آہ! ایک اور سال ماضی کی ریت میں دب گیا ۔

آہ! ایک اور سال ماضی کی ریت میں دب گیا

ظفر امام  قاسمی کشنگنجوی


وقت ایک ایسا ہواباز پرندہ ہے، تھکاوت جسےکبھی چھو کر بھی نہیں گزرتی،وقت ایک ایسا چلتا پُر ہے جو کبھی دَم بھرنے کو بھی نہیں رکتا،وقت ایک ایسی جوت ہے جو انجمنِ کائنات پر صرف ایک بار ہی جلتی ہے،وقت ایک ایسی کرن ہے جسے آسمان کی تھالی پر پھوٹنے کے لئے بارِ دگر موقع نہیں ملتا، وقت ساحلِ دریا ریت کی دیواروں پر کھڑا کیا گیا ایک ایسا گھروندا ہے جو گردشِ ایام کی ہمکتی لہروں سے ہرآن اپنا وجود گھلاتا رہتا ہے،وقت یخ بستہ موسم میں برفانی چوٹیوں پر جما ہوا برف کا وہ تودہ ہے جو ہر لمحہ پگھلتا رہتا ہے،وقت جب اپنے پڑاؤ میں داخل ہوتا ہے تو وہ سہانے موسم کی طرح لگتا ہے اور جب وہ اپنا رخت سفر باندھ کر رخصت ہوتا ہے تو خواب لگنے لگتا ہے،وقت قدردانوں کے لئے سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہےاور نا قدروں کے لئے ایک کاغذ کی ناؤ سے بڑھ کر کچھ نہیں،وقت کا ہر گزرنے والا لمحہ ماضی کی ریت میں یوں دب جاتا ہے جہاں سے وہ کبھی اپنا سر نہیں ابھار سکتا۔ 

    وقت کی تیز رفتاری عدیم المثال اور اس کی برق رفتاری   بےنظیر ہے،اس ترقی پذیراور مصنوعی ساز دور نے آج تک وقت سے زیادہ تیز رفتار کسی اور شیء کو بنا کر پیش نہیں کرسکا ہے،ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ ہم ؁2020ء کی دہلیز پر کھڑے ہوکر ؁2021ء کا پُرجوش استقبال کر رہے تھے اور آج ہم ؁2022ء کی پشت پر سوار ہوگئے ہیں،اس گزرے ایک سال پر ہم اپنی نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہمیں یوں لگتا ہے جیسے ہماری نظروں کے سامنے بجلی کوند کر بجھ گئی ہو۔ 

ماہ و سال کی یہ متعاقبانہ آمد و رفت کوئی نئی چیز نہیں، بلکہ جب سے مصورِ کائنات نے اس کی پنکھڑیوں میں تخلیقی رنگ بھرا ہے تب سے ہی یہ سلسلہ جاری ہے اور تا قیام قیامت جاری رہے گا،ماہ و سال کا یہ تیز رفتار انقلاب در اصل بنی نوع آدم کو یہ دعوتِ فکر دیتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز انقلابی ہے،یہاں کی کسی بھی شیء کو دوام و بقاء نہیں،بلکہ ہر ایک شیء کو انجام کار فنا کی چادر میں لپٹنا ہے۔  

 سابق و لاحق سال کے بیچ ٣٦٥/ بار سورج اپنے چہرے سے نقاب اٹھاتا اور اتنی ہی بار اس پر نقاب چڑھاتا ہے، ہر صبح اس کی کرنیں خوابِ غفلت میں پڑے انسانوں کو جھنجھوڑ کر جگاتی ہیں اور ہر شام ان کو اپنی فنائیت کی داستان سنا جاتی ہیں کہ مجھے دیکھو اور مجھ سے عبرت حاصل کرو کہ میں جب دن کو اپنے جوبن پر ہوتا ہوں تو بیک وقت پوری کائنات منور ہوجاتی ہے،اور جب شام کا دھندلکا کائنات ارضی پر سایہ فگن ہونے لگتا ہے تو میرا جوبن ماند پڑنا شروع ہوجاتا ہے،حتی کہ وہ نابود ہوجاتا ہے،تو تمہارے اس وجود کی کیا حیثیت کہ جس سے ایک اندھیرا گھر بھی روشن نہیں ہوتا،مگر انسان خوابِ غفلت میں اتنا مدہوش ہوتا ہے کہ نہ ہی سورج کی کرنیں اسے جگا پاتی ہیں اور نہ ہی ان کرنوں کی عبرت خیز فنائیت اس کے دل پر خوف طاری کر پاتی ہے،ان ٣٦٥/ دنوں میں بعض خوش نصیب لوگ ہی ہوتے ہیں جو مقبول نیکیوں کے اتنے ہندسوں کو چھوپاتے ہیں،ان خوش نصیبوں کے علاوہ کچھ تو بس جمود و تعطل کے شکار ہو کر شاید ہی کبھی کوئی نیکی کرلیتے ہیں،اور کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جو نیکیاں تو اَن گنت کرتے ہیں مگر نام و نمود اور شہرت کی بھوک ان کی نیکیوں کو جلا کر یوں خاک آمیز کردیتی ہے جیسے الاؤ کی بھڑکی ہوئی آگ اپنے اوپر پڑنے والے ہر خس و خاشاک کو جلا کر بھسم کر ڈالتی ہے

 یہ تھا کہ جب بھی انقلابِ سال کا موقع آتا ہم اپنے اعمال کے دفتر کو لئے بیٹھ جاتے اور ایک ایک عمل پر نشان لگاتے ہوئے اپنے اعمال کا جائزہ لیتے اور خود احتسابی کرتے کہ اس سال ہمارا وقت کتنا ضائع ہوا اور کتنا وقت ہمارے لئے کار آمد ثابت ہوا،اور ہم نے کتنے عمل ایسے کئے جس کا کرنا بھی ہماری نیت کی بنیاد پر نہ کرنا ثابت ہوا، اپنے کار آمد وقت پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس سے مزید توفیق کا طالب ہوتے اور تضییع اوقات پر کف افسوس ملتے اور اشک ندامت بہاتے ہوئے خدا سے معافی کی الحاح و زاری کرتے اور آئندہ اس طرح کی حرکتوں سے گریز پا رہنے کا عزم مصمم کرتے۔

مگر ہائے افسوس کہ جب اختتامِ سال کا موقع آتا ہے تو اسلام دشمن عناصر کے شانہ بشانہ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد بھی خود احتسابی کرتے ہوئے ماضی کی سستیوں پر اشک ریزی اور مستقبل کے عزائم پر کمربستگی کے بجائے مغربی کلچر کے رنگ میں رنگ جاتی ہے،پکنک کے نام پر ایسی بےہودگی کا مظاہرہ کرتی ہےکہ الامان و الحفیظ،بعض بھولے بھالے اور مآل نا اندیش مسلمان مہینوں پہلے سے ہی شدت کے ساتھ پہلی جنوری کا انتظار کرتے ہیں،پہلی جنوری کی ٹھٹھرتی رات سڑکوں اور شاہ راہ عام پر جشن چراغاں کا سماں پیدا کیا جاتا ہے،بزم عیش و طرب اور کیف و سرور کی محفلیں سجائی جاتی ہیں،پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں،پھلجھڑیاں اڑائی جاتی ہیں، طاؤس و رباب سے ایسی تانیں پیدا کی جاتی جاتی ہیں کہ بام و در وجد میں آجاتے ہیں،انسانی نفوس پر سرشاری اور سرور و مستی کی ایسی پرلذت کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ بے ساختہ ان کی عقل مئے خواری پر جاکر منتج ہوتی ہے،اور پھر جام پر جام انڈیل کر وہ رات بھر اس طرح بے ہنگم شور و غوغا بپا کئے رہتے ہیں جیسے وہ اسی مقصد کے لئے پیدا ہوئے ہوں۔ 

یاد رکھئے! یہ زندگی اور زندگی کا یہ وقت خدا نے آپ کو بے مقصد عطا نہیں کیا ہے،بلکہ اس کے پیچھے ایک ایسی ہوش ربا کہانی چھپی ہے کہ اگر انسان اس پہلو کو سوچ لے تو اسے نہ دن کو چین آئے اور نہ رات کو قرار،مگر آج مادیت پرستی نے ہماری مَت کو اس طرح مار دیا ہے کہ ہمیں وہ کہانی سوائے ایک سَراب کے کچھ نظر نہیں آتی جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی،یہ وقت گلشن جہاں پر صرف ہی ایک بار اپنی بہار دکھلاتا ہے،وقت کا یہ جوبن صرف ایک ہی بار کھلتا ہے،وقت کا لمحہ نکل جانے کے بعد اگر کوئی چراغ لے کر بھی اسے ڈھونڈنا چاہے تو وہ اس کے نقوش پا کو بھی نہیں پاسکتا،عقلمند انسان وہی ہے جو وقت کو گزرنے سے پہلے اسے اپنے کام میں استعمال کرلے۔

تاریخ شاہد ہے کہ جن لوگوں نے وقت کی قدر کی،اس کی اہمیت کو جانا اور اس کے ایک ایک لمحے سے فائدہ اٹھایا وہ زندہ و جاوید ہوگئے،رہتی دنیا تک ہر زمانے میں ان کا نام اس آن، بان اور شان کے ساتھ لیا جائے گا جیسے وہ اُسی زمانے کے لوگ ہوں،اور جن لوگوں نے وقت کی قدر نہ کی،اس کے لمحات کو لہو و لعب اور رنگ رنگلیوں میں ضائع کردیا آج ان کا نام و نشان یوں مٹ گیا ہے جیسے وہ کبھی اس دنیا میں آئے ہی نہ تھے،وہ دنیا میں بے نام ہوئے اور آخرت میں تو بس خدا ہی ان کی ڈگمگاتی کشتی کا ناخدا ہے ۔

شائع کردہ: کاروان علم..... 

مضامین ارسال کرنے کے لئے ای میل  ۔ 

mdalij802@gmail.com

اسے بھی پڑھیں

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی