑھائی، بہت سی فنی مہارتوں کے ساتھ ساتھ زندگی کی ترقی و تعمیر و نشو و نما کے ہمہ جہت آداب سے آگاہ فرمایا؛ حتی کہ نشست و برخاست، دعوت و ملاقات، سیاحت و اسفار، دید و شنید، حرکات و سکنات، مجلس عام یا بزم خاص ،میزبان و مہمان، ذمہ داری کے احساسات، دسترخوان اٹھانے بچھانے کے جملہ اصول و آداب نہ صرف بتاتے اور سمجھاتے تھے؛ بل کہ موقع آنے پر اس پر عقابی نظر بھی رکھتے تھے، احقر سے جہاں تک ہوسکتا تھا ان میں سے ممکنہ اصول کی پاسداری کرتا تھا، اور حضرت کو شکایت کا موقع نہ آنے دیتا تھا، پھر ایک وقت وہ آیا کہ میری عدم موجودگی میں اگر کسی اور طالب علم سے آپ کا سابقہ پڑتا،تو آپ اس طالب علم احقر   کا تذکرہ ضرور کرتے اور ایک طالب علم نے بتایا کہ آپ نے درسگاہ میں بھی اس بات کا ذکر کیا کہ ایک سہارنپوری طالب علم ہے جو بہت جلد کسی چیز کو اخذ کرلیتا ہے یعنی میں نے اس کو کوئی چیز سمجھائی یا کوئی بات بتائی وہ اس نے گرہ باندھ لی؛ حتی کہ جوتے پہنانے،نکالنے، وقت کی پابندی، اور ہاتھ پکڑ کر چلنے کا سلیقہ اس طور سے سیکھا کہ اگر وہ نہ ہو تو مجھے تکلیف و مشقت کے ساتھ ساتھ بے حد تکلف کا سامنا ہوتا ہے اور آپ نے بارہا اس چیز کا اظہار احقر کے سامنے بھی فرمایا ہے،کہتے تھے؛: کہ نیا آنےوالا طالب علم ان تمام چیزوں سے عاری اور بتانے کے باوجود سمجھنے کی صلاحیت سے خالی نظر آتا ہے۔

*جاری*۔۔۔۔۔۔۔۔ .....

مقالات و مضامین 

mdalij802@gmail.com 

کاروان علم کے ویب سائٹ پر آپ بھی بھیج سکتے ہیں مقالات و مضامین و مسائل خبریں نعتیہ اشعار نظمیں غزلیں وغیرہ

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی