غیبت زنا سے بھی بد تر

غیبت زنا سے بھی بد تر

 منظر عالم ویشالوی 

متعلم مدرسة العلوم اسلامیہ  ، علی گڑھ

غیبت ایک ایسی بیماری ہے جس نے ہمارے معاشرہ میں سکون ربا پیدا کردیا ہے، لوگوں کو لوگوں سے بدگمان اور بدظن کردیا ہے، آپسی الفت و محبت اور اخوت و بھائی چارگی میں بغض و عداوت پیدا کردیا ہے اور یہ گناہ  مزید زہریلا سانپ بن کر کتنے کو موت کے گھاٹ چڑھا دیا ہے یہ باتیں مشہور ہے کہ  جس جگہ دو چار عورتیں اکٹھا ہوں وہاں یقینی طور پہ غیبت و چغل خوریاں ہوتیں ہونگی؛لیکن موجودہ صورت حال میں صرف عورتوں پہ یہ باتیں منحصر کردینا ظلم ہوگا؛کیونکہ یہ بیماری معاشرہ میں ایسی جڑ پکڑ لی ہے کہ اس میں ان پڑھ گنوار تو ملوث ہیں ہی اہل فضل و اہل مروت بھی شامل ہو چکے ہیں،

حالانکہ قرآن کریم نے واضح طور پہ اسکی ممانعت فرمائی ہے

سورہ حجرات میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

وَلاَ یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضاً اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکِرِ ھْتُمُوْہُ

(ترجمہ)کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کریگا کہ اپنے مرے ہوۓ بھائ کا گوشت کھاۓ؟ اور آگے اس کا جواب اللہ تعالیٰ بتا رہے ہیں کہ اس سے ضرور تم نفرت کروگے ۔

غیبت کی تعریف

کسی بھی مؤمن بھائی کی غیر موجودگی اس کی ایسی عیب جوئی کرنا جو اس میں موجود ہو اور اسے سن لیں تو اسے وہ ناگوار گزرے وہ غیبت ہے

اب اگر ہر فرزندان اسلام اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں اور محاسبہ کریں تو ہر مسلمان اس بدترین اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوگا۔

حالانکہ قرآن کریم نے اپنے مردہ بھائی کا مرا ہوا گوشت کھانے کے مترادف کہا ہے

اور نبی پاک علیہ الصلاة والسلام نے فرمایا  اَلْغِیْبَةُ اَشَدُّ مِنَ الزِّنَا کہا ہے کہ غیبت زنا سے بھی سخت ہے، نیز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مسلمان کی عیب جوئی کرنے کو بدترین سود بھی قرار دیا ہے

پھر بھی ہم اس کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوجاتے ہیں،

بلاشبہ ہم غیبت کرنے میں اپنے سے کمتر ثابت کرنے کے لیے اس کے عیب کا پردہ فاش کرتے ہیں اور اسکی ذلیل و رسوائی اور تمسخر کیا کرتے ہیں اپنا مقام و مرتبہ بڑھانے کہ لیے جو بالکل جائز نہیں ہیں کیونکہ وہ رب رب کریم ہے جو ہمیں اپنے گناہوں کو لوگوں کے سامنے ظاہر کرنے سے منع کرتا ہے بھلا وہ دوسرے کے عیب کا پردہ فاش کرنے کا حکم کیسے دے دیں

اس لیے ضرورت ہیں اس بات کی اگر ہم نے کسی مسلمان بھائی کی غیبت کی ہیں اور وہ اس سے باخبر ہے تو اس سے معافی مانگ لیں جاۓ اور اگر وہ باخبر نہیں ہے تو توبہ و استغفار کریں کیونکہ وہ رب کریم ہے جو معاف کردیگا۔ 

اللہ تعالیٰ تمام امت مسلمہ کو اس مہلک ترین اور حرام گناہ سے امت مسلمہ کوحفظ و امان میں رکھیں آمین یا رب العالمین۔

2 تبصرے

  1. جوابات
    1. مہرِ فاطمی" اُس مہر کو کہا جاتا ہے جو نبی اکرم علیہ الصلاۃ والسلام نے خاتونِ جنت سیدتنا حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور دیگر صاحب زادیوں اور اکثر ازواجِ مطہرات کا مقرر فرمایا ، اُس کی مقدار۵۰۰ درہم چاندی ہے، وہ اس طرح کہ ازواج مطہرات کے بارے میں روایات میں بارہ اوقیہ اورایک نش کی صراحت آئی ہے۔

      حذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی