شادی کے لیے عمر کی نئی تحدید

 شادی کے لیے عمر کی نئی تحدید

 محمد فہیم الدین بجنوری

خادم التدریس دارالعلوم دیوبند


 16 دسمبر 2021ء


آج این ڈی ٹی وی کی ویب سائٹ پر، یہ خبر شہ سرخی میں شائع ہوئی کہ کابینہ نے، شادی کی عمر، اٹھارہ سال سے بڑھا کر، اکیس سال کرنے کی تجویز کو منظوری دے دی ہے۔ 

سیاسی تعبیرات، سیاست پر مبنی ہوتی ہیں، وہاں ایک پردہ ناگزیر سمجھا جاتا ہے؛ لیکن سابق امریکہ صدر نے اس روایت کو توڑا، اس کی زبان، بیشتر حالات میں، ضمیر کا آئینہ رہی، اس نے اگر مسلم ملکوں کو نشانہ بنایا، تو تعبیر بھی صریح استعمال کی، ”دہشت گرد“ یا ”بدی کا محور“ جیسے آسرے تلاش نہیں کیے، بعد میں وہ بھی سیاسی ہوگیا تھا؛ چناں چہ دو ہزار انیس میں، ہمارے وزیر اعظم کو فتح کی مبارک باد دیتے ہوئے، جب اس نے یہ کہا کہ میں آپ کے الیکشن جیتنے کے فن سے متاثر ہوا، تو یہ اس کا ضبط تھا، مجھے اس کے بیان میں ”قبلُ“ اور ”بعدُ“ والی نحوی غایات کی طرح، ”پلوامہ ٹیکنک“ کا لفظ محذوف منوی محسوس ہوا تھا۔ 

”صاحبِ عالم“، الیکشن فن میں مجتہد مطلق ہیں، موضوعات سے زمانی مرور یہ وسوسہ پیدا کرتا ہے کہ اب ماحول گرم نہیں ہوگا؛ لیکن نت نئے اعلان متنبہ کرتے ہیں کہ صاحب کے پاس الیکشن موضوعات کی بھاری بھرکم گٹھری ہے۔ 

عام خیال ہے کہ چوبیس کا الیکشن ایودھیا پر منحصر ہوگا؛ لیکن آثار ایسے نہیں ہیں، اقلیت کی صفوں میں تموج نہ ہو تو مدعا نکھر نہیں پاتا، ایودھیا پر ملت نے صبر کرلیا ہے، افتتاح بھی ایک عارضی ابال کے ماسوا کچھ نہیں ہوگا، مجرد سرد تار بجلی کو حرکت میں نہیں لاتا، اس کے لیے گرم تار کی شرکت درکار ہوتی ہے، جو اب قصہء پارینہ ہوگئی، شادی کے لیے عمر کی نئی تحدید کا جو شوشہ، آج کابینہ کی تجویز میں سامنے آیا ہے، یہ واضح کرتا ہے کہ اگلا پڑاؤ یکساں سول کوڈ ہے۔ 

کابینہ کی نئی تجویز یہ ہے کہ شادی کی عمر ہر دو جنس کے لیے اٹھارہ سے بڑھا کر اکیس کردی جائے، یعنی اکیس سال سے کم عمر کی شادی غیر قانونی ہوگی، کہنے کو تو یہ قانون سب کے لیے ہوگا؛ لیکن ظاہر ہے کہ اس کی زد مذہب وتہذیب والوں تک ہی محدود ہوگی، جن کے مذہب میں ”لیو اِن رِلیشن شپ“، یعنی شادی سے قبل زن وشوئی کے تعلقات کی اجازت نہیں، جن کا دین شادی میں عجلت پر مامور کرتا ہے -بالخصوص صنف نازک کے حق میں-، جن کا ایمان ہے کہ ابتدائی عمر میں لڑکیوں کے رشتے دست غیب سے آتے ہیں، جن کے یہاں بد کاری حرام ہے، وغیرہ وغیرہ؛ ایسے لوگ ہی اس دام کے شکار ہیں۔ 

طلاق ثلاث کی برق عملاً اس لیے ماند رہی ہے کہ واقعات ہی نادر ہیں، پھر باہم تصفیہ ہوجاتا ہے؛ پولیس کچہری کے لیے خود فریق کا ادعا ضروری ہے؛ جب کہ زیر بحث معاملے میں مخبری کافی ہوگی اور کم سنی کا ثبوت بھی آسان ہوگا؛ اس لیے مذہب، تہذیب، روایات، حیا وپاک دامنی والے؛ ایک زیادہ سخت امتحان کے لیے تیار رہیں۔ 

چوں کہ قانون نیا ہے؛ اس لیے کسی استثنا کا سوال ہی نہیں ہے؛ بل کہ اس کی تحریک وترغیب میں آپ کی گھیرا بندی کا خیال سر فہرست ہے، پھر وہ عائلی مسائل سے تعلق رکھتا ہے؛ اس لیے مسلم پرسنل لا بورڈ کی بحث بھی یقینا گرم ہوگی، یہاں سے میڈیا کو ایک نیا سلسلہ ملنے والا ہے، جو بعید نہیں کہ دو ہزار چوبیس میں، یکساں سول کوڈ کی بحث اور نتیجتاً فرقہ پرست نقطہء نظر کی انتخابی فتح پر منتہی ہو، واللہ اعلم۔

کاروان علم کے ویب سائٹ پر مضامین و مقالات ارسال کرنے کے لئے ای میل آڈی 

mdalij802@gmail.com

1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی