*✾_سلطان_الحدیث_سیدنا_حضرت_ابو ہریرہ ؓ_کی_ذات_مقدسہ_ایک_نظر_میں✾* 


*از_✍🏻_*  

*محمد_علی جوہر_سوپولوی_* 

  1.       شمع رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانوں میں ایک جلیل القدر اورعزت وعظمت کا ہمالہ ،حب رسول ﷺ خشیت ِالہی
،تقویٰ و پرہیزگاری،انکساری ،عبادت وریاضت اوراتباع سنت کا پیکر اورپانچ ہزار تین سوچوہتر احادیث طیبہ کے راوی ہونے کے ناطے سے اُمت مسلمہ کے سب سے بڑے راوی ٔحدیث ہونے کااعزازاپنے دامن میں رکھنے والا عظیم شخصیت جماعت صحابۂ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی ایک درخشندہ شخصیت حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کی ذات مقدسہ بھی ہے،۔

  1. سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کی جلالت قدر کا سب بڑا حوالہ توروایت حدیث کی کثرت ہی ہے مگر آپ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے آپ کی حیات کے مختلف گوشے ہمارے لئے مینا رۂ نور ہیں، نام ونسب :آپ رضی اﷲ عنہ کے اصل نام کے متعلق سیرت نگاروں نے مختلف اقوال رقم فرمائیں جن میں عبدشمس ،عبدغنم ،عبداللہ ، عمیر وغیرہ ملتا ہے مگر اللہ رب العزت نے آپ کی کنیت ”ابوہریرہ“ کے ذریعے سے وہ شہرت دائمی عطافرمائی کہ آپ کا اصل نام پس پردہ چلاگیا اورآپ کے ابوہریرہؓ ہونے کومقبولیت عامہ اورتامہ حاصل ہوگئی .آپ رضی اﷲ عنہ کاتعلق یمن کے ایک قبیلہ دوس سے تھا.آپ کے والدگرامی کا نام عمیر بن عامر اور والدہ کانام حضرت اُمیمہ رضی اﷲ عنہا ہے.یمن ہی آپ کی جائے پیدائش ہے اورآپ رضی اﷲ عنہ کی عمرمبارکہ کے ابتدائی تیس برس یمن ہی میں گذرے آپ بچپن میں ہی شفقت پدری سے محروم ہوگئے تھے ،سن سات ہجری میں جب اللہ نے اسلام کوغلبہ عطافرمایا ریاست مدینہ اپنے پورے شان شوکت سے قائم ہوچکی تھی نورنبوت مصطفی ﷺ کی کرنیں افق مدینہ پر پوری آب وتاب سے جھلک رہی تھیں فتح خیبر کے ایام میں آپؓ نے یمن کوخیر باد کہا اورچلتے چلتے بارگا ہ رسالتﷺ میں پہنچے اورپھر ا سی دَرپرعمرتمام کردی، آپ رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے متعلق مختلف اقوال ہیں آپ رضی اللہ عنہ یمن چھوڑنے سے پہلے مسلمان ہوچکے تھے یاپھر خیبر میں ٧/ہجری میں مسلمان ہوئے راحج قول یہی بتا یا گیا ہےکہ آپ اپنے قبیلہ کے مبلغ بعثتِ رسولِ خدا ﷺکے ابتدائی زمانے میں مسلمان ہونے کاشرف پانے والے ”حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ“ کی تبلیغ سے ”مسلمان ہوئے“ اورپھر بعد میں ”یمن“ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے آپ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ کی صحبت کاشرف فقط تین برس حاصل رہا مگر محسوس یہی ہوتا ہے کہ آپ نے ان تین برسوں میں کوئی لمحہ قضا نہیں کیا، محبتِ محمد رسولؐ اور اتباع رسولؐ کا غلبہ آپ کی حیات طیبہ کانمایاں وصف نظر آتا ہے،سفر ہویا حضر ،خلوت وجلوت ،غزوہ وحج ،دن ورات، آپ فیضانِ نبوت سے بڑھ چڑھ کر بہرہ مند ہوتے آپ رضی اﷲ عنہ خود فرماتے ہیں کہ حضو ر ﷺ کامشاہدہ ٔجمال میری روح کی تسکین وراحت اورمیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے (مسنداحمد) اسی عظیم مقصد کے پیش نظر آپ رضی اﷲ عنہ نے مدمینہ منورہ آنے کے بعد اصحاب صفہ کی مقدس جماعت میں شمولیت اختیار فرمائی اس دورمیں ازدواجی زندگی اورکسبِ معاش کی الجھنوں اور رکاوٹوں سے اپنے آپ کو دُور رکھا،صحیح بخاری شریف میں آپ کی مروی حدیث مبارکہ میں آپ رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ میں فقرائے صفہ میں سے ایک نادار اورفقیر شخص تھا (کتاب البسیوع ) ابوہریرہ کنیت کاسبب :حضرت عبداﷲ بن رافع رضی اﷲ عنہ نے ایک دفعہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے آپ کی کنیت کی وجہ پوچھی تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میری کنیت ابوہریرہ ایک چھوٹی بلی کی وجہ سے پڑی جس سے میں کھیلا کرتا تھا. (جامع ترمذی، طبقات ابن سعد) ’’ہرّہ ‘‘بلی کوکہتے ہیں اور’’ہریرہ‘‘ چھوٹی بلی کو ’’ابوہریرہ‘‘ کامطلب ہے ’’چھوٹی بلی‘‘ والا .آپ کا شمار مسجدنبوی میں قائم اسلام کی پہلی درسگاہ صفہ کے ہونہار اورقناعت پسند درویش صحابہ کرام میں ہوتا ہے ہروقت حضور علیہ السلام کی خدمت عالیہ میں حاضر رہتے وضو کے لئے پانی پیش کرتے، اصحاب صفہ میں اشیاء کی تقسیم حضورﷺ آپ کے ذریعے سے فرماتے،آپ پر کریم آقا ﷺ کو بہت اعتبار تھا کسی کوبلانا ہوتا توحکم آ پ کوملتا ،کوئی فرمان جاری ہوتا توسب تک پہنچانا آپ کی ذمہ داری ہوتی. آپ ایک مستعداورمخلص خادم رسول خدا محمد ﷺ تھے. آپ کواپنی والدہ حضرت امیمہ رضی اللہ عنہا سے بے پناہ محبت تھی .آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ نے قبول اسلام سے پہلے ایک دن کچھ ناز یبا الفاظ شانِ رسالت میں کہے جس پر آپﷺ کوبہت صدمہ پہنچا حضور کی خدمت میں معاملہ پیش کر کے ہدایت اور قبول اسلام کی درخواست کی حضور نے اسی وقت دعافرمائی ’’الہی ابوہریرہ کی والدہ کوہدایت عطافرما‘‘، حضرت ابوہریرہ گھر پہنچے تودیکھا دروازہ بند ہے اوراندر پانی گرنے کی آواز آرہی ہے کچھ دیر بعد دروازہ کھلا توآپ کی والدہ کلمہ شہادت پڑھ کرمسلمان ہوگئیں، حضرت ابوہریرہ فرط مسرت سے بے خود آقائے نامدار احمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اوردعا کی قبولیت کی خوشی خبری سنائی حضور نے اللہ عزوجل شکریہ ادا کیا، امام اہلسنت نے اسی مو قعہ کے بارے میں فرمایا. کیوں حت ابو ہریرہ کیسا تھا وہ جام شیر جس سے ستر صا حبوں کا دودھ سے منہ بھر گیا آپؓ نے ٩ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امارت میں تین سو حجاج کرام کے قافلہ میں بھی حج فرمایا اورپھر ١٠/ ہجری حجۃ الوادع کے موقعہ پر بھی حضورﷺ کے ساتھ شریک سفر ہوئے.اس سفر مبارکہ کے احوال کے متعلق بھی آپ رضی اللہ عنہ سے کثیر احادیث مروی ہیں. ”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ“ علم وفضل میں بلند مقام رکھنے کے ساتھ ساتھ راہ حق کے ایک سرفروش مجاہد بھی تھے آپ نے عزوہ ٔخیبر،غزوۂ وادی القریٰ ،غزوۂ ذات الرقاع ، غزوۂ فتح مکہ، غزوہ حنین ،غزوۂ تبوک کے علاوہ بعض سرایا میں بھی شرکت فرمائی ”حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ“ کے دور میں آپ نے فتنہ ارتداد اورمنکرین ِ ختم نبوت کے خلاف بھرپور کارروائیاں کییں ”عہدفاروقی“ میں شام کے محاذ پر مختلف محاذوں میں جنگ یرموک سمیت آپ شریک جہاد رہے ”حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ“ کے دورخلافت میں آرمینیہ، جرجان وغیرہ کے محاذ پر آپ نے غلبۂ اسلام کیلئے جہاد میں شرکت فرمائی ، حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کی شادی یسرہ بنت غزوان سے ہوئی آپ پہلے ان کے غلام تھے پھران کے شوہر بن گئےآپ کے تین بیٹے اورایک بیٹی تھی آپ کی بیٹی کی شادی رئیس التابعین حضرت سعید بن مسیب رحمتہ اﷲ علیہ سے ہوئی تھی. آپ کے بیٹے بھی کثیر احادیث روایات کرنے کااعزا ز رکھتے ہیں.رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوہریرہ علم کاتھیلا ہے (عن ابوسعید خدری مستدرک)امام ابن اسحق کاقول ہے کہ جن تین ہزار احادیث سے احکام شریعت ثابت ہوئے ہیں ان میں سے ڈیڑھ ہزار صرف ”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ“ سے منقول ہیں (حقائق السنن ) آپ کے تلامذہ اورراویاں حدیث کی تعداد کے متعلق امام بخاری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ آٹھ سو سے بھی زیادہ ہے .آپ غیر معمولی حافظہ کے مالک تھے جوآپ کوبارگاہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خاص طورپر چادرمیں ہاتھ بھرکر حضور علیہ السلام نے عطافرماکر سینے سے لگانے کاحکم فرمایا تھا آپ فرماتے ہیں کہ پھر مجھے کوئی بات نہیں بھولتی تھی (بخاری کتاب العلم ) واقعہ کر بلا سے ایک سال قبل ٥٩ہجری میں آپ رضی اللہ عنہ کا وصال مدینہ منورہ میں ہوا، اکابر صحابہ حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما ، حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ جنازے میں شریک ہو ئے ،حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے صاحبزادوں نے جنازے کو کندھا دے کر ”بقیع شریف“ میں پہنچایا،بوقت وصال آپ کی عمر مبارک ٨١/برس تھی. اللہ آپؓ پر اپنی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے.

آمین!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی