کیا ہندوستان میں صحاب کرام آئیں



بعض تاریخی حقائق سے  معلوم ہوتا ہےکہ ہندوستان میں بھی صحابی ہوئے ہیں یعنی ہندستان کے رہنے والے جنہوں نے آپ علیہ السلام سے ملاقات کی اور اسلام قبول کیا کیونکہ آپ علیہ السلام کی بعثت کے ابتدائی مراحل ہی میں اسلام اہل ہند تک پہنچ چکا تھا جیسا کہ بعض تاریخی روایات سے معلوم ہوتا کہ ہندوستان کے شہر ”قنوج“ کا بادشاہ سربانک معجزہٴ شق القمر کو دیکھ کر نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کیا، اسی طرح بعض روایات ہیں کہ ایک اور ہندی صحابی بابارتن ہندی کی ملاقات اور نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے چند احادیث کی روایت بھی ثابت ہے، آج بھی بابارتن ہندی کا مزار مشرقی پنجاب کے شہر بھنڈہ میں موجود ہے، اسی طرح ایک ہندوستانی بادشاہ کا نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں تحفہ بھیجنا بھی ثابت ہے جیسا کہ محدث کبیر حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب *”المستدرک“ میں اس واقعہ کو ذکر کیا ہے، اسی طرح اہل سرندیپ نے بھی نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں ایک عقلمند، ذی شعور اور ذکی الفطرت شخص کو تعلیمات نبویہ کے مشاہدے کے لئے عرب تاجروں کے ساتھ روانہ کیا تھا، جب وہ مدینہ پہنچا تو نبی کریم صلى الله عليه وسلم اس دارِفانی سے دارِ باقی کی طرف رحلت فرماچکے تھے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی، اور حضرت عمر خلیفہ منتخب ہوچکے تھے، اس شخص نے اپنے وطن لوٹ کر تعلیمات اسلامیہ کی بہت تعریف کی، اہل سرندیپ اس سے بہت متأثر ہوئے، اس کی برکتیں ہیں جو آج مالدیپ مملکت اسلامیہ کی صورت میں آباد ہے، اس طرح جنگ یمامہ کے بعد حضرت علی کے حصہ میں آنے والی ایک خاتون *”خَوْلَہْ سندیہ حنفیہ“ تھی، جس کے بطن سے آپ کے ایک صاحبزادے محمد بن حنفیہ پیدا ہوئے، علامہ بن خلکان نے اپنی معرکة الآراء تصنیف *”وفیات الاعیان“* میں خولہ کا ہندیہ ہونا ثابت کیا ہے، یہ تو وہ واقعات تھے جن سے بعض اہل ہند کا انفرادی طور پر اسلام میں داخل ہوکر السابقون الاولون کی فہرست میں شامل ہونے کا شرف حاصل کرنا ثابت ہوتا ہے۔۔۔
آپ علیہ السلام جب اس دنیا سے پردہ فرما گئے اور جو ذمداری صحابہ کرام کی تھی یعنی اشاعت اسلام اور تبلیغ دین جسکی غرض سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے وفود کی شکل میں دنیا کے مختلف ممالک کی طرف اسفار شروع کئے ۔۔
امیر الموٴمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منصب خلافت پر فائز ہونے کے چار سال بعد سن ۱۵/ ہجری میں حضرت عثمان بن ابوالعاص کو بحرین اور عمان کا والی مقرر کیا، حضرتِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے برادر محترم ”حضرت حکم بن ابی العاص رضی اللہ عنہ“ کو ایک لشکر کا کمانڈر بنا کر ہندوستان کی بندرگاہ ”تھانہ“ اور ”بھروچ“کے لئے روانہ کیا اور اپنے دوسرے بھائی ”مغیرہ بن ابی العاص ثقفی رضی اللّٰہ عنہ“ کو فوج دے کر،”دبیل (کراچی)“کے لئے روانہ کیا ،مگر یہ غیر مستقل جھڑپیں تھیں، کوئی مستقل فوج کشی اور جنگ نہیں تھی، اس لئے عام تاریخ کی کتابوں میں اس کا ذکر نہیں ملتا، اسی طرح ”مکران، کرمان، رن، بلوچستان، لس بیلا، ملات، ملتان، لاہور، بتوں، کوہاٹ“ اور دیگر علاقوں میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی مقدس جماعت کا ورود مسعود تاریخ کی بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے۔
موٴرخ اسلامی علامہ قاضی محمد اطہر مبارکپوری رحمة اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق سرزمین ہند کو سترہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنہم اجمعین کی قدمبوسی کا شرف حاصل رہا ہے، جبکہ دورِ حاضر کے موٴرخ محمد اسحاق بھٹی کی تحقیق کے مطابق پچیس صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے اقدامِ مبارکہ کی قدم بوسی سرزمین ہند کو حاصل ہوئی، اس طرح قاضی اطہر مبارکپوری رحمة اللہ علیہ نے تابعین کے ورودِ مسعود کا ذکر کرتے ہیں (خلافت راشدہ اور ہندوستان) اور محمد اسحاق بھٹی صاحب ۴۲/تابعین اور ۱۸/تبع تابعین کے ورودِ مسعود کا تذکرہ کرتے ہیں۔
 *(برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش)*
لیکن یہ تاریخی تحقیق ہے جسکے اوپر مکمل اعتماد یا عدم کی بات نہیں جاسکتی ہاں مطلقا صحابہ کرام کی آمد تذکرہ ضرور ملتا ہے اور بعض تاریخی کتابوں واردین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اسماء بھی لکھے گئے ہیں ۔۔
لہذا بہتر ہیکہ مورخ ہند قاضی اطہر مبارکپوری کی عربی کتاب ”رجال السند والہند“ کا مطالعہ کیا جائے ۔۔
واللہ اعلم بالصواب۔۔
محمد علی جوہر سوپولوی

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی